جانوروں کی آنکھیں
پاکستان کے ہربڑے شہرمیں جانوروں کے عقوبت خانے موجودہیں
ISLAMABAD:
پاکستان کے ہربڑے شہرمیں جانوروں کے عقوبت خانے موجودہیں۔چندپنجروں اورعمارتوں کے ملغوبہ کو چڑیا گھرکانام دیاجاتاہے۔ویسے تویہ پوراملک ہی ایک پنجرہ ہے جس میں پیداہونا یا نہ ہوناکسی کے اپنے اختیار میں نہیں۔مگر ان چڑیاگھروں کی زبوں حالی کے متعلق عرض کرناچاہتاہوں جوکراچی سے لے کراسلام آباد تک پھیلے ہوئے ہیں۔درجن کے لگ بھگ جانوروں کے قیدخانے بین الاقوامی معیارپرپورے نہیں اترتے۔ پرندوں اورمقید جانوروں کی حفاظت اورخوراک کے حوالے سے اورنہ ہی آنے والے لوگوں کے لیے سہولیات کے حوالے سے۔ سفاری پارکس کی فہرست اس کے علاوہ ہے۔میں پاکستان قوم کودونمبرقوم قطعاًنہیں کہتا۔اس لیے کہ بقول منیرنیازی، دونمبر تو اصل کے بہت نزدیک ہوتا ہے۔طالبعلم کی دانست میں یہ کوئی تیرہ یاپندرہ نمبری لوگوں کامجموعہ ہے۔یہ قوم جانوروںاورپرندوں کی کیاحفاظت کریگی۔ان سے کیساسلوک کریگی۔اس پرکچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔
بچوں بلکہ بڑوں کے لیے بھی چڑیاگھرایک تفریح ہے۔ دنیاکی زندہ قومیں اس کی اہمیت سے واقف ہیں لہذا اپنے چڑیاگھروں کے لیے کثیرسرمایہ اوربہترین لوگ وقف کرتے ہیں۔چڑیاگھرکے عملے کے علاوہ سیکڑوں تعلیم یافتہ مرد اور خواتین بغیرمعاوضہ کے بے زبانوں کی خدمت کوعبادت کا درجہ دیتے ہیں۔امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا،فرانس بلکہ ہر مغربی ملک کے طول وعرض میں بے مثال چڑیاگھر تعمیرکیے گئے ہیں۔ان میں سیاح گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔جانوروں کوغورسے دیکھتے ہیں۔ان کی عادات اور حرکتوں کے متعلق کتابچے پڑھتے میں مصروف نظر آتے ہیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی جانوریاپرندے کو زچ نہیں کرتے،پریشان کرکے قہقہے نہیں لگاتے۔سیاحوں کے علاوہ درجنوں سائنسدان تحقیق میں مصروف نظرآتے ہیں۔
دنیامیں جانوروں کوایک خاص طریقے سے قیدمیں رکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ 1752ء میں ویانامیںفرانسس اول کی حکومت تھی۔محل کے باہرایک خوبصورت عمارت تھی جس میں بادشاہ اور ملکہ ناشتہ کیاکرتے تھے۔فرانسس کی اہلیہ ماریاتھیرسیاکے ذہن میں آیاکہ عمارت کے اردگرد دنیا کے خوبصورت ترین جانور موجودہونے چاہیے۔یہ کام ایڈرین نام کے ایک ذہین شخص کے ذمے لگایاگیا۔ایڈرین کو اندازہ تھا کہ ویانامیں اسی جگہ پر1540ء سے چھوٹے چھوٹے پنجرے موجود تھے۔ ایڈرین نے ملکہ کے ساتھ ملکر کاغذ پر ایک کیک کی تصویر بنائی۔پھراسے تیرہ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ تیرہ ٹکڑے انتہائی خوبصورت دیدہ زیب اور قیمتی پنجرے تھے۔پورے یورپ سے جانوراکھٹے کیے گئے اور اس طرح دنیامیں پہلی مرتبہ چڑیاگھرکی ابتدا ہوئی۔ یہ تفریح صرف اورصرف بادشاہ اور اس کے خاندان کے لیے تھی۔ عوام کے دروازے اس خوبصورت جگہ کے لیے بند تھے۔
دوسو برس کے بعد1979ء میں بادشاہ کے حکم پر یہ پوراعلاقہ عوام کے لیے کھول دیاگیا۔چڑیاگھرمیں داخل ہونے کی کوئی فیس نہیں تھی۔1882ء میںجوزف دوم بادشاہ کوسائنسدانوں نے بتایاکہ آسٹریاسے باہرافریقہ اورامریکا میں مختلف قسم کے جانورپائے جاتے ہیں۔شہنشاہ کے حکم پرماہرترین لوگ بحری جہازوں پردنیاکے مختلف علاقوں میں بھیجے گئے۔ اسی برس افریقہ سے زرافہ کاایک جوڑا ویانا لایا گیا۔ لوگوں کے لیے وہ اتنے محیرالعقول جانورتھے ، دیکھنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ویانااس زمانہ میں سیاحت اورفیشن کا مرکز تھا۔
ساتھ ساتھ اس کے اوپیراپوری دنیامیں مشہورتھے۔ ہمارے ملک میں کیونکہ Opera کاکوئی نام ونشان نہیں ہے،اس لیے اس کی صوتی خوبصورتی اور اعلیٰ پن کاادراک قدرے ناممکن ہے۔خیر ویانا میں کپڑے اور ڈیزائن تک تبدیل ہوگئے۔ زرافہ کی کھال کے اوپر جو دھاریاں تھیں، تاجروں نے ان دھاریوں پرمبنی ملبوسات بنانے شروع کردیے، یہ اس وقت کے قیمتی ترین لباس شمارکیے جاتے تھے۔شہرہ آفاق ڈرامہ نگاراوڈلف بیورے (Adolf Bauerie)نے اپنا مشہور ڈرامہ"Girrafes in Viana"بنایاجوسال ہاسال چلتا رہا۔آسٹریاکایہ چڑیا گھر دنیاکاقدیم ترین زوہے اوریہ آج بھی موجود ہے۔تمام دنیامیںچڑیاگھربنانے کارواج ویانا سے لیا گیا۔ اس کے بعدیورپ کے ہربڑے اورچھوٹے ملک میں اس کی نقل کی گئی۔ہمارے لیے اس میں سمجھنے کی ایک رمز ہے۔ جانوروں اورپرندوں کے ان قیدخانوں کوانکے لیے عقوبت خانہ نہیں بننے دیاگیا۔یہاں عمومی طورپرسائنسدان تعینات کیے جاتے تھے۔یہ مختلف جانوروں پرہمہ وقت تحقیق میں مشغول رہتے تھے۔
لندن کے چڑیاگھرچلے جائیے۔یہ اپنی جگہ ایک مکمل دنیاہے۔روزانہ ہزاروں کی تعدادمیں سیاح یہاں تفریح اورتحقیق کے لیے آتے ہیں۔اس کی ساری ذمے داری نجی شعبہ کے سپردکی گئی ہے۔لندن کایہ چڑیاگھر1828ء میں بنایاگیااور آج تک لوگوں کے لیے ایک عظیم تفریح کاذریعہ ہے۔لوگ جانوروں کی حفاظت اوربہتری کے لیے کھلے دل سے عطیات فراہم کرتے ہیں۔اس جگہ پرسترہ ہزار پرندے اور جانور موجودہیں۔پوری دنیاسے نایاب ترین جانوروں کو اولاد جیسی حفاظت کے ساتھ رکھاگیا ہے۔ مغرب کے اندرایک مضبوط رجحان موجودہے۔امیرلوگ اپنی جائیدادکوہماری طرح صرف اپنی اولادکے لیے وقف نہیں کرتے۔بلکہ اپنی دولت کاخاص حصہ کسی نیک کام کے لیے مختص کردیتے ہیں۔
متعدد امیرلوگوں نے جانوروں کی حفاظت اورکفالت کے لیے کروڑوں ڈالریعنی ہمارے حساب سے اربوں روپیہ مختص کردیاہے۔ہمارے ملک میں اس قسم کارواج نہ ہونے کے برابرہے۔یہاں اکثرسماجی تنظیمیں اورکارکن اپنے نام کی سربلندی کے لیے پروپیگنڈا اور ادنیٰ طریقوں کاسہارالیتے ہیں۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ عام لوگ انھیں قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مگرنزدیک سے جانچنے کاموقع ملے، تو صرف اورصرف ذاتی منفعت اورچھپ کرامیرہونے کا جذبہ نظرآئیگا۔
انواح کے لحاظ سے دنیاکاسب سے بڑاچڑیا گھر لندن میں ہے۔اس میںجانوروں کی پندرہ سونسلیں محفوظ کی گئی ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں لاہورکے چڑیا گھر میں جانوروں کی صرف136نسلیں موجود ہیں۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگاکہ لاہورکاچڑیاگھردراصل ایک ہندو تاجرلال مہندرا رام کاعطیہ ہے۔ مہندرا کو جانوروں سے عشق تھا۔جذباتی حدتک ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔یہ صرف ڈیڑھ سوسال پہلے کی بات ہے، 1872ء میں اس شخص نے اپنے تمام قیمتی جانورلاہورمیونسپل کارپوریشن کے حوالے کر دیے۔تمام جانوراس تاجرنے اپنی گرہ سے خریدے تھے۔ مگر اس نے یہ سب کچھ مفت لاہورکے سرکاری ادارے کے حوالے کردیا۔شائدلاہورکے چڑیا گھر کے کسی کونے کھدرے میں اس بڑے انسان کی کوئی تصویریاتختی لگی ہو۔ مجسمہ ہونے کاتوخیرسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آج یہ مقامی تفریح جس نیک انسان کے توسط سے ہم تک پہنچی۔ ہمیں اس کو یاد رکھنا چاہیے۔ اس کو یاد رکھنا بھی ایک نیکی ہے۔مگرہم نے سارے ثواب صرف اور صرف اپنے لیے مختص کردیے ہیں۔بھلاکافروں کا نیکی اورثواب سے کیاکام؟
افریقہ میں جانوروں کولوگوں کی تفریح کے لیے ہزاروں ایکڑکے جنگلات میں محفوظ کیا گیا ہے۔ امیر تاجروں نے کینیا،ساؤتھ افریقہ،زمبابوے اوردیگرافریقی ممالک میں وسیع جنگلات اورزمینیں خریدی ہیں۔ان میں سیاحوں کے لیے جدیدترین ہوٹل اورسہولیات مہیاکی ہیں۔ ان قطعات میں تمام جانورآزادی سے زندگی گزاررہے ہیں۔قدرت کے حیاتیاتی ماحول کوبھی بالکل نہیں چھیڑا گیا۔سیاح ہزاروں ڈالر خرچ کرکے ان علاقوں میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں۔
بندگاڑیوں میں گائیڈز کے ہمراہ پورے علاقوں کو دیکھا جاتا ہے۔لوگ کیمروں کے ساتھ جانوروں کی تصاویر بناتے ہیں۔گاڑی سے باہر نکلنے پرپابندی ہوتی ہے۔ جنگل میں کوئی بھی پکی سڑک نہیں بنائی جاتی۔جس پگڈنڈی پر جانور آتے جاتے رہتے ہیں، اس پرجیپیں انتہائی سست رفتاری سے چلائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی جانور جیسے شیر،ہاتھی یا چیتا سامنے آجائے توگاڑی کو خاموشی سے روک دیا جاتا ہے۔ جانورکے گزرنے کاحق اول تسلیم کیا گیا ہے۔تمام سیاح خاموشی سے قدرت کے ان خوبصورت شاہکاروں کودیکھتے رہتے ہیں۔اکثر تو کیمرے اورموبائل فون سے اس لمحہ کو یادگاربناڈالتے ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں جذباتیت سے لبریزچیختی ہوئی خبروں کاراج ہو۔جہاں ہروقت دھرنے،جلوس،تالہ بندی بلکہ شہربربادکرنے کی دھمکیاں عروج پرہوں۔جہاں ٹرینوں میں بم رکھ کرمسافروں کومچھرکی طرح مارنے کی خبریں عام سی نظرآتی ہوں۔جہاں ہرشخص دوسرے کودھوکا دیکرصرف اورصرف مال کمانے کے داؤپرہو۔وہاں کمزور فریقوں کی بات کرناعبث سامحسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں توخیرانسان بھی جانورکی سطح پرزندہ رہنے پرمجبورہیں اور انھیںوعدیوعیدکاعادی بھکاری بنادیا گیا۔ یہاں جانوروں اورپرندوں کے حقوق کی بات کرنابیوقوفی گردانی جاسکتی ہے۔مگرمیں یہ بیوقوفی کرنے پرمُصرہوں۔
افسوس یہ ہے کہ ہم لوگ شعورکی جس کم ترسطح پرہیں اس میں چڑیاگھروں کی ابتری ہمارے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔اکثرلوگ سرکاری عمال سے ملکرآج بھی ہرن اوربرفانی چیتے جیسے نایاب جانوروں کاشکارکرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کے ساتھ شاندارتصویریں بنواتے ہیں۔ان کی کھالیں گھروں میں نمائش کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ جانوروں اورپرندوں کی حفاظت کاہمارے ملک میں بہت کم ادراک ہے۔ہم تومعصوم چڑیوں کو مار کر کھا جاتے ہیں۔جس ملک میں انسانوں کی کسی قسم کی قدر نہیں،وہاں جانوروں اور پرندوں کی حفاظت کون کریگا۔ خستہ حال چڑیاگھروں میں قید جانوروں کی آنکھوں کو غورسے دیکھیے۔آپ کووہاں مظلومیت ابتری اوربے بسی کے مصائب نظرآئینگے۔