یک نہ شد سہ شد

سو سیکیورٹی کے مسائل سے بروقت عہدہ برا ہونے کے لیے کم از کم دو گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پر پہنچنا پڑتا ہے


Amjad Islam Amjad October 02, 2016
[email protected]

BAHAWALPUR: اس بدلتی ہوئی دنیا میں کم و بیش سب کچھ بدل رہا ہے سو اگر یہ محاورہ ''یک نہ شُد دو شُد'' بھی نظریۂ ضرورت کے تحت بدل کر ''سہ شُد'' ہو گیا ہے تو یہ کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں۔ رہی بات نظریۂ ضرورت کی تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ہمیں جمعہ، ہفتہ اور اتوار تینوں دن تین مختلف شہروں میں ان چیریٹی مشاعروں میں شرکت کرنا تھا جو Helping Hand امریکا اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ پاکستان کے اشتراک سے پاکستان کی پسماندہ اور دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ اور نئے اسکولوں کے قیام کے لیے ترتیب دیے گئے تھے۔

امریکا بلکہ ساری مغربی دنیا میں یہ مسئلہ ہے کہ وہاں لوگوں کے پاس اپنے لیے ہفتے میں صرف دو دن اور تین راتیں ہوتی ہیں جنھیں عرف عام میں ویک اینڈ کہا جاتا ہے۔ اس پر یہ ملک رقبے میں اتنا بڑا ہے کہ بذریعہ کار اکثر جگہوں پر اگلے دن پہنچنا ناممکن ہوتا ہے سو مجبوراً فلائٹ لینا پڑتی ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں کہ 9/11 کے بعد سے امریکا خوفزدگی کی حد تک احتیاط پسند ہو گیا ہے۔

سو سیکیورٹی کے مسائل سے بروقت عہدہ برا ہونے کے لیے کم از کم دو گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پر پہنچنا پڑتا ہے۔ اب اس میں فلائٹ کے دورانیے کے ساتھ ساتھ ایئرپورٹ پہنچنے اور اگلے ایئرپورٹ سے اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں بھی کم از کم دو گھنٹے لگتے ہیں۔ یعنی یوں سمجھیے کہ ہمیں روزانہ دن کا بیشتر حصہ کسی ایئرپورٹ کے چکر میں گزارنا پڑتا ہے۔ یعنی میزبان لاکھ اچھے اور انتظامات کتنے ہی عمدہ کیوں نہ ہوں نام نہاد جیٹ لیگ Jet Lag ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔

پہلی ہیٹ ٹرک کی پہلی وکٹ نیوجرسی کا شہر تھا جو نیویارک سے تقریباً جڑا ہوا ہے۔ یہاں ہمارا قیام ہوٹل Double Tree میں تھا اور میزبان برادران فرخ رضا، ثاقب عتیق اور ان کے رفقاء تھے۔

جن سے چند برس پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ برادرم ثاقب عتیق کا توصیفی نام ''آغائے مشکوک'' رکھا گیا تھا کہ وہ کرتے تو ہر کام خوشی اور ذمے داری سے تھے مگر کبھی اس کی تفصیلات نہیں بتاتے تھے۔ اس ''جاسوسی طرز فکر'' کا نقصان اکثر خود ان ہی کو ہوتا تھا۔ مگر ان کا حال ہاکی کے اس کھلاڑی کا سا تھا جو اپنے کرکٹ کھیلنے والے دوستوں پر تنقید کیا کرتا تھا کہ تم اتنے چوڑے بیٹ سے بال کو نہیں روک پاتے جب کہ میں اس پتلی سی سٹک سے اسے روک لیتا ہوں۔

ایک دن تنگ آ کر دوستوں نے انھیں بیٹنگ کے لیے کہا۔ پہلے ہی بال پر ان کی وکٹ اڑگئی جب وجہ پوچھی گئی تو بولے ''اب میں تمہارا بال روکنے کے لیے اپنا اسٹائل تو خراب نہیں کر سکتا تھا'' ہوا یوں کہ انھوں نے مشاعرہ گاہ کے منتظمین سے تقریب ختم کرنے کا وقت دریافت تو کیا لیکن ہمیں بتانے کے بجائے اسے اپنے تک رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب صاحب صدر انور مسعود کی باری آئی تو وہ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ کچھ کیجیے کیونکہ ہال خالی کرنے میں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں۔

اگلا مرحلہ ''اٹلانٹا'' کا شہر تھا۔ جس کے ایئرپورٹ پر 1984ء کے پہلے سفر امریکا میں مجھے، جمیل الدین عالی اور پروین شاکر کو ایک دلچسپ صورت حال میں رکنا پڑا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل میرے سفر نامے ''شہر در شہر'' میں موجود ہے۔

یہاں ہمارے میزبان حافظ امجد سعید تھے جن کا تعلق گوجرانوالہ اور بینکنگ سے تھا مگر اس وقت وہ اپنی ریجن میں ہیلپنگ ہینڈ کی نمئندگی کر رہے تھے اور ان کی خطیبانہ صلاحیت کے پیش نظر فنڈ ریزنگ والے حصے کا کام بھی ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ سو اب ان کا ہمارا ساتھ تقریباً پورے دورے پر محیط تھا۔

اس شہر میں میرے لیے دلچسپی کی سب سے بڑی بات برادرم خواجہ وقاص سے ملاقات تھی جو قریباً 25 برس سے وہاں کی یونیورسٹی میں انگریزی پڑھا رہے ہیں اور ایک بے مثال مترجم بھی ہیں۔ ان کی دیگر خوبیوں میں ان کی ادب اور پاکستان سے محبت، احباب سے مستقل تعلق خاطر اور عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا داماد ہونا بھی تھا جو ان کے تایا بھی لگتے تھے وقاص کے ساتھ اگرچہ مشاعرے کی مصروفیات کے باعث کم وقت گزرا مگر وہ سارے کا سارا کوالٹی ٹائم تھا مشاعرے کی نظامت صدف فاروق کے ذمہ تھی جو ایک بار پہلے بھی سنگاپور کے ایک مشاعرے میں اسی حوالے سے مل چکی تھیں۔

اٹلانٹا کے ہوائی اڈے کا شمار دنیا کے بڑے ہوائی اڈوں میں ہوتا ہے۔ سو وہاں بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے۔ یہاں ہم نے ایک تکنیک سیکھی انور مسعود کے لیے ویل چیئر حاصل کی گئی اور ان کے ساتھ ساتھ ہم بھی شارٹ کٹ مارتے چلے گئے بعد میں اس کارروائی میں ایک اور اضافہ کیا گیا کہ میں ان کے ساتھ معاون کے طور پر پری بورڈنگ والا کارڈ حاصل کر لیتا ہے جس سے ہم دونوں طویل لائنوں میں لگنے کے بجائے سب سے پہلے جہاز میں داخل کیے جاتے ہم جاتے ہی پہلی لیگ سپیس والی سیٹوں پر اس طرح سے قبضہ کرتے کہ ہمارے باقی ساتھی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ سکیں جس سے آئندہ پورے سفر میں بہت آسانی رہی۔

اس ''ہیٹ ٹرک'' کا تیسرا حصہ ریاست فلوریڈا کا شہر لارا ڈیل تھا جہاں ہمارے میزبان پرانے لاہوری دوست، سابقہ باکسر اور اسلامیہ کالج سول لائنز کے پڑھے ہوئے مستنصر اسد اور ان کے برادران ڈاکٹر عاصم اور احسن تھے جن کی محبت ایسی تھی کہ جسے سنبھالنا مشکل تھا۔

ڈاکٹر عاصم بہت ہی خوش مزاج اور مہمان نواز انسان تھے۔ مگر لطف یہ تھا کہ وہ وہاں ڈاکٹری کی پریکٹس کے بجائے Comfort نامی شوز کی ایک کمپنی بہت ہی کامیابی سے چلا رہے تھے جس کے جوتے اپنے طبی فوائد اور آرام وہ ہونے کی وجہ سے باوجود مہنگے ہونے کے وہاں بہت مقبول تھے۔ ان سے مل کر مجھے اپنے ''اسٹائلو'' پاکستان والے دوست جاوید اقبال صدیقی بہت یاد آئے کے جوتا سازی کے ساتھ ساتھ دونوں احباب کی محبت، خلوص اور Down to eath اپروچ بھی ایک جیسی تھی۔

عام مشاعرہ کنندگان کے برعکس ہیلپنگ ہینڈ والوں نے ہر جگہ بہت عمدہ اور بڑے ہوٹلوں میں ہمارے قیام کا انتظام کیا تھا جس سے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ اعلیٰ اخلاق کا صرف درس ہی نہیں دیتے۔ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔

اورنج کاؤنٹی لاس اینجلس کے دوستوں نے ویک اینڈ پر ڈیٹ نہ ملنے کے باوجود منگل کی شام اپنے یہاں ایک تقریب کا اہتمام کیا جو وہاں کے کلچر کے حساب سے ایک بہت غیر دانشمندانہ لیکن جرأت مندانہ پروگرام تھا۔ وہاں سے ہمیں دو دن کے لیے ہیلپنگ ہینڈ کے ہیڈآفس ڈیٹرائٹ جانا تھا سو ان دو اسفار کا حال اگلی ہیٹ ٹرک سے پہلے یعنی اگلے کالم میں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں