حج 2016 آنکھوں دیکھا حال تیسری قسط

سیدھے ہاتھ پر ایک صاحب نظر آئے جو پورا طواف Skype پر اپنی بیگم کو Live براڈ کاسٹ کرا رہے تھے۔


یقین جانیے، اگر آپ آج مرگئے تو بھی دنیا چلتی رہیگی اور جب موبائل فونز نہیں تھے تب بھی دنیا چل رہی تھی اور حج بھی ہورہے تھے۔ تہجد کے وقت موبائل، جمعہ کے خطبے میں موبائل، منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں موبائل، لاحول و لاقوۃ۔

حاجیوں کی تعداد اور قسمیں


میرے ایک دوست کہتے ہیں جب سے حرام کا پیسہ اُمت میں آیا ہے حاجیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

حاجیوں کی تعداد کا مسئلہ اتنا ہی دقیق ہے جتنا کہ ہمارے ہاں عید کا چاند۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی 40 لاکھ بتائے تو کوئی 20 لاکھ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سال کوئی 61 لاکھ لوگوں نے فریضہ حج ادا کرنا ہے۔ پاکستان سے کُل 143,200 حجاج کرام گورنمنٹ اسکیم اور 142 حج گروپس آرگنائزر کے ذریعے سے یہاں پہنچے ہیں۔

حاجیوں کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں



  • شاہی حاجی


یہ وہ حجاجِ کرام ہیں جنہیں سعودی حکومت اپنی دعوت پر بلاتی ہے۔ یہ شاہی مہمان ہوتے ہیں، رہائش اورکھانے سے لے کر طواف و مناسکِ حج تک۔ مسجدِ خیف سے پرے ایک انڈر گراؤنڈ راستہ بنایا گیا ہے جہاں یہ سب گاڑیوں میں بیٹھ کر پورے سیکورٹی پروٹوکولز اور ہوٹرز کے ساتھ آتے ہیں کہ شیطان کو کنکریاں مارسکیں۔ باقی تمام مخلوقِ خدا ان کے کاروان گزرنے کے انتظار میں کھڑی رہتی ہے۔ عبداللہ کا بڑا دل چاہا کہ وہ اپنی کنکریاں انہیں ہی مار دے۔

خیر یہ شاہی حاجی ہوتے ہیں۔ حج کی مشقتوں سے بے نیاز۔ ہنستے کھیلتے آتے ہیں اور سب سے پہلے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ تو خدا ہی جانے کہ ان کا حج، حج کاؤنٹ ہوتا ہے یا رویوں کی فرعونیت کے باعث قابلِ تعزیر جرم قرار پائے گا۔

  • GCC حاجی


یہ حجاج گلف کنٹریز سے بائے روڈ آئے ہوتے ہیں اور ان پر عام حاجیوں والے قوانین کم کم ہی لاگو ہوتے ہیں۔ مثلاً بار کوڈ ہینڈ بینڈ پہننا، وقت کی پابندی اور روزمرہ کی اخلاقیات۔ یہ حج کو اپنا وراثتی حق سمجھ کر کرتے ہیں اور انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی بسوں کی پارکنگ سے کتنی مخلوق خدا کی زمین تنگ ہوجاتی ہے۔

  • VIP حاجی


VIP حجاج میں عبد اللہ جیسے لوگ شامل ہیں جن کے پاس پیسوں کی موجودگی انہیں غیر شرعی کام کا شرعی جواز دلوا دیتی ہے۔ جی بغیر AC گزارہ نہیں، جی کھانے کی Hygiene ٹھیک ہونی چاہئے، واش رومز صاف ہوں۔ یہ ہر ہر چیز کو اپنی باقی ماندہ زندگی کے اسفار سے کمپیئر کرتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ یوں ہوتا ہے، فلاں جگہ یوں۔ یہVIP حاجی ہی ہیں جن کی وجہ سے ٹیکسی ایام حج میں دو میل کا فاصلہ طے کرنے پر 300 ریال لیتی ہے اور ویل چیئرز چلانے والے 1500 ریال میں طواف و سعی کرواتے ہیں۔ کیوںکہ ان لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ اوراحساس کم ہوتا ہے اس لئے یہ ہر چیز کو افورڈ کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں حج باقی ماندہ 99 فیصد عوام کیلئے ہر آنے والے دن کے ساتھ Un-Affordable ہوتا چلا جاتا ہے۔

حرام کے پیسوں سے حج کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بادشاہ سلامت کو تحفے میں گندگی کا ٹوکرا بھیج دے۔ منافق آدمی کو تو سرے سے حج کرنا ہی نہیں چاہئے۔

ان VIP گروپس نے ایک مولوی صاحب بھی پالے ہوتے ہیں۔ جیسے پہلے زمانے میں کوئی طوطے پالے جاتے تھے آج مولوی پال لیتے ہیں۔ کچھ تو اہل دل ہوتے ہیں کہ حجاج کی صحیح رہنمائی ہوسکے اور مولوی صاحب کا "مفت" میں چکر بھی لگ جائے تو بیشتر کا مقصد ہر اس معاملے میں کچھ گنجائش و خلاصی چاہئے ہوتی ہے جہاں لاجسٹکس شریعت سے اُلجھ جائے۔ مثلاً منیٰ میں صرف ایک رات رہ لیں باقی تو صرف سنت ہیں۔ ارے اللہ کے بندوں، حج کا تو ایک ایک رکن سنت ہے۔ طواف ہو یا رمی، سعی ہو یا جمرات، عرفہ ہو یا مزدلفہ، سنت کو حج سے خارج کرکے لنے کیا آئے ہو؟

مثلاً 11،12 ذی الحجہ کی رمی ملا کر 11 کو مغرب کے بعد کرلی جائے وغیرہ۔ شرعی احکام تو مفتی جانیں، مگر حج گروپ آرگنائزر کا بڑا بھلا ہوجاتا ہے۔

اور کیونکہ مولوی حضرات میں سپلائی ڈیمانڈ کا Curve اُلٹا ہے کہ سپلائی بہتری اور ڈیمانڈ کم تو مولوی صاحب سے ڈو مور کا مطالبہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ کچھ گروپس میں تو مولوی صاحب کو حجاج صاحب کا سامان ڈھوتے دیکھا۔ بندے کی نہیں اس نسبت کی عزت کرلو جس کی وجہ سے لائے ہو۔ نسبت نکال دو تو بیت اللہ، صفا و مروہ اور حجر اسود میں بچتا ہی کیا ہے۔

میری باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ VIP پیکجز میں آنے والے سب لوگ میری طرح بیکار ہوتے ہیں یا سب کا مال مشکوک ہے۔ میں تو ایک فرق واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تمام حاجیوں میں۔ باقی ہر شخص کا ضمیر اُسے خود بتا دے گا کب کون سا کام کیسے اور کیوں کیا؟

  • لاوارث حاجی


اگر آپ مندرجہ بالا میں سے کسی کیٹِگری میں نہیں تو مبارک ہو آپ اصل حاجی ہیں یعنی لاوارث حاجی۔ آپ حاجیوں کے اُن 99 فیصد میں شامل ہیں جہاں آپ کی حیثیت ایک ریوڑ سے زیادہ نہیں۔ آپ کا سوائے خدا کے کوئی پرسان حال نہیں آپ کے پاس موجود واش رومز کی حالت کرائم سین سے کم نہیں۔ اگر بیمار پڑگئے تو مریضوں کی لمبی لائن میں کھڑے کھڑے حج گزار دیں۔ یہ حاجی صرف دو صورتوں میں سعودی حکومت کو قبول ہیں، زندہ یا مردہ۔ زندہ ہیں تو دن رات "حرِکۃ یا حاجی" کی آواز پر چلتے رہیں اور مر گئے ہیں تو مسجد الحرام میں جنازہ پڑھا کر دفنا دیں۔ ان دونوں کی بیچ کی کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کا جواب "مافی معلوم" کے علاوہ کچھ نہیں۔ سعودی شُرطہ (پولیس والا) جس پل کے نیچے کھڑا ہوگا اس کا نام بھی پوچھ لیں تو کہے گا "مافی معلوم "۔ ایسے میں بھلا ہو پاکستانی مشن کے نوجوانوں کا وہ ہرے رنگ کی پاکستانی پرچم والی جیکٹ پہنے اگر مل جائیں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے مگر حاجی زیادہ اور رضاکار کم۔ اگر آپ کسی حاجی کو روڈ پر سوتا دیکھیں، کھانے کی لائن میں 5ر یال کے کھانے کے لئے کئی بار سوچتا دیکھیں، ایک عورت کو اپنے نوزائیدہ بچے کو بیچ سڑک پر دودھ پلاتے دیکھیں یا کسی کو چپ سادھے آسمان تکتے دیکھیں تو یقین جانیئے، یہ لاوارث حاجی ہے۔

7, 6 ,5 ذی الحجہ


اب حج کا رش اپنے عروج پر ہے۔ حرم کی طرف جانے والی گاڑیاں یا تو بند کردی گئی ہیں یا جہاں حاجی پھنسا وہاں ٹیکسی والے حضرات 200، 300، 400 ریال اللہ کے نام پر بٹور رہے ہیں۔ عبداللہ کو وہاڑی کا ایک ٹیکسی ڈرائیور ملا، کہنے لگا میں پاکستانی حاجیوں کو نہیں اُٹھاتا، پیسے نہیں دیتے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر انڈونیشین حاجیوں کو اُٹھاتا ہوں، بہت شریف ہوتے ہیں۔ 300 مانگو یا 500، ذرا سا گاڑی کوجھٹکا دے کر آگے کرو کہ آپ جانے لگے ہو، فوراً گاڑی پر ہاتھ مار کے روک لیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے روپے کی قیمت انتہائی کم ہے مگر نجانے کہاں سے اتنا پیسہ لاتے ہیں۔ آرام سے ایک دن میں 15 سے 20 ہزار ریال کما لیتا ہوں۔ میرے پاکستان میں تین بچے ہیں، ان کا اچھا بندوبست ہوجاتا ہے۔ میں تو یہاں اللہ کیلئے کام کرتا ہوں۔

ان دنوں میں حاجیوں کو چاہیئے کہ اگر وہ عمرہ کرچکے ہوں تو مزید نفلی عمرے یا نفلی طواف سے گریز کریں۔ لوگوں کا ہجوم بہت ہوتا ہے۔ آپ تو شاید جوانی کے زور پر کر ہی لیں گے۔ عورتوں، بوڑھوں اور بیماروں کا کچومر نکل جائے گا۔

ثواب کی دوڑ میں یاد رکھیں کہ مومن کے دل میں اللہ ہے۔ ایک بیت اللہ کے طواف میں اگر سو دلوں سے بد دعائیں سمیٹ لیں گے تو کیا ہوگا۔ چائیے کہ ہوٹل میں رہیں اور آس پاس کی کسی بھی مسجد میں نماز پڑھ لیں کہ یہ بھی حدود حرم ہی ہے۔

برداشت


ہوٹل کے ایک کمرے میں 95 حاجی تھے مگر چابی صرف ایک۔ عبداللہ کمرے میں پہنچا تو وہ لاک تھا۔ 6 منزلیں سیڑھیوں سے اُتر کر نیچے گیا کہ لفٹ میں خواتین و بزرگ حضرات کا رش بہت تھا۔ ڈبلیکیٹ چابی بنوائی، پھر 6 منزلیں سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آیا تو چابی نے کام نہ کیا۔ پھر نیچے گیا ایک ویٹر کو ساتھ لے کر آیا، اس نے روم کھول دیا مگر کارڈ نہ دیا بغیر چابی کے کارڈ کی لائٹیں نہیں چل سکتی اب عبداللہ کارڈ مانگے اور وہ عربی میں ما فی معلوم کا ورد کرتا رہے۔ عبداللہ کا صبر جواب دے گیا۔ اسے کہنے لگا کہ آر یو کریزی۔ پھر نیچے آ کر اپنے روم میٹ کو کہا کہ آپ چابی لے کر کہاں غائب ہوگئے ہیں کیا پوسٹر چھپواؤں۔

کچھ ہی دیر میں بڑی ندامت ہوئی، اللہ نے حج پر لڑائی سے منع کیا ہے۔ روم میٹ سے معافی مانگی۔ ویٹر سے سب کے سامنے معافی مانگی اور کچھ پیسے دیئے اور پھر ایک اور ویٹر کو اپنا ایکسٹرا احرام، تولیہ، ہینڈ بیگ، چپل اور قربانی کے پیسے دیئے کہ اس کا حج اچھا ہوجائے تو کہیں جا کہ دل کو سکون ملا۔

سارے غصے پر کنٹرول کے دعوے اور پاکبازی کے زبانی چٹخارے فنا ہوگئے۔ عبداللہ ہنسنے لگا کہ چلو وانی صاحب کی طرح میں بھی فارغ ہوگیا۔

موبائل فونز


کاش، اے کاش! سینما کی طرح مسجدوں میں بھی موبائل فونز پر پابندی لگ جائے۔ کسی کا بج جائے تو بحکم سرکار ضبط۔ کوئی ایسی ٹون نہ تھی جو عبد اللہ نے حرم میں نہ سنی ہو، پشتو فلموں کے گانوں سے بالی ووڈ کی فلموں تک اور آئی فون کی ٹون سے بچوں کے ہنسنے کی ٹون تک۔ ایک صاحب کے فون نے ٹھیک عشاء کی تکبیر تحریمہ پہ بجنا شروع کیا اور عین سلام کے وقت بند ہوئی۔ پوری صف کی نماز غارت ہوگئی۔ عبداللہ سمجھا اللہ خیر کرے کوئی مر گیا ہوگا۔ وہ شخص ساتھ ہی بیٹھا تھا فون کا جواب دیا تو سامنے سے آواز آئی "ہم نے کھانا کھا لیا ہے آپ بھی کھا کر آنا" ایسی بیویوں کے شوہروں پر تو جنت واجب ہوجاتی ہوگی شاید۔

دوران طواف عبد اللہ کے کانوں میں آواز پڑی "کیسے ہو جانوں!"۔ سیدھے ہاتھ پر ایک صاحب نظر آئے جو پورا طواف Skype پر اپنی بیگم کو Live براڈ کاسٹ کرا رہے تھے۔ عبد اللہ غصے میں ساری دعائیں تک بھول گیا۔ عین مقام ابراہیم ؑ کے سامنے ابھی نیت باندھی ہی تھی کہ پچھلی صف میں ایک صاحب نے فون نکالا اور ایسی گالیاں دیں کہ لکھی نہیں جاسکتیں۔ وہ حج پر آئے اپنے کسی گروپ کے کسی حاجی کی غیبتیں کسی اور سے کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے کال کے بعد گالی دینے پر ٹوکا تو کہنے لگے، جی وہ تو غصے میں دے دی، وہ ہے ہی ایسا حرام خور۔ ارے بھائی! کیا پیار میں بھی کوئی گالیاں دیتا ہے۔

Mobily ،STC یا Zain کسی فرنچائز پر چلے جائیں طواف جتنا ہی رش ملے گا۔ 2 سے 3 گھنٹوں سے پہلے تو آپ کا ریچارج ہونے سے رہا۔

یقین جانیے، اگر آپ آج مرگئے تو بھی دنیا یونہی چلتی رہے گی اور جب موبائل فونز نہیں ہوتے تھے تب بھی دنیا یونہی چل رہی تھی اور حج بھی ہورہے تھے۔ تہجد کے وقت موبائل، جمعہ کے خطبے میں موبائل، منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں موبائل، لاحول و لا قوۃ۔

دجّال تو جب آئے گا تب آئے گا۔ آج اُمت کا فتنہ موبائل سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ پہلے جو کام چوری چھپے گاؤں سے کوسوں دور جا کے ہوتے تھے۔ وہ اب ہر کوئی اپنے کمبل کے اندر کرلیتا ہے۔

سوچتا ہوں کہ اگر 1400 سال پہلے موبائلز ہوتے تو احرام میں جانوروں کے شکار کے ساتھ ساتھ شاید یہ بھی ممنوع قرار پاتے۔

طواف زیارت کے دوران ایک صاحب نے موبائل نکال کر کسی کو فون کیا۔ دیکھیں جناب، ابھی حج سے فارغ ہوکے طواف زیارت کر رہا ہوں جھوٹ نہیں بولوں گا، جتنے پیسے دے سکتا تھا، دے دیئے، باقی معاف کریں۔ ہم نیک لوگ ہیں، آپ جیسے گناہ گاروں سے اللہ بچائے۔

بس ابھی بتا دیں تاکہ نہ چھوڑیں تو میں ذرا اللہ کے حضور کچھ شکایت تو پیش کرسکوں۔

حج نہ ہوا، پیسے ہتھیانے کا ذریعہ ہوگیا۔ اور نیکی اور گناہ، اور گناہ گاروں کو طعنے، کیا کہنے!

گناہ


جتنا ذکر ہمارے معاشرے میں گناہوں کا ہوتا ہے اتنا اگر نیکیوں کا ہوجاتا تو شاید سارے مسائل خود ہی ختم ہوجاتے۔ لوگ گناہوں کی قسمیں، گناہوں کے نقصانات اور گناہوں کے طریقوں پر وہ وہ بیانات دیتے ہیں اور اتنا کچھ لکھتے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی چلتا پھرتا گناہوں کا انسائیکلوپیڈیا بن جاتا ہے۔

یہ بھی گناہ، وہ بھی گناہ، بولنا بھی گناہ، چپ رہنا بھی گناہ، رکنا بھی گناہ، چلنا بھی گناہ، مانگنا بھی گناہ، دینا بھی گناہ، فارغ بیٹھنا بھی گناہ، بزنس کرنا بھی گناہ، گناہ کی اس تکرار سے آدمی مایوس و پریشان ہوجاتا ہے کہ آخر جائے کہاں اور کرے کیا؟

دنیا کی جنگوں کی طرح، خیر و شر کی اس لڑائی میں بھی کوئی ری ٹریٹ ہونی چاہئے کہ آدمی دو چار دن بیٹھ کر سکھ کا سانس لے سکے اور آرام سے سوچ سکے کہ زندگی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ گناہوں کے وہ وہ تذکرے اور ایسی پریشانی جو مایوسی کو جنم دے خود شیطان کی ایک چال ہے کہ بندہ کہے خدا (نعوذباللہ) میرے گناہ بڑھ گئے اور تیری رحمت کم پڑ گئی۔ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ اس مالک سے ہی مایوس ہوجائے جس کی کتاب شروع ہی الحمداللہ سے ہوتی ہے جو رحمن ہے جو رحیم ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ گناہ پر پریشانی تب تک ہو جب تک ہو نہ جائے۔ ایک بار ہوجائے تو بس اب معافی مانگے، استغفار کرے اور آگے چلے کہ زندگی پڑی ہے۔

یہ گناہ بھی اللہ سے ایک تعلق ہی تو ہے، بندہ اسی کا تو گناہ کرتا ہے کسی اور کا تو نہیں۔ اللہ نے جہاں کسی کو کوئی برگزیدہ مقام دیا ہے وہاں کسی کو کہیں اور رکھ چھوڑا ہے، خدا کے کاموں میں عِلّت نہیں ڈھونڈنی چاہئے۔ اللہ کا فضل کسی دلیل، کسی وجہ کا محتاج نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح اپنا حصّہ ڈال ہی رہا ہوتا ہے۔ میچ کے اس کھلاڑی کی طرح جس کے ہاتھ میں میچ کی آخری گیند پرلگنے والا چھکّا کیچ کی صورت میں آجاتا ہے اور وہ سُرخرو ہوجاتا ہے۔

وہ نیکی جو دعویٰ پیدا کرے اس سے وہ گناہ بہت بہتر ہے جو توڑ کر رکھ دے۔ گناہ بھی اللہ کی نعمت ہوتے ہیں یہ بندے کو بندہ بنا کر رکھتے ہیں ورنہ بندہ اوتار ہوجائے۔ اور کیا پتہ پُرسکون دل والوں کی تہجّد سے ندامت میں تڑپنے والوں کی راتیں بہتر ہوں۔

گناہ کی خواہش کا ہونا بھی بڑی اچھی بات ہے۔ یہ اُپلے ہوتے ہیں۔ گندگی ہوتی ہے۔ اُسے اللہ کے خوف کی یاد میں جلانا چاہئے کہ ترقی ہو۔ گناہ سرکش گھوڑے ہوتے ہیں اِنہیں سدھانا چاہئے کہ بندہ آگے کا سفر کرسکے۔ آدمی کو ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہئے، یہ اللہ تک پہنچنے کا بڑا آسان راستہ ہے۔

بندہ جب گناہ کا ارادہ کرلیتا ہے تو فرشتوں کو پتہ چل جاتا ہے۔ علم بھی گناہوں سے بچاتا ہے۔ یہ نیکیوں کا ملٹی پلایئرہے۔ اللہ گناہ کو کم درجے کا لکھتا ہے اور نیکی کو بڑھا کر لکھتا ہے۔ گناہوں کے سائیڈ ایفیکٹس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ آدمی گناہ پر قدرت رکھتا ہو مگر چھوڑدے کہ نفس کی مخالفت ہو، اللہ سے حیا آئے، اللہ کی محبت، خوف یا شکرغالب آجائے تو بھی نیکی لکھی جاتی ہے۔ اللہ اپنے ادب کا مزہ ضرور چکھاتے ہیں۔ کسی کو اِرادوں کی خبر ہو نہ ہو اللہ تو سب دیکھتا ہے اللہ تو سب جانتا ہے۔

اور یہ کبیرہ صغیرہ کی تکرار بھی ایک حد تک ٹھیک ہے۔ نظم و ضبط کے لئے مفتی کو فتویٰ دینا ہی پڑتا ہے مگر یوں بھی ہوتا ہے کہ ہر شخص کی پرکھ الگ ہوتی ہے۔ کسی کا صغیرہ کسی کا کبیرہ، کسی کا کبیرہ کسی کا صغیرہ۔ ہوسکتا ہے کہ شرک کا خیال کسی کے قریب سے بھی نہ گزرتا ہو مگر حسد اسے چمٹ گیا ہو۔ کسی کے لئے نماز پڑھنا آسان ہو مگر شہوت اسکا پیچھا ہی نہ چھوڑے۔ اب اگر وہ اس طلب سے نکل گیا تو اونچا گیا اور پھسل گیا تو بہت نیچے گرا۔ ہمارے معاشرے میں تو فتویٰ بھی وہ دیتے ہیں جنہیں گناہ کی الف، ب بھی نہیں آتی اور اصل فیصلہ تو حشر میں ہوگا جسے خدائے پاک نے کبیرہ کہہ دیا سو ہوا اور جسے صغیرہ تو وہ ویسا ہی لکھا جائے گا اور وہ اگر کبیرہ بھی بخش دے، بغیر توبہ کے ہی معاف کر دے، تو کون ہے جو اس سے پوچھ سکے۔

گناہگاروں کا بڑا احترام کرنا چاہئے۔ ان کا اللہ سے بڑا تعلق ہوتا ہے۔ ندامت کا اور توبہ کا، کسی کا بددعائیں دینے سے بیڑہ غرق نہیں ہوتا۔ اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑا تعلق ہے اور گناہ معاف ہونے کے بھی سینکڑوں طریقے ہیں۔ گناہ نیکی سے بھی معاف ہوجاتے ہیں اور کچھ کے گناہوں کو اللہ حشر میں نیکی سے بدل دیں گے۔ اور اللہ کا فضل تو توبہ کا بھی محتاج نہیں، بغیرتوبہ کے ہی بخش دے۔ اُس سے کس نے پوچھنا ہے؟ اللہ سائیں کہتے ہیں کہ وہ عذاب نہیں دیں گے، اگر ہم شکر ادا کرتے رہیں اور ایمان لائیں۔ اب بتائیے، توبہ اور گناہوں کا تو نام ہی نہیں آیا۔

اُمید اور حوصلہ رکھیں۔ جب نفس گناہ کا بولے تو نہ کریں، نیکی سے روکے تو کرلیں، اتنی سی بات ہے۔

آئیے، اللہ سے اپنے گناہوں کا ہی واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ نیکیاں ہیں کوئی نہیں۔ اے اللہ ہمیں ہمارے گناہوں کے صدقے معاف کر دے۔ نادانی میں ہوگئے تو بخش دے۔ اے اللہ تو ہی وہ ذات ہے جو ہمارے نفس کے بیچ میں حائل ہے۔ اللہ گناہوں کی لذت ختم کر دے۔ ایسے معاف کر جیسے شہنشاہ معاف کرتے ہیں۔ جس طرح تُو نے دنیا میں میرے گناہوں کی خبر نشر نہ کی اسی طرح آخرت میں بھی رسوا نہ کرئیو۔ اے اللہ! اتنا قریب بُلالے کہ کوئی ترجمان کوئی پردہ نہ رہے۔ تو گناہ بھی مٹا دے، گواہی دینے والوں کے ذہنوں سے بھی مٹا دے۔ اے اللہ ہم تو گناہ کو انجوائے بھی نہ کرسکے کہ گناہوں سے پہلے بھی تیرا خیال، گناہ کے بیچ میں بھی تیرا ڈراور گناہ کے بعد بھی تیرا خوف۔ اے اللہ! ہمارے ٹوٹے ہوئے بے لطف گناہوں کے صدقے ہمیں معاف کردے۔ آمین

منیٰ روانگی


8 ذی الحجہ، 10 ستمبر کی صبح سب لوگ تیار ہوگئے۔ حج تمتع والوں نے پھر سے حج کا احرام باندھ لیا۔ لوگوں نے تو پچھلی رات سے ہی جانا شروع کردیا تھا۔ زوال سے پہلے منیٰ پہنچنا تھا۔ ہمارے گروپ آرگنائزر نے کوئی 9:30 بجے چلنے کا کہا۔ عزیزیہ (جہاں ہم مقیم تھے) سے منیٰ کا فاصلہ کوئی زیادہ نہیں، ہم آرام سے 20 منٹ میں بس میں خراماں خراماں اپنے کیمپس میں پہنچ گئے۔

عبد اللہ کے ذہن میں خیموں سے مراد، شامیانوں سے بنے ٹینٹ تھے مگر یہاں کے ٹینٹ تو بہت آرام دہ اور خوبصورت تھے۔

ہر خیمے میں ایک اٹیچ باتھ، شاور کے ساتھ اور باہر بہت سے باتھ روم الگ۔

کھانے کیلئے بوفے اسٹائل میں میزوں کی لمبی قطار اور سامنے سائے تلے صوفے، میزیں اور پانی پھینکنے والے پنکھے۔ چائے، کافی، گرین ٹی، آئس کریم، پانی، جوس، بوتلیں سب کا 24 گھنٹے انتظام اور صرف ہمارے 4 خیموں کیلئے 10 سے اوپر نوکر چاکر اور انتظامیہ کے بندے الگ۔ ان میں ایک فلپائنی لڑکی بھی تھی جو سب کو کھانا سرو کرتی۔ عبد اللہ بڑا خوش ہوا۔ ہوٹل جیسی سہولت تو نہ تھی مگر اس سے کچھ کم بھی نہ تھی۔ ہر خیمے میں ڈیڑھ ڈیڑھ ٹن کے دو Split لگے تھے۔ جو خیموں کو اتنا ٹھنڈا کر دیتے کہ رات کو کمبل اوڑھ کر سونا پڑتا۔

  • مکتب نمبر 1


کھانے کی کثرت ہر جگہ تھی۔ ہوٹل میں ناشتہ، لنچ اور ڈنر بوفے۔ خیموں میں کھانا اور انتہائی پر تکلف کھانا۔

ایک بات جو بہت نا مناسب تھی وہ ان کھانے کا اسراف اور ضائع ہونا تھا۔ لوگ پاکستانی شادیوں کی طرح خوب کھانا بھر لیتے اور بعد میں وہ پھینک دیا جاتا۔

ہمارا خیمہ مکتب نمبر 1 میں تھا جو کبری خالد کے پل سے اُترتے ہی تھا اور جمرات (جہاں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں) وہاں سے واکنگ Distance پر۔

یہیں منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور اگلے دن، یعنی 9 ذی الحجہ کی فجر کی نمازیں پڑھنی تھیں اور پھر زوال سے پہلے پہلے کچھ دور میدان عرفات میں پہنچنا تھا۔ تمام نمازیں خیموں میں ہی ہوگئیں۔ نمازی موجود تھے۔ ایک اچھے سے مولوی صاحب ساتھ تھے جو شرعی مسائل میں لاجسٹکس کی سہولیات کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ جماعت کرا دیا کرتے تھے۔

عبد اللہ نے کُل لوگ گنتی کیئے۔ ان کے اور آس پاس کے خیموں میں، جو سب مکتب 1 میں تھے، میں کوئی 250 کے قریب لوگ تھے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ لوگوں نے تو بس یونہی ڈرادیا تھا، مجھے تو ابھی تک کوئی رش نظر نہ آیا۔

عبد اللہ نے خیمے میں پہنچتے ہی چادر نکالی اور لمبی تان کر سوگیا۔ ظہر پر آنکھ کھلی، کھانا کھایا اور الحزب الاعظم پڑھنے بیٹھ گیا۔ عصر، مغرب، عشاء۔ سب آرام سے گزر گیا۔

رات کا پر تکلف کھانا کھایا اور ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ حج کو مزید کیسے انجوئے کرے کہ مکتب نمبر 1 سے باہر لوہے کی گرل کے پار نظر پڑی۔ ایک عور ت جالی میں دونوں ہاتھ ڈالے پکار ر ہی تھی۔

یا حاجی! ماء؟ یاحاجی! ماء (پانی)؟

عبد اللہ کو دھچکا لگا کہ یہ کیا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ میں موجود بوتل باہر اچھال دی۔ اور مکتب نمبر 1 سے باہر نکل آیا کہ دیکھے باہر کیا ہو رہا ہے۔

ساتھ والے مکتب نمبر 2 میں بڑا رش تھا۔ معلوم ہوا جنید جمشید اور مولانا طارق جمیل صاحب کا گروپ یہاں ٹھہرا ہوا ہے تو لوگ بیان سننے او ر دیدار کی غرض سے جمع ہوئے ہیں۔ مکتب نمبر 3 میں بھی ان کا بیان ہے۔ عبد اللہ کے گروپ کے کئی لوگ شرفِ زیارت کو گئے مگر عبد اللہ کے سوالات اسے کب چین سے بیٹھنے دیتے ہیں؟

کیا مطلب؟ حج پر بھی کسی اور کی زیارت؟ اللہ کے گھر میں اللہ کے سامنے کسی اور کو مانگوں؟ منیٰ میں بھی شخصیت و تعارف۔ عبداللہ عقیدت کے اس شرک سے دور ہی رہا۔

ذرا دائیں مڑا تو کیا ہی خیمہ تھا۔ ایسٹ ایشیا کے لوگوں کا یا یوں کہہ لیں VIP حاجیوں کا۔ بوفے کا باقاعدہ اپنا روم، چلنے پھرنے کی وسیع لابی، اس میں TV لگے ہوئے اور ہر شخص کا اپنا چھوٹا سا خیمہ نما کمرہ۔ اب عبد اللہ کو اپنا خیمہ برُا لگنے لگا۔ اس نے سوچا گروپ کا نام نوٹ کرلوں آئندہ کبھی آنا ہوا تو ان کے ساتھ آؤں گا۔ وہ سوچنے لگا کہ ہم تیسری کیٹِگری میں ہیں۔ شاہی حاجی اور GCC حاجیوں کے پاس کیا ہوتا ہوگا۔ وہ دن دور نہیں جب شاہی حجاج ہیلی کاپٹر پر ہی 7 چکر لگا کر طواف کرلیں گے اور 7 بھی کیوں، 4 واجب ہیں، 3 تو سنت ہیں۔ اب سنتوں کو کون پوچھتا ہے۔

جناب آٹو میٹک ویل چیئر زپر طواف ہوسکتا ہے، گاڑی میں بیٹھ کر زیرِ زمین کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔ رائل فیملی جمعہ کی نماز اپنے اپنے کمروں میں TV کے سامنے امام کعبہ کو Follow کرکے پڑھ سکتے ہیں تو خیال کچھ ایسا ہی ہے کہ چند سالوں میں ہیلی کاپٹر پر طواف کا فتویٰ بھی آ ہی جائے گا۔

عبد اللہ نے سوچا ذرا لمبا چکر لگالیں تاکہ کچھ اور دیکھا جا سکے۔ منیٰ میں اب ایک پختہ کئی منزلہ بلڈنگ بھی بن چکی ہے لوگ وہاں بھی رہتے ہیں۔

عبد اللہ آگے بڑھا تو بازار آگیا۔ یہ بالکل مختلف دنیا تھی۔ کچرے کے وہ ڈھیر جیسے خود کش حملہ آور کچرے کے ٹرک میں پھٹ گیا ہو۔ 5 ریال کے انڈے پراٹھے (مطبخ) پر لوگوں کی لائن اور ان میں بھی کئی ایسے جو یہ بھی افورڈنہ کرسکیں اور کسی حاجی کا انتظار کرتے رہتے جو آکر ان کے کھانے کو کچھ دے۔

کچرے کے ڈھیر میں لیٹے ہوئے لوگ، آس پاس مکتب کی جالی سے لگی خواتین، دودھ لینے کیلئے پیسے مانگتی مائیں اور تاحد نظر پھیلی ہوئی بھوک اور حالت زار۔ منیٰ میلوں میل لمبا پھیلا ہوا میدان ہے۔ کچھ پاکستانی حاجیوں کا تو مکتب نمبر 96 تھا یعنی میلوں سفر وہ بھی پیدل 45 ڈگری سینٹی گریڈ میں جو دھوپ کے نیچے 55 محسوس ہو۔

عبد اللہ کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کون سا حج ہے۔ پیٹ میں موجود مرغن غذاؤں نے شرمندگی میں احتجاج شروع کردیا۔ اچھی خوراک اور اعلیٰ لائف اسٹائل کی بدولت چہرے پر آنے والا نور ماند پڑگیا اور عبد اللہ کو پے در پے اُلٹیاں آنے لگ گئیں۔

وہ اس بھیانک سین کو کسی ڈراؤنے خواب کی طرح بھول جانا چاہتا تھا، مگر ظالم ایک بار آئینہ دیکھ لے تو ظلم منہ نوچ لیتا ہے۔

عبد اللہ گرتا پڑتا خیمے میں واپس پہنچا، گروپ میں موجود ڈاکٹر سلمان سے دوا پوچھی اور اپنا ایمرجنسی میڈیکل باکس کھول کر کچھ گولیاں کھالیں۔

مگر اب نیند کہاں، ضمیر چھریاں مارے تو پھولوں کی سیج پر بھی نیند نہیں آتی۔

عبد اللہ خیمے سے نکل کر بوفے کی طرف آگیا۔ ملازم ابھی تک کھانا سرو کر رہے تھے۔ اس نے فلپائنی لڑکی سے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا کہ تم 20 لاکھ لوگوں کی موجودگی میں کام کرنے پر مجبور ہو؟ مگر اسے، اُردو، انگلش میں سے کوئی زبان نہ آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سب لکھا تھا مگر پڑھے کون؟ ہم تو حج کرنے آئے تھے، خیمے کے چاروں طرف غریب و نادار لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح پڑے تھے۔

خیمے کے گیٹ پر موجود دربان جو کہ ہر آنے جانے والے کو Verify کرکے خیمے میں بھیجتے تھے، عربی گانوں کی دھنوں پر محو استراحت تھے۔ ایک دربان کو گِرل کے ساتھ لگی لڑکی بھا گئی تو اسے کھانا لا لا کر دے رہا تھا اور جواب میں اپنے موبائل سے اس کی اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے تصویریں کھینچ رہا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔