کسی سے کوئی زبردستی نہیں

ہمارے ملک کے آئین کے مطابق مہاجرین کو شہریت نہیں دی جا سکتی


امجد عزیز ملک October 02, 2016

گذشتہ دنوں یورپی یونین کے سفیر سمیت پانچ ممالک کے سفراء کرام ،اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے پاکستان کے لیے نمایندے اور پاکستان کے چیف افغان کمشنر نے پشاور سے پچیس کلومیٹر دور اضاخیل کے مقام پر رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان مہاجرین کے سہولت مرکز کا افتتاح کیا۔میرے لیے یہ تقریب اس حوالے سے اہم تھی کہ اس بابت معلوم کیا جا سکے کہ افغان مہاجرین واپس جا رہے ہیں یا نہیں؟ اگر جا رہے ہیں تو کیا انھیں زبردستی پاکستان بدر کیا جا رہا ہے؟ کیا انھیں وطن واپسی پر یو این ایچ سی آر کی جانب سے امدادی رقم مل رہی یا نہیں؟ اور کیا یہ تاثر درست ہے کہ پاکستان میں صدر افغانستان کے خصوصی نمایندے اور سفیر افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے پر حکومت پاکستان سے ناراض ہیں؟یواین ایچ سی آر کے قیصر آفریدی نے راقم کو موقع فراہم کیا اور ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی جہاں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ نہ تو پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو زبردستی وطن واپس بھیجا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی کی جا رہی ہے۔حکومت پاکستان نے31 مارچ 2017 تک مہاجرین کو پاکستان میں قیام کی اجازت دی ہے۔

البتہ یہ واضح ہے کہ انھیں اپنے وطن واپس ضرور جانا ہو گا ۔اس وقت پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں جن میں سب سے زیادہ خیبر پختون خوا میں قیام پذیر ہیں جب کہ اتنی ہی تعداد غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہے ۔غیر قانونی الفاظ کا استعمال ان مہاجرین کے لیے ہے جنہوں نے خود کو رجسٹرڈ نہیں کروایا، اس تعداد کے بارے میں بھی متضاد دعوے ہیں تاہم خیبر پختون خوا میں لاکھوں افغان مہاجرین ایسے ہیں جنہوں نے نادرا سے اپنے کارڈ نہیں بنوائے۔یہ بھی حقیقت تھی کہ موسم گرما میں یہ مہاجرین اپنے وطن واپس چلے جاتے اور موسم سرما کے آغاز پر پاکستان لوٹ آتے۔یو این ایچ سی آر کی جانب سے واپس جانے والوں کو چند سال قبل چندڈالرز ملا کرتے تھے جو بعد میں دو سو ڈالرز فی کس کر دیے گئے اور آج کل یہ رقم 3 سو 80ڈالرز ہے۔

آپریشن ضرب عضب اور پھر پاک افغان سرحد پر بارڈر منیجمنٹ کا نظام مؤثر بنانے کے بعد حکومت پاکستان نے اس امر سے اتفاق کیا کہ لگ بھگ چار دہائیاں افغان مہاجرین کو پناہ دینے اور ان کی اپنی بساط سے بڑھ کر خدمت کرنے کے بعد ان سے استدعا کی جائے کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں اور اپنے ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی میں اپنا کردار ادا کریں۔پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کا اعلان کیا تو یہ تاثر لیا گیا کہ صوبائی حکومت زبردستی انھیں واپس بھیجنا چاہتی ہے جو کسی بھی طور درست نہ تھا۔

دوسری طرف وزیر اعظم نے مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی آیندہ برس31 مارچ تک توسیع کر دی۔یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مہاجرین کے قیام کی تاریخوں میں ماضی کی طرح توسیع ہوتی رہے گی اور ان کا آنا جانا لگا رہے گا مگر اب صورت حال یکسر بدل گئی ہے جس کے بعد افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں تیزی آ گئی ہے۔جس کی واضح مثال پہلے سے قائم رضاکارانہ سینٹر کے علاوہ دوسرے سینٹر کا قیام ہے۔سینٹر کی افتتاحی تقریب سے یورپی یونین کے سفیر اور یو این ایچ سی آر کے نمایندے کے علاوہ پاکستان کے چیف افغان کمشنر نے بھی اظہار خیال کیا، اس کے علاوہ دیگر ممالک کے سفیروں سے بھی گفت گو رہی۔یہ جان کر وہ خدشات دور ہوگئے کہ افغان بھائیوںکو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، پاکستان کے چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین ڈاکٹر عمران زیب کا کہنا تھا کہ مہاجر کسی بھی ملک میں کہیں بھی ہو اسے ایک دن اپنے وطن واپس لوٹنا ہے۔

ہمارے ملک کے آئین کے مطابق مہاجرین کو شہریت نہیں دی جا سکتی اور اسی لیے پاکستان نے سینتیس برسوں تک افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی۔اب جب کہ افغانستان میں حالات بہتر ہیں اس لیے حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کے بہتر مفاد میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ وطن واپس جا کر آباد ہوں۔کسی ایک بھی افغان مہاجر کو نہ تو زبردستی بھجوایا گیا ہے اور نہ انھیں مجبور کیا جا رہا ہے البتہ یو این ایچ سی آر نے جو قواعد و ضوابط مرتب کیے ہیں ان کے مطابق تمام معاملات طے کیے جاتے ہیں اور دستاویزات کی تیاری کے بعد انھیں وطن روانہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عمران زیب شاید پچیس برس بعد ملے، میں نے انھیں پہچان لیا کہ وہ پشاور کے سابق کمشنر مرحوم جہانزیب خان کے صاحبزادے ہیں۔ جہانزیب خان کا کھیلوں سے گہرا رشتہ تھا،وہ ایک عالی مرتبت بیورو کریٹ تھے اورہمیشہ صوبے میں جس بھی عہدے پر فائز رہے انھوں نے انتہائی احسن طوراپنی خدمات انجام دیں۔ان کا شائبہ عمران میں دکھائی دیا تو ان کی بھی یاد آ گئی بہرحال آج کل عمران اور کامران دونوں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اس حوالے سے ان کی گفت گو خاصی متاثر کن بھی رہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پاکستان بہت جلد افغان شہریوں کے لیے نئی ویزہ پالیسی کا اعلان کرنے جا رہی ہے جس کے بعد نہ صرف بزنس مینوں کو طویل مدتی ویزے جاری ہوں گے بلکہ وہ افغان جنہوں نے یہاں شادیاں کر لیں اور رشتہ داریاں بنا لیں انھیں بھی قانونی دستاویزات کے ہمراہ پاکستان آنے کی اجازت ہو گی۔اس سلسلے میں جلد ہی یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

جب افغان سفیر ڈاکٹر عمر ذاخیوال نے تقریب سے خطاب شروع کیا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ڈاکٹر عمران زیب خان کی باتوں کو جھٹلائیں گے اور تحفظات کا اظہار کریں گے مگر یہ بھی میرے لیے حیرت سے کم نہ تھا کہ انھوں نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی اور کہا کہ مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے اقدامات کو افغانستان کی حکومت بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔انھوں نے یو این ایچ سی آر کے رضاکارانہ واپسی سینٹرز میں اضافہ کا بھی خیر مقدم کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ پاکستانیوں نے 37 سال تک چالیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی۔افغانستان نے ہمیشہ اس حوالے سے پاکستان اور پاکستانیوں کی تعریف کی ہے۔ ڈاکٹر عمر ذاخیوال نے یہ بھی تسلیم کیا کہ افغان مہاجرین کو ایک دن اپنے وطن لوٹنا ہے اور یہ سلسلہ جلد یا بدیر شروع ہونا تھا ۔

بڑی تعداد میں افغان شہری واپس جا رہے ہیں اور ان کی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ اپنے شہریوں کو سہولتیں دے۔دوبارہ گھر بسانا آسان نہیں ہوتا لیکن انھیں یقین ہے کہ طویل عرصہ اپنے گھروں سے دور رہنے والے افغان ایک بار پھر اپنے ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے قربانی دیں گے۔اس موقع پر اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے پاکستان کے لیے نمایندے اندریکا نے بھی افغان مہاجرین کے وطن واپسی کو رضاکارانہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ایک جرگے میں وہ افغان صدر اشرف غنی سے ملے جو چاہتے ہیں کہ افغان مہاجرین باعزت طور پر وطن واپس آئیں جہاں انھیں اقوام متحدہ ہر ممکن سہولتیںفراہم کرے۔چنانچہ پاکستان سے جانے والے ہر افغان مہاجر کو یقین رکھنا چاہیے کہ اسے اپنے وطن میں عزت و افتخار ملے گا۔اس تقریب میں یہ بھی بتایا گیا کہ روزانہ چھ ہزار افغان واپس جا رہے ہیں اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اکتیس مارچ تک لاکھوں مہاجرین واپس چلے جائیں گے لہٰذا اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ یہ مرحلہ بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں