ازواج مطہرات

حضرت خدیجہ الکبریٰ آپﷺ سے شادی سے قبل (کہیں 3 درج ہے) دو شادیاں کرچکی تھیں


Naseem Anjum October 02, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: حضرت خدیجہ الکبریٰ آپﷺ سے شادی سے قبل (کہیں 3 درج ہے) دو شادیاں کرچکی تھیں، حضرت محمد ﷺ نے آپ سے ہمیشہ محبت وعزت کی اور بعد ان کی وفات کے آپؐ انھیں اوران کے اوصاف حمیدہ کو یاد کرتے تھے۔ آپؐ کے چچا ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ایک ہی سال میں ہوئی، لہٰذا اس سال کو آپؐ نے عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔

ہم نبی پاک ؐ کی مکی ومدنی زندگی اورازدواجی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپؐ کا کوئی ثانی نہیں اللہ نے آپؐ کو وجہ کائنات ٹھہرایا، اللہ فرماتا ہے کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہ کرتا تو تخلیق دنیا بھی نہ ہوتی۔

جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا آپؐ کی شادیوں پر اعتراض کرنیوالے اور انھیں اپنی سوچ و فکر کے آئینے میں دیکھنے والے خود بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔اس لیے کہ انھیں اچھائی اور برائی میں تمیزکرنے کا فہم وادراک حاصل نہیں ہے۔

بس اتنی ہی عقل ہے کہ سب کچھ یہ دنیا اور اس کی رنگینیاں ہیں، اسے جس طرح بھی اور جس طریقے سے بھی حاصل کیا جائے کم ہے اور ایسی جھوٹی تحریریں لکھی جائیں کہ ان کے چاہنے والے ان کے ہم خیال واہ واہ کریں، اسلام مخالف قوتیں ان کے دامن کو زرو جواہر سے بھردیں، وہ دولت میں تولے جائیں، ایسے لوگوں کا مقصد گھٹیا شہرت اور مال وزر کا حصول ہوتا ہے اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ دنیا تو ہے ہی آزمائش گاہ۔ لیکن جو لوگ باطل سے اپنے قلم اوراپنے کردارکو داغدار نہیں کرتے ہیں، ان کی بھی کمی نہیں ہے وہ کسی بھی مذہب یا نسل سے ہوں ان کا مقصد زندگی ظلم اورجھوٹ کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ ایسی مثالیں اور نام آئے دن ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔

حضرت خدیجہؓ کے سانحہ وفات کے بعد آپؐ کا نکاح ام المومنین حضرت سوداؓ بنت زمعہ سے ہوا، حضرت سوداؓ کے شوہرکا انتقال اس وقت ہوا جب وہ حبشہ سے وطن واپس آرہی تھیں، یہ وہ وقت تھا جب انھیں پناہ اورتحفظ کی ضرورت تھی۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے انھیں اپنے نکاح میں لے لیا، بظاہر وہ نو عمر اور حسین بھی نہیں تھیں ورنہ تو عرب کے مالدار اور عزت دار قبیلوں میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین دوشیزہ تھی۔

آپؐ جہاں چاہتے صرف ایک اشارے کی ضرورت تھی، شادی کرسکتے تھے لیکن آپؐ نے امت کے لیے وہ عملی نمونہ پیش کیا کہ آپؐ کی سنت پر عمل کرکے گھروں میں بیٹھی ہوئی بے شمار لڑکیاں اور بیوہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کو عیب نہ سمجھا جائے بلکہ حدیث کیمطابق صرف اور صرف تین سنتوں پرعمل کرنیوالا جنتی ہوجاتا ہے۔اسی سال جب حضرت سودہؓ ازواج مطہرات کے رتبے پرفائز ہوئیں آپؐ نے اپنے رفیق خاص حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے لیے پیغام بھیجا۔

آپؐ کے غار دوست حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی خوش قسمتی سمجھ کر خوشی بخوشی قبول فرمالیا۔ 55 سال سے 69 (انسٹھ) سال کی عمر تک آپؐ نے آٹھ شادیاں کیں۔ آپؐ کی بیشتر شادیاں ان پانچ سالوں میں ہوئیں جوکہ آپؐ کی حیات طیبہ کا آخری اور اسلام کی تاریخ کا اہم ترین دور تھا یہی وہ وقت تھا جب قانون سازی کی جا رہی تھی اور اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھنے کا آغاز ہوچکا تھا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپؐ کے وصال کے حوالے سے فرمایا ہے کہ رسول پاکؐ اس دنیا سے جب تشریف لے گئے اس وقت تھوڑے سے جو کے سوا کچھ کھانے کو نہ تھا، دشمن اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ Lane Poope اپنی تحریر بعنوان Life of Muhammad میں لکھتے ہیں کہ رسول پاکؐ کی کردار کشی کرنا (نعوذ باللہ) سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں۔

ان کی روزمرہ کی زندگی، ان کا تخت، بوریا جس پر وہ سوتے تھے، ان کی معمولی غذا، کمتر سے کمترکام اپنے ہاتھ سے انجام دینا ظاہر کرتا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے بلند و بالا تھے، اسی طرح یورپ کا مشہور مفکر Thomas Carlyle اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ''محمدﷺ عیش وعشرت اور شہوانیت کے دلدادہ نہ تھے''۔

ایک موقعے پر حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ''یا باری تعالیٰ! جو چیز میرے امکان یعنی مساوات بین الازدواج میں ہے، اس میں عدل سے باز نہیں آسکتا، جو چیز میرے امکان سے باہر ہے یعنی حضرت عائشہؓ سے محبت اس کو معاف فرما''۔ تمام ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کو اپنی ذہانت و لیاقت کے حوالے سے خصوصی مقام حاصل تھا۔

آپؓ کی شان دیکھے کہ دو بار آیات قرآنی نازل ہوئیں ایک بار اس وقت حضرت عائشہ کا ہار دوران سفر گم ہوگیا صحابہ کرامؓ نے حضور پاکؐ کے حکم پر ہار تلاش کیا اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا اور پانی کا دور دور تک پتا نہ تھا، لہٰذا بغیر وضو نماز پڑھنا پڑی، صحابہ کرامؓ نے ماجرا حضرت محمدﷺ سے بیان کیا تو اسی وقت الحمد للہ آیت تیمم نازل ہوگئی ایک اور موقعے پر جسے واقعہ افک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں سیدنا عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی۔

ادھر بھی آپؓ کا ہار گم جانے کا معاملہ درپیش تھا چونکہ آپؓ نے ہار عاریتاً اپنی بہن حضرت اسماء سے لیا ہوا تھا، وہ اسے تلاش کرتی ہوئی اسی جگہ چلی گئیں جہاں جنگ سے واپسی کے بعد (جنگ بنو معطلق) رسول پاکؐ کے ساتھ پڑاؤ کیا تھا۔

ہار تو مل گیا لیکن قافلہ وہاں سے روانہ ہوگیا، اس وقت حضرت عائشہؓ کم سن اور وزن کے اعتبار سے ہلکی پھلکی تھیں اس لیے ہودج اٹھانے والوں کو اندازہ نہ ہوسکا اور اسے اونٹ پر رکھ دیا، حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پریشانی کے عالم میں آنکھ لگ گئی اور جب حضرت صفوان بن معطل جو اسلامی لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ اگر کسی کی کوئی چیز گر جائے یا کوئی ضرورت پیش آئے تو وہ اس کو پورا کرسکیں۔

جب وہ آپؓ کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے تو باآواز بلند انا للہ پڑھا، ان کی آواز سے حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھل گئی، فوراً انھوں نے اپنا چہرہ چھپالیا، جس وقت آپؓ اونٹ پر سوار قافلے سے ملیں تو مدینے کے منافقین نے نعوذ باللہ اسے غلط رنگ دیا۔

منافقین کی سازش سے جب یہ بات پھیلی تو سیدہ عائشہؓ بھی متاثر ہوئیں اور بیمار پڑگئیں جب کچھ طبیعت سنبھلی تو اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں اور ان سے دریافت کیا کہ لوگ میرے متعلق کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ''اے بیٹی! گھبراؤ نہیں، ایسی عورتیں بہت کم ہوتی ہیں جو خوبصورت ہوں اور شوہر کی محبوب ہوں اور پھر ان کی سوکنیں بھی ہوں، پھر ان پر تہمت نہ لگائی جائے۔''

حضرت عائشہؓ نے جواباً سبحان اللہ کہا۔ اس واقعے کا حضرت محمدﷺ کو بے حد افسوس تھا۔ آپؐ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس گئے دونوں میں اس معاملے کے حوالے سے گفت و شنید ہوئی۔ حضرت عائشہؓ یہ کہہ کرکہ ''میرا اللہ ہی مددگار ہے'' اپنے بستر پر منہ پھیر کر لیٹ گئیں، اسی دوران حضرت محمدﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے اس تہمت سے بری کردیا، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد منافقین کے منہ سیاہ ہوگئے اور سادہ لوح مسلمان جوکہ بدگمان ہوگئے تھے سخت نادم ہوئے۔

سبحان اللہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے مرتبے کا تعین اور مقام اعلیٰ وارفع اس بات سے کیا جاتا ہے کہ آپؐ پر دو دفعہ وحی نازل ہوئی اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی سہولت تمام مسلمانوں کو حاصل ہوگئی اور آقائے دوجہاںؐ کا کردار، صبر، نیکی، شرافت و تحمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو کوئی برا لفظ نہیں کہا، اس واقعے پر یقین نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے پختہ کردارکی خود گواہی دے دی۔

امت مسلمہ خصوصاً مردوں کو خواتین کا کسی بھی رشتے میں بندھی ہوں، عزت و احترام کرنا چاہیے۔ کارا، کاری، قتل وغارت کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جہالت و گمراہی کی رسموں کو اسلام کی روشنی میں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پاکیزگی، طہارت اور اللہ کی محبت کا اندازہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپؐ کو ان کے ہی لحاف میں وحی نازل ہوتی ہے اور دوسری ازواج مطہرات اس مقام اعلیٰ سے محروم رہیں۔ لیکن ازواج مطہرات کی خدمات استحکام ایمان اور رسول پاکؐ سے محبت، عقیدت اپنی جگہ مسلم ہے۔ وہ مومنین کی مائیں ہیں ان کی تعداد زیادہ تر کتب میں 11 درج ہے، مذکورہ کتاب میں 13 ازواج مطہرات کا ذکر اور ان کی حیات و خدمات کا ذکر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں