استقبالِ محرم
ابراہیم ؑنے اسماعیل ؑکو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اورتیزدھاروالی چھری گردن اسماعیل ؑپرپھیری تو کئی مرتبہ یہ چھری پلٹ گئی
قرآن مجید میں اللہ سبحان وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''ہم نے جن وانس کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں،(ترجمہ) یہ اتنا واضح مقصد حیات ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ ہر وقت عبادت کریں توہمیں یہ پریشانی ہوتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ہروقت اللہ کی عبادت کریں کیونکہ ہمیں اپنی حیات کے دوام کے لیے روزگار بھی چاہیے، علم کا حصول بھی،عزیزواقارب کے حقوق بھی۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ صرف نماز و روزہ حج و زکوۃ خمس وجہاد ہی عبادت ہے تو نماز 24گھنٹوں میں پانچ وقت روزے سال میں 30، حج زندگی میں ایک دفعہ زکوۃ صرف صاحب نصاب پر واجب ہے۔
اس لیے 24گھنٹے کی عبادت تونہیں ہوئی، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں اورکم علمی کی بناء پرعبادت کا مفہوم سمجھ نہیں پاتے۔اللہ نے عبادت کو دوحصوں میں قرار دیا،ایک حصہ اپنی ذات سے منسوب کردیا، جسے حقوق اللہ قراردیا اوردوسرا حصہ بندوں کی جانب منسوب کردیا، جسے حقوق العباد قراردیا۔نماز، روزہ، حج ، یہ حقوق اللہ ہے جو بہت مختصر ہے اور زکوۃ۔ امربالمعروف نہی عن المنکرکا فریضہ ہو۔ علم کا حصول ہو، روزگار ہو، تجارت ولین دین ہو۔ تعلقات عزیزواقارب ہو یہ سب اگرکوئی کلمہ گو انجام دے رہا ہے تواللہ تعالیٰ ان تمام افعال کوعبادت قراردے رہا ہے۔اسی طرح مسلمان کا ہرعمل، اس کا ہر قول، اس کا ہر فعل عبادت بن جاتا ہے اور وہ تقاضہ پورا ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ صرف عبادت کے لیے پیدا کیا۔
ہمیں اب یہ غورکرنا ہے عبادت کیا ہے۔ نمازوہ عبادت ہے جو آدم سے لے کر خاتم النبین، امام المرسلین نے انجام دی پہلے کبھی صرف صبح کی نماز ہی ہوتی تھی پھرکسی رسول کے زمانے میں ظہروالعصر بھی ہونے لگی ،کسی شریعت رسول میں مغرب وعشاء بھی ہونے لگی۔اس طرح شریعت محمدیؐ میں پانچ وقت کی نماز واجب یا فرض ہوگئی۔
اسی طرح روزہ پہلے بھی ہوتا تھا، لیکن آخری شریعت محمدی ؐمیں سال میں ماہ رمضان میں روزے فرض ہوئے۔یہ بھی سنت انبیاء ہے اسی طرح تمام عبادتیں ہم پر فرض ہوئی۔ جیسے ہم حج میں طواف کعبہ کرتے ہیں وہ بھی سنت انبیاء ہے۔ حجر اسودکو بوسہ وہ بھی سنت انبیاء ہے ۔ صفا اور مروہ پرسعی اس بات کی یاد ہے جو بی بی ہاجرہ نے دوڑ لگا کر کی تھی یہ سنت ہاجرہ ہے۔منیٰ میں قربانی سنت ابراہیم ؑ ہے اورعرفات میں آدم ؑ اور حوا ؑ کا ملاپ ہوا یہی وہ مقام ہے جہاں یوم محشر تمام مسلمان جمع ہوں گے۔ اس طرح ہر عبادت کا فعل وعمل وہی جو سنت انبیاء رہی۔ اس بنیاد پر ہم مسلمان اپنی دینی اور شرعی رسمیں ادا کرتے ہیں۔ عقیقہ کرتے ہیں، نکاح کرتے ہیں، یہ سب عبادت ہیں۔
جب ہم 10ذوالحج کو عیدالاضحی مناتے ہیں تو وہ اس واقعے کی یاد ہے جو ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑنے انجام دی۔ ابراہیم ؑ کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے اسماعیل ؑکو ہماری راہ میں قربان کردو یہ ابراہیم ؑکا وہ امتحان تھا جو اللہ نے بطورخلیل اللہ لیا اور اسی حکم کی تعمیل کی انجام دہی پر ابراہیم ؑکو خلیل اللہ کا خطاب عطا ہوا۔
جب ابراہیم ؑنے اسماعیل ؑکو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اور تیزدھار والی چھری گردن اسماعیل ؑپر پھیری تو کئی مرتبہ یہ چھری پلٹ گئی پھر آپ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور پھر چھری پھیری تو شہ رگ سے خوں جاری ہوا اور ابراہیمؑ نے جیسے ہی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو حیران وپریشان ہوگئے کہ جہاں اسماعیل ؑ لیٹے ہوئے تھے وہاں ایک ذبح شدہ دنبہ پڑا ہے۔ابراہیم ؑ افسردہ ہوگئے کہ شاید اللہ نے میری قربانی قبول نہ کی تو اللہ نے وحی کی، ابراہیم ؑتم نے حکم کی تعمیل کا پورا حق ادا کردیا اور ہم نے تمہاری قربانی قبول کرلی۔ابراہیم ؑنے پوچھا'' اے رب! میرا اسماعیل ؑذبح نہ ہوا تو جواب ملا'' ابراہیم ؑ ہم نے تمھاری اس قربانی کو فدیہ عظیم میں بدل دیا ہے اور اس لیے ہم نے اسماعیل ؑ کے بدلے دنبے کو قربان کیا۔''
بہت سارے لوگ کم علمی کی بناء پر دنبے کو فدیہ عظیم سمجھتے ہیںجب کہ اسماعیل ؑ فدیہ عظیم تھے جس شے کو جس کی خاطر قربان کیا جائے وہ اس کے بدلے کبھی عظیم نہیں ہوسکتی ۔ ہمیشہ عظیم کو بچانے کے لیے کم عظیم کو قربان کرتے ہیں۔ اللہ نے اسماعیل ؑ کو بچایا دنبہ عظیم نہیں ہے بلکہ اسماعیل ؑعظیم ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی یہ مشہور حدیث ہے کہ حسین ؑمنی وانا من الحسین ؑ۔ میں حسین ؑسے ہوں اور حسین ؑمجھ سے ہے۔ایک نانا یہ توکہہ سکتا ہے کہ میرا نواسہ مجھ سے ہے کیونکہ وہ اس کی دخترکی اولاد ہے اور دختر اس کی اولاد مگر یہ کہنا کہ میںنواسے سے ہوں یہ بات سمجھنا غور طلب ہے۔اس کی تفسیر یہ ہے کہ پروردگار عالم ارواح میں پاک مقدس روحوں سے جن انبیاء کی ارواح اور رسولوں کی ارواح تھیں۔
سوال کیا تھا کہ کون ہے جو میرے دین کی بقا کی خاطر اپنی قربانی دے گا تو روح حسین ؑ بلندہوئی اورکہا ''اے ہمارے رب ہم ہیں ہم تیرے دین کی بقا کی خاطر قربان ہونے کو تیار ہیں۔'' پھرکہا گیا ''حسین اس میں تمھارا گھر بھی لٹے گا تمھاری اولاد بھی قربان ہوگی۔تمہیں بہت اذیت برداشت کرنی ہوگی۔ '' تب بھی حسینؑ نے کہا ''میں تیرے دین کی بقاء کے لیے تیری رضا کے لیے ہر شے قربان کردوں گا ہر اذیت پر صبرکروںگا ۔'' تب پروردگار نے اسماعیل ؑ کو ابراہیم ؑکی چھری کے نیچے سے آزاد کیااور ان کی جگہ دنبہ قربان ہوا۔اس حسین نے 61 ہجری میں10 محرم الحرام کو اپنا وعدہ پورا کیا اور جب اشقیاء نے امام حسین عالی مقام کو گردن کی پشت سے ذبح کیا تو حسین کی قربانی عظیم فدیہ بن گئی، یعنی اس فدیہ سے عظیم اللہ کا دین اسلام تھا، جس کو حسین نے اپنے اعزاء اپنے اصحاب اپنی اولاد کی ایسی عظیم الشان قربانی پیش کی جو نہ اس سے پہلے کبھی کسی نے پیش کی نہ ہی قیامت تک کوئی پیش کرسکے گا۔
اس لیے جس طرح ہم سب مسلمان مل کر ابراہیم ؑ کی قربانی کی سنت کی یادگارکوہر سال 10ذوالحج کو جانورکی قربانی دے کرمناتے ہیں جس سے اللہ نے بطور عبادت قبول کیا تواسی فلسفہ اسلام، اسی روح اسلام کی روشنی میں عظیم قربانی جو معصوم کربلا سیدالشھداء امام حسین ؑ عالی مقام نے 10 محرم 61 ہجری میں پیش کی ہے اسے بھی مسلمان بطور یاد مناتے ہیں ۔ جس طرح صفاء و مروہ کی سعی ہاجرہ کی سنت جس طرح کعبہ کا طواف انبیاء کی سنت عبادت بن گئی ۔
حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ؐ سرکار دو عالم رحمت اللعالمین کے نواسے نے اپنی قربانی دے کر ہمیشہ کے لیے دین محفوظ بنا دیا۔ اس کا ثبوت آج 1438 سال سے مسجدیں بھی آباد ہیں،اذانیں بھی بلند ہوتی ہیں، لوگ روزہ، نماز، حج و زکوۃ کو بھی ادا کررہے ہیں یہ سب ان قربانیوں کے صلے میں ہے، جو امام حسین ؑ نے مقام کربلا میں بلند کی۔یہی وجہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی جنھیں غوث پاک یا غوث اعظم کہا جاتا ہے وہ فرماتے ہیں اللہ 70 ہزار فرشتوں کو روزانہ امام حسین کی قبر پر بھیجتا ہے جو ہر وقت درود و سلام پڑھتے ہیں۔یہ وہ صلہ ہے جو امام حسینؑ کو اس عظیم قربانی پر ملا اس لیے ہم مسلمانوں پر فرض ہے ہر سال ان کی یاد منائیں تاکہ ہماری آنے والی نسل اس واقعے کی عظمت کو سمجھے اور دین اسلام کی اہمیت اور اس کا احترام ان کے دلوں میں اجاگر ہو۔