بڑے لوگوں کی دیکھ بھال
ان دنوں لاہور شہر کی سڑکوں پر کسی میلے کا گماں گزرتا ہے اس قدر رش پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا
ان دنوں لاہور شہر کی سڑکوں پر کسی میلے کا گماں گزرتا ہے اس قدر رش پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا۔ اتنی گاڑیاں کہاں سے آ گئیں اس کا علم ہمارے شہری معاملات کے ماہرین کو ہی ہوگا لیکن یہ سنا جاتا ہے دیکھا جاتا ہے اور بھگتا جاتا ہے کہ لاہور میں نقل و حرکت اب اس شہر کی ایک روز مرہ کی مشکل بن گئی ہے جس کو ٹریفک پولیس تو ہر گز حل نہیں کر سکتی بلکہ خبریں یہ ملتی ہیں کہ رش والی سڑکوں پر ٹریفک پولیس موجود ہی نہیں ہوتی اور وہ اپنی جان بچا کرکہیں ادھر ادھر ہو جاتی ہے۔ شہروں میں ٹریفک کا مسئلہ ایک مستقل مسئلہ ہے لیکن جو حال لاہور کا ہے وہ تو پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا۔
ایسی خبریں بھی ملتی ہیں کہ مریض اسپتال جا رہے تھے کہ راستے میں ہی ٹریفک کو پیارے ہو گئے بلکہ بعض مریض تو اس پروٹوکول پر قربان ہو گئے جو کسی بڑے آدمی کے اعزاز میں آراستہ کیا گیا۔ یہ سب اخباروں میں چھپ چکا ہے اور اہل لاہور اپنی اس بے بسی پر اشک فشاں ہیں، حال میں ایک بچہ ایک بڑے لیڈر کے پروٹوکول پر قربان ہو گیا جو راہ اس پروٹوکول کی وجہ سے بند ہو گئی تھی اور بچے کو اس کے والدین اسپتال نہ لے جا سکے۔ یہ سب اخباروں میں چھپا ہے اور میں اس لیے آپ کے علم میں لا رہا ہوں کہ آپ احتیاط کیا کریں۔ زیادہ سے زیادہ کسی حادثے کی ایک خبر چھپ سکتی ہے اور خبر کسی کو زندہ نہیں کرتی۔
ہمارے ہاں شہری زندگی خاصی مشکل ہوتی جا رہی ہے اور اس میں ٹریفک کی حد تک پروٹوکول وغیرہ کا خاصا حصہ ہے۔ لیڈر حضرات اصرار کرتے ہیں کہ ان کی نقل و حرکت بڑے طمطراق کے ساتھ ہو تاکہ عوام پر ان کا رعب پڑ سکے اور معلوم ہو کہ ان کا عوام میں کتنا اونچا مقام ہے۔ اس سلسلے میں ایک شہری کا خط موصول ہوا ہے کہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ عوام کو غیر ضروری پروٹوکول کے نام پر شدید عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ملک بھر کے خاص طور پر بڑے شہروں کے عوام برسوں سے اس عذاب کو بھگت رہے ہیں۔
آئے دن سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں اور منٹوں کا سفر کئی کئی گھنٹوں پر محیط کر دیا جاتا ہے۔ ملک کے خصوصاً بڑے شہروں کے عوام برسوں سے اس عذاب کو بھگت رہے ہیں۔ اسپتال جانے والے بہت سے پیاروں کی جان پر بن جاتی ہے۔ اب تک نہ جانے کتنے لوگ اس غیر ضروری پروٹوکول یا وی آئی پی موومنٹ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود اس صورت حال کے خاتمے کے کوئی انتظامات نہیں کیے جاتے بلکہ نہ جانے کتنے لوگ اس غیر انسانی پروٹوکول کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس سلسلے کو بعض اوقات اس حد تک بڑھا دیا جاتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی کہیں جا رہا ہو تو پورے شہر کا نظام مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ پیاروں کو موت کے منہ میں لے جانے والے پروٹوکول کا خاتمہ ایک شہری اور قومی ضرورت ہے۔
اگر اہم شخصیات کی سیکیورٹی ناگزیر ہو تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ عوام کو بلاوجہ عذاب میں مبتلا کر دیا جائے اور پیاروں کو طبی سہولت سے بھی محروم کر دیا جائے اور ان کے وارث بے بسی کے عالم میں اس صورت حال کو دیکھتے رہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ غیرضروری پروٹوکول سے عوام کو محفوظ رکھا جائے اور ان کی معمول کی زندگی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے بلکہ ضروری ہو تو ان بڑے لوگوں کی نقل و حرکت کے بارے میں عوام کو پہلے ہی خبردار کر دیا جائے تاکہ وہ بروقت محتاط ہو جائیں۔ اگر پاکستانی شہروں کے عوام سے پوچھا جائے تو وہ اس غیر ضروری رکھ رکھاؤ کو مسترد کر دیں گے اور اپنی آمدورفت کی آزادی کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔
ہمارے ہاں ایک عجیب معمول بن چکا ہے، اہم لوگوں کو غیرضروری اہمیت دے کر انھیں اہم بنایا جاتا ہے جب کہ ایسے مصنوعی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن سے وہ شخصیات خود بھی بے زار ہوتی ہیں لیکن یہ سب ایک معمول بن چکا ہے اور پروٹوکول عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے جسے کوئی برائے نام معزز بھی ترک کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ یہ مصنوعی عزت افزائی ایسی ہوتی ہے جسے عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ سب ایک دکھاوا ہے اور کچھ نہیں۔ بہرکیف جب تک تبدیلی عام نہیں ہوتی یہ سب ایسے ہی جاری رہے گا ایک مصنوعی زندگی۔