پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بھرپور موقف سے کشمیرکی تحریک کو نئی زندگی ملی ہے

’’موجودہ ملکی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کا کردار ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


Express Report October 10, 2016
’’موجودہ ملکی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کا کردار ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : ایکسپریس

مسئلہ کشمیر اور بھارتی جارحیت کے خلاف یکجہتی کا پیغام دینے کے لیے حکومت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میں اتفاق رائے سے بھارتی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق قرارداد منظور کرلی گئی۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی جبکہ تحریک انصاف 30اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ ان حالات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''موجودہ ملکی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کا کردار'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' اسلام آباد میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان
( رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن))
پاکستان کی موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق بھر پور موقف اپنایا ہے۔ حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ کشیدہ صورتحال کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے متعدد اقدامات کئے جس میں وزیر اعظم کی جانب سے مختلف ممالک میں پارلیمانی نمائندوں کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں خصوصی ایلچی کے طور پر بھیجنا،کامیاب آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے دو ٹوک اور موثر خطاب شامل ہیں۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ حل طلب امور پر جاری مذاکراتی عمل کی راہ میں ہندوستان کی جانب سے رکاوٹ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں،معصوم اور مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور حالیہ دو ماہ کے دوران تشدد میں تیزی لانے سے متعلق جس طرح سے کھل کر اظہار خیال کیا ہے اسے نہ صرف پاکستان بلکہ حریت کانفرنس اور اقوام عالم میں بھی خوب سراہا گیا۔

وزیر اعظم پاکستان نے ہندوستان کے حکمران کی طرح جنگی اور جارحانہ لب ولہجہ اختیار کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر سمیت تمام دو طرفہ امور پر دو ٹوک اور کھل کر پاکستان کا موقف پیش کیا ہے اور اقوام عالم کو ہندوستان کے حکمرانوں کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ وزیر اعظم نے جہاں مسئلہ کشمیر اور خطے میں امن کے قیام سے متعلق ہندوستان کی ہٹ دھرمی کے بارے میں اقوام عالم کو تفصیل سے آگاہ کیا، وہیں اقوام متحدہ سے مطالبہ بھی کیا کہ منظور شدہ قرار دادوںپر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں منصفانہ رائے شماری کرائی جائے۔

اگر اقوام متحدہ، مشرقی تیمور اور سوڈان میں اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروا سکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں۔اس وقت دنیا میں مسئلہ کشمیر کے حل اور امن کے قیام سے متعلق پاکستان کی کوششوں کو سراہا جارہا ہے خاص طور پر چین،ترکی، او آئی سی اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سیل نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا ہے اور اب انڈیا پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیاء کا مستقبل مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے مشروط ہے لہٰذا جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس خطے میں امن کا قیام اور معاشی ترقی نہیں ہوسکے گی۔

دنیا میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی بڑھتی ہوئی حمایت سے ہندوستان کی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، بھارت نے کشمیر میں جاری حالیہ تشویشناک صورتحال سے اقوام عالم کی توجہ ہٹانے کیلئے اڑی واقعہ کا ڈرامہ رچایا اور اس کا الزام پاکستان پر لگا کر ہمارے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد ہندوستان میں سرجیکل سٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ کیا لیکن اس کا یہ جھوٹ بھی پکڑا گیا ۔

اس سے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں ہندوستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور ہندوستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے واضح اور جامع موقف کے باعث ، آزادی کشمیر کی تحریک اب دوسرے علاقوں میں بھی پھیل رہی ہے اور مختلف علاقوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جارہا ہے جو ہمارے موقف کی کامیابی ہے۔عمران خان کی جانب سے اچانک پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان کا اسلام آباد بند کرنے کا اعلان سیاسی دہشت گردی ہے ، انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سینیٹر شاہی سید
(رہنما عوامی نیشنل پارٹی )
وزیراعظم نے کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اپوزیشن کے مطالبے پر بلایا لہٰذا تمام اپوزیشن جماعتوں کو اجلاس میں شرکت کر کے اپنے اعتراضات کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ اجلاس میں اپوزیشن نے جن اعتراضات کا اظہار کیا ہے ،حکومت کو ان پر توجہ دینی چاہیے ۔

اس وقت ملک میں وزیرخارجہ نہیں ہے جس پر اپوزیشن نے خاصی تنقید کی ہے کیونکہ اچھی سفارتکاری کے لئے وزیر خارجہ ضروری ہوتاہے لہٰذا حکومت کو اپوزیشن کی تنقید کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے اپنی خامیوں کو دور کرناچاہیے ۔ کشمیر کمیٹی کے حوالے سے بات کریں تو اس کی کارکردگی صفر ہے۔اس کمیٹی کا فائدہ تو تب تھا کہ اس کے اجلاس منعقد ہوتے اور اب کمیٹی اس معاملے کو لیڈ کرتی، تمام جماعتوں کو بریفنگ دیتی۔

اگر یہ کمیٹی روز اجلاس بلاتی اور اس حوالے سے موثر کام کررہی ہوتی تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی جبکہ کشمیر کمیٹی کی سنجیدگی کا عالم تو یہ ہے کہ سال میں صرف دو اجلاس منعقد ہوتے ۔کشمیر کا مسئلہ کشمیر ی عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے ۔ سپرپاور امریکانے ہمیشہ اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ۔ہم اپنے سفارتی ذرائع کو کسی او رکے غلام نہ بناتے تو ہمیں اقوام متحدہ سمیت دنیا میں اہمیت ملتی ۔ دنیا خارجہ پارلیسی اپنے مفاد میں بناتی ہے جبکہ ہم دوسروں کے مفاد میں خارجہ پالیسی بناتے ہیں ۔

روس کی جنگ ہماری نہیں تھی مگر ہم اس کا حصہ بنے جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں ۔ہم لائن آف کنٹرول کے حوالے سے مودی کے بیان کی مذمت کرتے ہیں ،یہ غلط اور خطرناک ہے بلکہ یہ ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگی کا مسئلہ ہے ۔ پاکستان اور بھارت پہلے بھی دو جنگیں لڑچکے ہیں لہٰذا مسائل کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں ۔ بھارت اور پاکستان میں بڑا فرق یہ ہے کہ پاکستان انتہاپسندوں کو بھگا رہا ہے جبکہ بھارت نے انہیں اپنی پارلیمنٹ میں لا کر بٹھا دیا ہے ۔ مودی خود کہہ چکا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش توڑا اور وہ ان کا وزیراعظم ہے۔ امریکا نے مودی پر انتہا پسندی کی وجہ سے پابندی لگائی لیکن پھر اپنے مفادات کی خاطر پابندی ہٹا دی ۔ اگر ہمیں بھارت کو سخت جواب دینا ہے تو باتوں کی بجائے اپنے اداروں کو مضو ط کریں کیونکہ مضبوط ادارے ہی مضبو ط پاکستان کی ضمانت ہیں ۔

سینیٹر کریم ایم خواجہ
(رہنما پاکستان پیپلزپارٹی )
کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مقصد بھی پارلیمنٹ سے کشمیر کے معاملے پر مضبوط پیغام دینا ہے۔ہمیں آپس میں یکجہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ سی پیک پر اختلافات دور کرے ، صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرے اور بدگمانیاں ختم کرے۔ وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب اچھا تھا، گو کہ اس میں کچھ کمی تھی مگر پھر بھی سب نے اسے سراہا۔ تحریک انصاف کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اس سے دنیا میں اچھا پیغام نہیں گیا ۔

پارٹی میں مخالفت کے باوجود عمران خان نے یہ فیصلہ خود کیا ہے ۔ تحریک انصاف آل پارٹیز کانفرنس میں گئی اور شاہ محمود قریشی نے شرکت کی۔ سیکورٹی کے حوالے سے بلائی جانے والی کمیٹی کے اجلاس میں بھی تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ نے شرکت کی، اب انہیں پارلیمنٹ میں بھی آنا چاہیے تھا کیونکہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اپوزیشن کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س کے حوالے سے عمران خان نے جو جواز پیش کیا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آصف علی زرداری کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتے ہیں۔ مائنس ون کی باتیں ایسے لوگ کرتے ہیں جو گھبراہٹ کے شکار ہوتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے میدان میں آنے سے پی پی پی کے مخالفین کی نیندیں اڑ گئی ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں عوام کو نوجوان، باصلاحیت اور جمہوریت پسند قیادت مل گئی ہے اور اب ان عناصر کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں رہا جو چور دروازے اور انتخابات کے نتائج چوری کرکے اقتدار میں آتے رہے ۔ اس وقت پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہو چکا ہے۔ ہمیں اس تنہائی کوختم کرنے کے لئے سفارتکاری کو بہتربناتے ہوئے آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں وزیر خارجہ ہوناچاہیے جو بہتر انداز میں سفارتکاری کر سکے ۔

حافظ حسین احمد
(سیکرٹری جمعیت علمائے اسلام (ف))
مسئلہ کشمیر پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد اور ہم آہنگی کا مظاہرہ مثبت بات ہے لیکن اتحاد کیلئے کسی حملے کا انتظار کرنا آزاد قوموں کا شیوہ نہیں۔ کسی بھی ملک کا بیرونی دنیا سے تعلقات کی سمت کا تعین اس کی خارجہ پالیسی کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں خارجہ پالیسی تو دور کی بات یہاں تو وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وزیر خارجہ کا قلمدان اس شخص کے پاس ہے جسے عوام وزیر اعظم ماننے کیلئے تیار نہیںہیں۔ پارلیمنٹ کی اہمیت مسلم ہے لیکن پاکستان میں فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہوتے ہیں اور بعد میں پارلیمنٹ میں اس پر مہر ثبت کی جاتی ہے۔

جس طرح ہماری حکومت اور خارجہ پالیسی کا کچھ پتہ نہیں چلتا اسی طرح حیران کن بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن کی پوزیشن کا بھی کوئی پتا نہیں چلتا کہ اصل اپوزیشن کون ہے،خورشید شاہ ہے یا عمران خان۔ کشمیریوں کیلئے موجودہ دور مشکل ضرور ہے کیونکہ سرحد کے ایک طرٖف کا وزیر اعظم مودی ہے اور دوسری طرف کا وزیر اعظم موڈی ہے اور کشمیری مظلوم عوام مودی اور موڈی کے مابین پھنسی ہوئی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی انٹری سے عمران خان پریشان ہوں گے کیونکہ عمران خان کے پاس صرف بلا ہے اور بلاول کے نام میں ''بلا'' بھی ہے اور'' ول'' بھی ۔ عمران نے رائیونڈ میں کامیاب جلسہ کیا تاہم آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی بجائے نتھیا گلی چلے گئے ۔ پارلیمنٹ کو تسلیم نہ کرنے والوں کو چاہیے کہ صرف مسئلہ کشمیر پر بلائے گئے سیشن میں شرکت سے انکار نہ کریں بلکہ ہمیشہ کیلئے پارلیمنٹ میں نہ جانے کا فیصلہ کریں۔ کشمیر کے مسئلہ پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اور آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ہم دنیا اور اپنے دشمنوں کے سامنے متحد ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

آج تک ہم اپنے دوست اور دشمن کا تعین نہیں کرسکے ہیں ہم نے ماضی میں دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنائے رکھا جبکہ اس کے علاوہ ماضی میں کاروباری رقابتیں ہوتی تھی اور آج کل کاروباری رکاوٹین چل رہی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ کشمیری کو مذید لالی پاپ کے ذریعے نہیں بہلایا جا سکے گا ،اس وقت مسئلہ کشمیر نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور یہ کشمیری عوام کے پاس آخری موقع ہے۔

عائشہ سید
( رکن قومی اسمبلی و رہنما جماعت اسلامی)
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ حل طلب امور پر جاری مذاکراتی عمل کی راہ میں ہندوستان کی جانب سے رکاوٹ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں،معصوم اور مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور حالیہ دو ماہ کے دوران تشدد میں تیزی لانے سے متعلق کھل کر بات کی جس کو ہم سراہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وزیراعظم نے بلوچستان میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر کوئی ایک لفظ بھی نہیں بولا،بلوچستان سے گرفتار بھارت کے حاضر سروس آفیسر کل بھوشن یادیو کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیاحالانکہ ان امور سے متعلق وزیر اعظم کو اپنے خطاب میں تفصیل سے بات کرنی چاہیے تھی۔

ا ن باتوں کا تذکرہ نہ ہونا ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ہماری خارجہ پالیسی مضبوط ہوتی تو تیس سال کی خدمت اور میزبانی کرنے کے بعد افغانستان کسی اور کی گود میں جا کر نہ بیٹھتا اور بنگلہ میں یوں مسلمان رہنماؤں کو تسلسل کے ساتھ تختہ دار پر نہ چڑھایا جاتا۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں تو کیا ہے کہ آج دنیا کے ملکوں میں پاکستانی گرین پاسپورٹ 199 ممالک کی رینکنگ میں 198 نمبر پر ہے۔ہماری خارجہ پالیسیوں کی ناکامی کے باعث آج پاکستان کے آفیشل سرکاری پاسپورٹ پر دستیاب ویزا استثنیٰ 38 ممالک میں سے کم ہوکر28پر پہنچ چکا ہے اور دس ممالک نے ویزا استثنیٰ کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے۔

ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو موثر بنانا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت سے متعلق پیدا شدہ صورتحال کے بعد جس انداز میں آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا اس سے دنیا کو مثبت پیغام گیا تاہم جوائنٹ سیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی عدم شمولیت نے سوال کھڑا کردیا ہے۔ عمران خان کو جوائنٹ سیشن میں شرکت کرنی چاہیے تھی جبکہ حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ جوائنٹ سیشن میں صرف اور صرف مسئلہ کشمیر پر بھی بحث کرتے اور اس سیشن میں مسئلہ کشمیر بارے کوئی متفقہ فیصلہ اور قرار داد سامنے لاتے لیکن بدقسمتی سے اس سیشن کے دوران مختلف جماعتوں نے مسئلہ کشمیر کے بجائے بحث کو کسی اور طرف موڑنے کی کوشش کی۔

اس سیشن میں بلز لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ صرف اور صرف مسئلہ کشمیر پر بحث کو مرکوز کرتے۔ ہمیں یہ اقدام آج سے ایک دو ماہ پہلے کرنا چاہیے تھا ۔ جس انداز میں مسئلہ کشمیر پر سیاسی جماعتوں نے اتحاد کا اظہار کیا ہے اور اقوام عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے اس سلسلے کو اسی طرح برقرار رکھا جائے تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور عوام مسئلہ کشمیر پر ایک موقف رکھتے ہیں۔

بکشمیر پر ہمیشہ حکومتوں نے منافقت کی ہے۔ میثاق جمہوریت کے مطابق نومبر 2010میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی متنازعہ فہرست سے خارج ہو چکا ہے اور اس کے متعلق پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ (ن) نے عوام کو آگاہ نہیں کیا ۔

کشمیر کی تحریک 120دنوں سے چل رہی تھی ایل او سی تنازعہ بھی 20دنوں سے جاری تھا تو پھر تحریک انصاف کے 30ستمبر کے جلسے کے بعد اچانک حکومت کو سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنا کیسے یا د آگیا ۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں کلبھوشن کا مسئلہ نہیں اُٹھایا۔بنگلہ دیشن کے یوم آزادی کے موقع پر نریندر مودی نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کو ہم نے توڑا اور بنگلہ دیش کو آزادکرایا ۔پندرہ اگست کو پاکستان کے حوالے سے خرافات بکے تھے، ہمیں انہیں اجاگر کرنے کااچھا موقع ملاتھا۔فاٹا، بلوچستان میں دہشت گردی کے لئے جو ٹی ایس ٹی بنانے کا انکشاف ہوا تھا اس کو بھی اقوام متحدہ کے فورم پر اجاگر کیا جا سکتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم نے یہ تمام باتیں اجاگر کیں؟ سشما سوراج نے اقوام متحدہ میںانیس سالہ سکھ لڑکے کو مسلمان اور پاکستانی بنا کر پیش کردیا ۔پٹھان کوٹ حملہ اور اڑی واقع پاکستان پر تھونپ دیا لیکن ہمارے وزیراعظم کو نہ کوئٹہ کے شہداء یا د آئے ، نہ کلبھوشن یادیو ، نہ مودی کی تقریر اور نہ ہی مکتی بانی یاد آئی ۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے 36گھنٹے بعد وزیراعظم کامذمتی بیان آیا ا س سے پہلے اپوزیشن اور دنیا کے مسلمان ممالک کے سربراہان کا بیان آچکا تھا اس وقت وزیراعظم کہا ں تھے۔ جب کشمیر میں ظلم ہو رہا تھا ،نہتے کشمیریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا یا جا رہا تھا تو اس وقت وزیراعظم لندن میں شاپنگ کر رہے تھے ۔

تحریک انصاف نے تیس اکتوبر کو پاناما کی کال دی تو ان کی کرپشن خطر ے میں پڑگئی اور پھر حکومت کو مشترکہ اجلاس بھی یا د آگیا اور کشمیر میں ہونے والا ظلم وستم بھی ۔ جب حکومت خطرے میں ہوتی ہے تو پارلیمنٹ سر آنکھو ں پرہوتی ہے ۔ بنیادی طور پر نواز شریف کے یارمودی نے انہیں بچانے کے لئے اڑی واقع کرایا اور اب ایل او سی پر بھی کشیدگی پیدا کی ۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی دنیا کا کردار منفی ہے ۔ جس کی وجہ نااہل قیادت ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بانکی مون نے اپنی تقریر میں کشمیر کا نام لینا بھی گوارا نہیں کیا۔یہ نواز شریف کی ناکامی ہے ۔ ہم مختلف فورمز پر فوج اور حکومت سے ایل او سی اور کشمیر کے حوالے سے اظہار یکجہتی کر چکے ہیں ۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 448 کے ایوان میں صرف 68ارکان موجود تھے۔اسمبلی کے اندر جس طرح حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کی عزتیں اچھا لیں اس کو پوری قوم نے دیکھا ۔کشمیر کے معاملے پر بلائے گئے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم سے لے کر خورشید شاہ سمیت کوئی بھی مضبوط بات نہیں کر سکا ۔آج پوری قوم تسلیم کرتی ہے کہ مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا عمران خان کا فیصلہ درست تھا۔ وزیراعظم اور ان کی 90 فیصد کابینہ اجلاس میں موجود نہیں تھی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔