شبنمی ہواؤں کا شہر

استنبول میں اترتے ہی ٹھنڈا جھونکا میری طرف آیا جس میں مٹی کی مہک کے ساتھ گمشدہ تاریخ کا لمس بھی شامل تھا


Shabnam Gul October 06, 2016
[email protected]

استنبول میں اترتے ہی ٹھنڈا جھونکا میری طرف آیا جس میں مٹی کی مہک کے ساتھ گمشدہ تاریخ کا لمس بھی شامل تھا۔ کسی بھی ملک میں جاتے ہی کئی خاکے آپ کے ذہن میں بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے اتاترک ایئرپورٹ پر دہشتگردی کا حملہ ہوا تھا۔

حالانکہ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ترکی کی مضبوط پارلیمانی قیادت، بیرونی انتشار پسند قوتوں کے سامنے کافی مضبوط ہے، مگر دنیا کا نظام تیزی سے بدل رہا ہے۔ کچھ اقوام مکڑی کے جالے جیسا ہوشیار ذہن رکھتی ہیں، انھوں نے دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ترک فوج کے لیے یہ تاثر قائم رہا ہے کہ ترک فوجی بغاوتوں میں ہمیشہ مخالفین پر حاوی ہو جاتے ہیں مگر 15 جولائی کو فوج کی بغاوت کی ناکامی، صدر اردگان کی حکومت کی خوش قسمتی ہے۔

ایرانی میڈیا سے ملنے والی خبروں کے مطابق، شام میں واقع ایئربیس کیمائم پر موجود روسی فوج کے انٹیلی جنس اداروں نے ترک فوج کے سازشی پیغامات وصول کر لیے تھے۔ جن سے اندازہ ہوا کہ ترکی میں بغاوت کا بیج بونے والے فوجی کمانڈر، صدر اردگان کے قتل کی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ جس کے بعد ترکی صدر قبل ازوقت اس ہوٹل سے باہر نکل گئے، جس پر حملہ کیا جانے والا تھا۔ لیکن پھر بھی باغی فوجیوں کو انقرہ اور استنبول کے راستوں پر آنے کا موقع مل گیا۔ انھوں نے شہریوں اور پارلیمنٹ پر حملے کرنے شروع کر دیے۔

ترکی کی تمام تر بغاوتوں اور فسادات میں وہ فوج ملوث تھی۔ جسے جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے قومی سلامتی، استحکام اور سیکولرازم کے محافظ کے طور پر تیار کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ترکی میں 1960ء سے 1997ء تک چار فوجی بغاوتوں کے پس پردہ سپرپاور امریکا کا ہاتھ تھا۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد اردگان امریکا اور مغرب کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے مگر روس کے لیے ترک صدر کا رویہ مثبت دکھائی دیا۔

ان واقعات نے ترکی کی سیاحت کی صنعت کو کافی متاثرکیا۔ اب بھی لوگ ترکی جانے سے پہلے سوچ میں پڑ جاتے ہیں، مگر ترکی کی شاندار ثقافت، تاریخ اور جغرافیائی حسن انھیں بے اختیار اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے۔ مہیب بادلوں کے آسمان تلے ترکی پرسکون تھا۔ جیسے یہاں غیر انسانی واقعات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئے تھے۔

استنبول ساتویں صدی میں دریافت ہوا۔ سولہویں صدی میں یہ شہر بازنطینی حکمرانوں اور عثمانیہ سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ ان دو خوبصورت تہذیبوں کے نشانات قدیم آثاروں میں ملتے ہیں۔ عثمانیہ سلطنت نے اپنا اقتدار روس، آسٹریا، سربیا، یونان اور بلغاریہ سے جنگوں میں کھو دیا۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم میں گیلیپولی کی جنگ میں عثمانیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی اور استنبول پر وکٹورین، فرنچ، برطانیہ اور یونانی حملہ آوروں نے قبضہ کر لیا۔

جدید ترکی کے بانی مصطفے کمال پاشا نے اس ملک کا نقشہ بدل دیا۔ یونان سے لڑائی کے بعد جدید ترکی کی حد بندی مقرر کر دی گئی۔ استنبول میں سو سے زیادہ ایسے مقامات تھے جنھیں دیکھا جا سکتا ہے۔ جن میں مساجد، چرچ، محل، میوزیم، بازار، حمام اور باغات وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا ہوٹل میں سامان وغیرہ رکھ کے نکل کھڑے ہوئے۔ استنبول کے راستوں کے نشیب و فراز دیکھ کر کبھی ریشم گلی یاد آتی تو کبھی تلک چاڑھی حیدرآباد کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا۔ مگر ترکی کے حکمرانوں نے بڑی محبت اور محنت سے راستوں کے نشیب و فراز کو سنوارا ہے۔

سڑکوں پر چھوٹی اینٹیں ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔ سامنے خوبصورت توپ کاپی محل ایستادہ تھا ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ سوئیٹر اور چھتری کا سہارا، مہربان دوست کا سا تھا۔ اس قدر حسین اور قدیم درختوں میں گھرا ہوا یہ محل دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے قدیم درختوں کو چھو کے آتے تو خمار آلود مہک ہر طرف چھڑکنے لگتے۔ یہ محل سلطنت عثمانیہ کی شاندار ثقافت کا منہ بولتا اظہار ہے۔ جو نہ فقط حکمرانوں کی رہائش گاہ تھی بلکہ انتظامی امور اور تعلیمی مرکز بھی تھا۔

یہ محل 1466ء اور 1778ء کے درمیان میں بن کر پایہ تکمیل تک پہنچا، جسے سلطان محمد دوم نے بنوایا تھا، قسطنطنیہ کے اس فاتح نے اس محل کو سالوں تک سنوارا اور نکھارا۔ انیسویں صدی تک یہ محل سلطنت عثمانیہ کی رہائش گاہ اور عدالتی منصب بنا رہا۔ 1924ء کو یہ محل مصطفی کمال اتاترک کے حکم کے مطابق، میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ محل کے مختلف حصوں میں نادر اشیا جنگوں کے دوران نوادرات حاصل کرنے کے علاوہ مختلف ملکوں کے تحائف اور ملکی طور پر خریدا ہوا اثاثہ ہے۔

چینی اور مٹی کے حسین برتن چائنا، جاپان و دیگر یوروپی ملکوں کی شاندار تہذیب کا منفرد اثاثہ ہیں۔ جن کے نقش ونگار اور نمونے جدید دور کے برتنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جدت بھی درحقیقت قدامت کا ایک نیا روپ ہے نیا پن بھی کہیں نہ کہیں اپنی بنیاد سے جڑا ہوا ہے۔ پیتل اور تانبے سے بنے ہوئے برتن اپنے دورکا نادر نمونہ ہیں۔

سلطان سلیمان سوم کے زمانے میں شیشہ کے برتن وگلاس کے کام پر توجہ دی گئی اور نمایندے اٹلی بھیجے گئے چاندی کے برتن و نوادرات سولہویں سے انیسویں صدی کے شاندار فن پارے ہیں۔ جن کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے جس میں محل میں استعمال ہونے والی اشیا، مغربی ملکوں کے تحائف، خریدا ہوا اثاثہ اور عطیے کے طور پرجمع کرایا ہوا سامان شامل تھا۔ ان کے نمونے، خطاطی، نقش نگاری دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ عثمانیہ سلطنت کے دوران یا اس سے پہلے استعمال ہونے والے ہتھیار 1,300 سالوں تک محیط ہیں۔

52000 یہ ہتھیار عرب، امیہ، عباسی، ایران، کریمائی تاتار، ترکی، ہندوستان، مغربی و جاپانی ملکوں کی تہذیبوں کے فن اورندرت کی انوکھی مثال ہیں۔ ہتھیاروں کی خوبصورتی حیران کن تھی اور وہاں موجود تمام تر لوگ آپس میں حیرت اور توصیفی کلمات سے اسلامی تہذیب کے فن و فکر کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ وہاں سے نکل کر باورچی خانے کی طرف چلے، جہاں بڑی دیگیں رکھی ہوئی تھیں جن میں حلوہ پکایا جاتا تھا۔

وسطی ایشیا میں حکمرانی کے دوران ترک میٹھا بالکل نہیں کھاتے تھے۔ انھوں نے میٹھا اسلام قبول کرنے کے بعد کھانا شروع کیا۔ جب وہ وسطیٰ ایشیا میں رہائش پذیر ہوئے جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہد اور حلوے کے رسیا تھے۔ شہد، گڑ، فروٹ جیلی، ملک پڈنگ اور بکلاوا سے بنا ہوا حلوہ سلجوک اور سلطنت عثمانیہ کے دسترخوان کی زینت بنا کرتے، مگر حلوہ مرغوب ترین میٹھا پکوان تھا۔ آج بھی ترکی میں جابجا مٹھائی کی دکانیں موجود ہیں۔

پانچ گھنٹے گزر گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ لان کی طرف بڑھے تو اشتیاق دیواروں سے نقاشی کے ٹائلزکے نادر نمونوں کی تصاویر لینے لگے۔ سندھ میں بھی کاشی کا کام بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ آثار قدیمہ کی عمارتوں کی مرمت کے دوران اشتیاق انصاری کاشی کی اشیا حاصل کرنے سندھ کے دور دراز علاقوں تک سفرکرتے رہے۔ اس وقت وہ مجھے محل میں لگی ہوئی کاشی سے ملتے جلتے ٹائلز کے بارے میں بتاتے ہوئے معلومات میں اضافہ کرنے لگے۔ یہ ثقافتی نفوذ دلچسپ اور حیران کن ہے۔

شاندار اسلامی تہذیب کے تمام تر روح رواں آج مقبروں میں سکونت پذیر ہیں۔ فقط گم گشتہ صدائیں ہیں۔ بارش تیز تر ہونے لگی۔ شبنمی ہواؤں نے اپنے سحر میں جکڑ لیا، مگر جانے کیوں آنکھوں میں بھی نمی سی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں