دوفنکار بھائی جوجلد ہی دنیا سے چلے گئے

یہ دو بھائی استاد امیراحمد خان اور وزیر احمد خان تھے


یونس ہمدم October 07, 2016
[email protected]

میں آج کے کالم میں دوایسے فنکار بھائیوں کی یادیں تازہ کررہا ہوں، جو موسیقی کی دنیا میں دہلی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک بھائی نے آواز کی جادونگری سے اپنے آپ کو منوایا اور دوسرے بھائی نے سازکے سروں سے دلوں کوگرمایا اورافسوس کی بات یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کی عمروں نے ان کے ساتھ زیادہ وفا نہیں کی۔ پہلے چھوٹا بھائی اس دنیا سے منہ موڑگیا اور پھر بڑا بھائی بھی وقت سے پہلے ہی اپنے پیاروں کو جدائی کا داغ دے گیا۔

یہ دو بھائی استاد امیراحمد خان اور وزیر احمد خان تھے۔ جو برصغیر کے نامور سارنگی نواز استاد بندوخان کے نواسے اور پرائڈ آف پرفارمنس استاد امراؤ بندوخان کے بھانجے تھے۔ استاد امیر احمد خان سے میری ملاقات اسکول کے زمانے میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ بھی اسکول ہی کا طالب علم تھا، مگر پندرہ سولہ سال کی عمر ہی میں کلاسیکی موسیقی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کررہا تھا۔

میں ان دنوں گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول جیکب لائن میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اورمسرورعلی انور (بعد کا نامور شاعر مسرورانور) دسویں کلاس میں تھا اور اسکول کے سالانہ فنکشن میں مسرور انور ہی نے نو عمر سنگر امیر احمد خان کو بطور مہمان فنکار مدعوکیا تھا۔ یہ ہمارے اسکول کا سالانہ فنکشن تھا جس میں اسکول کے فنکاروں کے علاوہ چند باہر کے فنکاروں کو بھی بلایا جاتا تھا۔

میرا ان دنوں شرارتی طالب علموں میں نام مشہور تھا۔ جب مسرور انور نے یہ کہہ کر امیر احمد خان کو گلوکاری کے لیے بلایا کہ یہ نوعمر لڑکا استاد گھرانے کا چشم وچراغ ہے اورگیت غزل گانے میں اپنا جواب نہیں رکھتا اور پھر جب امیر احمد خان گانے کے لیے اسٹیج پر آیا اوراس نے ایک غزل چھیڑی تو میں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ امیر احمد خان پر خوب ہوٹنگ کی۔امیراحمد خان نے غزل ختم کرکے کہا۔ مجھے پتا ہے آج کی محفل میں غزل سے زیادہ گیت اچھے لگتے ہیں پھرامیراحمد خان نے ایک کلاسیکل گیت جو محمد رفیع کا گایا ہوا تھا جس کے بول تھے۔

تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا' رہے گا ملن یہ ہمارا تمہارا

تو اسکول کے سارے بچوں نے بڑی دلچسپی سے سنا اورگیت کے آخر میں تالیاں بھی بہت بجائیں۔ اس گیت کے بعد امیراحمد خان نے رفیع ہی کا ایک نیم کلاسیکل گیت سنایا جس کے بول تھے۔

مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے

اس گیت کے ردھم اور سروں کے رچاؤ میں امیر احمد خان کی آواز نے ایسا جادو جگایا کہ ہر طرف سے واہ واہ ہوگئی اور پھرآدھے گھنٹے تک مزید امیر احمد خان اسٹیج پر جم کرگاتا رہا۔ فنکشن کے اختتام پر میں نے امیراحمد خان کی گائیکی اورآواز کی تعریف کرتے ہوئے معذرت بھی کی کہ میں نے شروع میں اس پر ہوٹنگ کی تھی۔

یہ تھی میری امیراحمد خان سے پہلی ملاقات اور پھر اتفاق کی بات کہ اسلامیہ آرٹس کالج میں پھر ہم دونوں کی دوسری ملاقات اس طرح ہوئی کہ جب کلاسوں کا آغاز ہوا تو میری اورامیر احمد خان کی کلاس بھی ایک ہی تھی اور پھردوستی گہری ہوتی چلی گئی یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ آج کا اداکار ندیم، جب وہ نذیر بیگ تھا۔ تو ہمارا کلاس فیلو تھا اور اسی کلاس میں ٹیلی ویژن کے بعد کے مشہورپروڈیوسر ایم ظہیرخان، آفتاب عظیم، غزالہ یاسمین، سلیم جعفری اوراداکار طلعت حسین بھی ہمارے ساتھی تھے۔

امیر احمد خان نے کلاسیکی موسیقی میں پھر بڑی مہارت حاصل کی اوراس کے چھوٹے بھائی وزیر احمد خان نے وائلن کے ساز کو اپنی زندگی بنا لیا۔ ان دنوں وزیر احمد خان وائلن ماسٹر کہلایا جاتا تھا اورکراچی کے فنکشنوں میں جب وائلن پر ہندوستانی اورپاکستانی دھنیں چھیڑتا تھا، تو ایک سماں باندھ دیتا تھا اورشائقین فرمائش کرکے وزیراحمد خان سے وائلن پر دھنیں سنا کرتے تھے۔ وزیراحمد خان ہر فن مولا تھا۔ وہ کشورکمار کے گیت بھی بہت اچھے گاتا تھا خاص طور پر:

٭اینا مینا ڈیکا

٭کورا کاغذ تھا یہ من میرا

٭گھنگھرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں

اور پھر جب انھی گیتوں کی دھنیں وہ وائلن پر بجاتا تھا تو محفل دیوانی ہوجاتی تھی، وزیر احمد خان نے کراچی میں بے شمار گلوکاروں اور مزاحیہ فنکاروں کو روشناس بھی کرایا اور انھیں آگے بھی بڑھایا۔ وزیر احمد خان ان دنوں شادی کے بڑے بڑے فنکشنوں کا میزبان ہوا کرتا تھا۔

وزیر احمد خان اپنے بڑے بھائی امیر احمدخان کے ساتھ لیاقت آباد (پرانا نام لالوکھیت) میں رہتا تھا اور اسی علاقے کے قرب و جوار میں معین اختر، عمر شریف، تنویر خان، مرید خان اور مسعود دھماکہ وغیرہ بھی رہتے تھے اور ان فنکار دوستوں کو ٹولی کی صورت میں وزیر احمد خان اپنے فنکشنوں کی زینت بناتا تھا۔ یہ سارے فنکارجنھیں پتا ہی نہیں تھا کہ وہ ایک دن شہرت کے سنگھاسن پر بیٹھ کر خوب نام اور پیسہ کمائیں گے۔

ان دنوں وزیر احمد خان کے فنکشنوں میں یہی فنکار پچیس اور پچاس روپے لے کر بڑی خوشی خوشی سے فنکشنوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور وزیر بھائی کے مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ اخلاق احمد اور تحسین جاوید بھی اس دور میں وزیر احمد خان کی گڈ بک میں ہوا کرتے تھے۔ ہر فنکارکو اسٹیج پر لانے سے پہلے وزیر احمد خان اپنی باتوں اور میزبانی سے بھی محفل گرمایا کرتا تھا۔

مزاحیہ فنکار ایاز خان (جو بعد میں ڈاکٹر بن گیا تھا) اور ایاز خان سے پہلی مرتبہ مجھے وزیر احمد خان ہی نے ملوایا تھا۔ وزیر احمد خان کے بڑے بھائی امیر احمد خان نے بحیثیت ریڈیو پروڈیوسر اپنے کیریئر کا آغاز کردیا تھا وہ اکثر کہتا تھا میرے والد کا انتقال جلدی ہوگیا اور میرے سر پر بہن اور بھائیوں کی کفالت اور تعلیم کا بوجھ بہت ہے اورموسیقار یا غزل فنکار کی روزی ہوائی روزی ہے ملی تو خوب ملی اور نہ ملی تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو اور یہ بات ایک کڑوی حقیقت بھی تھی یوں امیر احمد خان نے موسیقی کے شوق کو دبا دیا تھا اور سرکاری نوکری کو اپنا لیا تھا۔

پھر بھی یہ گاہے گاہے کلاسیکل موسیقی اور غزل کی گائیکی میں حصہ لیتا رہتا تھا۔ اس کے گلے میں سروں کا خزانہ تھا اور گلے میں جو مرکیاں تھیں ان کی تعریف تو بھری محفلوں میں موسیقار نہال عبداللہ، نثار بزمی، اور لیجنڈ گلوکار مہدی حسن بھی برملا کیا کرتے تھے۔ امیر احمد خان فارغ اوقات میں موسیقی کی کلاسیں بھی لیا کرتے تھے اور بڑے بڑے بزنس مین گھرانوں کی خواتین کو ان کے گھروں پر موسیقی کی تعلیم دینے بھی جاتے تھے۔

کراچی میں درجنوں نہیں سیکڑوں ایسی خواتین تھیں جو استاد امیر احمد خان کی موسیقی کے ناتے شاگردوں میں شمار ہوتی تھیں ۔ مجھے ایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میری پہلی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی موسیقی بھی استاد امیر احمدخان نے مرتب کی تھی اور اخلاق احمد کے ساتھ اسما احمدکو پہلی بار سولو اور ڈوئیٹ گیت گوانے کے ساتھ ساتھ تیرہ سال کی عمر میں رونا لیلی سے بھی ایک گیت گوایا تھا۔ رونا لیلی کا وہ ابتدائی گیت تھا۔

''تم سا نہیں دیکھا'' بڑی تاخیر کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچی اور جب وہ فلم ریلیز ہوئی تو رنگین فلموں کا دور شروع ہوچکا تھا اور ''تم سا نہیں دیکھا'' بلیک اینڈ وائٹ فلم تھی، جو بڑی تاخیر سے ریلیز ہونے کی وجہ سے فلاپ ہوگئی تھی، مگر اس کے گیت پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے بڑے نشر ہوتے تھے میں فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی نمائش سے پہلے ہی لاہور شفٹ ہوگیا تھا اور وہاں فلمی دنیا سے منسلک ہوگیا تھا۔ امیر احمد خان ریڈیو کی نوکری میں پروڈیوسر سے ترقی کرکے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ گیا تھا۔

مجھے اس بات کا بڑا ملال ہے کہ استاد امیر احمد خان کی زندگی اور اس کے مرنے کے بعد بھی اسے حکومت کی طرف سے بحیثیت کلاسیکل اور غزل سنگر جو اس کی شناخت تھی پرائڈ آفس پرفارمنس سے نہیں نوازا گیا۔ جب کہ کئی ایسے گلوکاروں کو یہ اعزاز دیا گیا جو استاد امیر احمد خان کی گائیکی سے متاثر ہوئے۔ کچھ نے اس سے سیکھا بھی تھا۔ ہاں کراچی کی مقامی حکومت نے اتنا ضرورکیا کہ جہاں استاد امیر احمد خان کی رہائش تھی اس علاقے کی ایک بڑی سڑک کو استاد امیر احمد خان روڈکا نام دیا گیا ہے۔ اے کاش کہ یہ کام بھی اس کی زندگی میں کردیا جاتا مگر ہماری قوم کا یہ کردار ہے کہ وہ مردہ پرست ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں