سی پیک تحفظات پر چین کا سخت ردعمل
پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے ایک جانب بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے
KARACHI:
پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے ایک جانب بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے تو دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے تفصیلات کی عدم فراہمی نے ایک بار پھر اس تاریخی منصوبے پر پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو سر اٹھانے کا موقع دے دیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل چاروں صوبائی حکومتوں نے وفاق کی جانب سے دی جانے والی مختلف بریفنگز کے بعد اس منصوبے میں ملنے والے حصے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا ۔عمران خان سمیت صوبائی وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت بھی خاموش ہو گئی تھی اب اگلے دن وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ نے پھر سے یہ معاملہ تازہ کر دیا اور کہا گیا کہ چینی سفیر کی جانب سے اقتصادی راہداری منصوبے میں مغربی روٹ نہ ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔
اس خبر کی اشاعت نے پھر سے خیبر پختون خوا کے عوام کو تذبذب میں مبتلا کر دیا، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی پانسہ پلٹا اور وفاقی حکومت کی جانب سے مبینہ غلط بیانی پر دوبارہ عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔دوسری طرف قوم پرست راہ نما ڈاکٹر سید عالم محسود کی جانب سے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور سے متعلق وضاحتیں درست ثابت ہو نے کا اشارہ بھی ملا جن کے بقول انھوںنے ہر فورم پر سی پیک سے متعلق عوام کو حقائق سے آگاہ کیا اور بتایا کہ سی پیک میں کوئی مغربی روٹ شامل نہیں ہے۔
اگر چند ماہ پہلے کے حالات پر غور کیا جائے تو سی پیک پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دیا تھا نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ خود عمران خان نے بھی پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو وفاقی حکومت نے یقین دلایا کہ مغربی روٹ سی پیک کا حصہ ہے اورصوبے کے لیے کئی منصوبے اس راہداری میں شامل ہیں، وفاق کی یقین دہانی کے بعد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے خاموشی اختیار کر لی تھی اس دوران بعض غیر سرکاری تنظیمیں اور قوم پرست راہ نماؤں خاص طور پر کوریڈور فرنٹ نامی تنظیم نے اپنا احتجاج جاری رکھا نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ بلوچستان میں احتجاجی جلسے کیے گئے اور جلوس نکالے گئے۔
حالیہ سرکاری اعلامیہ کے مطابق چینی سفیر نے صوبائی حکومت کی جانب سے لکھے جانے والے خط کے جواب میں وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا کہ اقتصادی راہ داری منصوبے میں مغربی نہیں بلکہ مشرقی روٹ شامل ہے۔اس انکشاف نے صوبائی حکومت کو پھر سے وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور کر دیا ۔وفاقی حکومت کی یقین دہانی کے بعد صوبائی حکومت نے تھاکوٹ حویلیاں روٹ پر سیکشن فور لگانے اور زمین خریدنے کے احکامات بھی جاری کر دیے تھے جب کہ مولانا فضل الرحمان اور اکرم درانی نے یقین دلایا تھا کہ جنوبی اضلاع بھی سی پیک کاحصہ ہوں گے لیکن ایسا دکھائی دیا کہ چینی سفیر کی وضاحت کے بعد یہ دونوں راہ نما بھی مشکل میں پھنس گئے ،دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے واضح کر دیا کہ وزیر اعظم نے ان کے ساتھ سی پیک کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ وفا نہیں ہوئے۔
جس کے باعث انھوں نے پہلے ہی احتجاج کا اعلان کر دیا تھا اور اس سلسلے میں جلسہ بھی کر ڈالا۔قومی وطن پارٹی بھی سی پیک میں مغربی روٹ کی حمایتی ہے اور اس کا مؤقف بھی بڑا واضح ہے کہ مغربی روٹ ہونا چاہیے تاہم چینی سفیر کے بیان نے صوبے میں ہلچل مچا دی۔یہ خبریں بھی آئیں کہ خیبر پختون خوا کے علاوہ گلگت بلتستان جہاں چالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، سی پیک میں ایک ڈالر بھی گلگت بلتستان کے لیے نہیں رکھا گیا جس کے بعد وہاں بھی پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے نہ صرف عوامی رابطہ مہم شروع کرنے بلکہ ایک بار پھر سیاسی پارٹیوں سے مشاورت اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔جب مغربی روٹ نہ ہونے کی خبریں سامنے آئیں تو چینی سفارت خانہ بھی اپنا وضاحتی بیان جاری کرنے میں پیچھے نہیں رہا جس میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی راہداری میں بلوچستان اورخیبر پختون خوا کو نظر انداز نہیں کیا گیا اور یہ تاثر کہ یہ منصوبہ پاک چین نہیں بلکہ پنجاب چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے یکسر غلط ہے۔سفارت خانے کی جانب سے یہ بیان بلاشبہ چینی حکومت کی جانب سے سخت ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے۔چینی سفارت خانے کے ڈپٹی ایمبیسیڈر ژاؤلی جیان نے اپنے بیان میں عوامی نیشنل پارٹی کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ ان کی جانب سے منصوبے پر تنقید قابل مذمت ہے اور یہ کہ اس اقتصادی راہداری کے مختلف منصوبوں پر اکیاون ارب پچاس کروڑ ڈالرز کی رقم خرچ کی جائے گی ۔
(یہ بھی پہلی بار پتہ چلا کہ نہ تو یہ منصوبہ 46 ارب ڈالرز کا ہے اور نہ ہی 50 ارب ڈالرز کا بلکہ اب چین کی حکومت نے درست اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق اخراجات کا تخمینہ51 ارب50 کروڑ ڈالرز ہے) ۔چینی سفارت خانے کے وضاحتی بیان میں مختلف منصوبوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے مطابق بلوچستان میں16 ،خیبر پختون خوا میں8، سندھ میں13 اور پنجاب میں 12 منصوبے شامل ہیں۔چینی سفارت خانے کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری سارے پاکستان کے لیے ہے اور اس سے سارے ملک کو فائدہ ہو گا جب کہ چین نے یہ کبھی نہیں کہا کہ منصوبے میں مغربی روٹ نہیں ہے۔
یہ تو تھی پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت قوم پرست راہ نماؤں کی جانب سے منصوبے کے بارے میں تحفظات اور پاکستان میں چینی سفارت خانے کے ڈپٹی ایمبیسیڈر کی وضاحت کی تفصیل جسے اب بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت سے لوگ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔البتہ وہ لوگ جو پاکستان کو معاشی و اقتصادی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ان کے خیال میں اس وقت کے تحفظات کا اس لیے کوئی فائدہ نہیں، وہ کام جو دشمن کر رہے ہیں اگر اپنے بھی وہی کریں تو اس کا فائدہ بلاشبہ دشمن کو ہی جائے گا۔
وفاقی حکومت کو بھی ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے اس منصوبے کی تفصیلات ملک و قوم کے بہتر مفاد میں سامنے لانا چاہئیں اور اگر کوئی صوبہ چاہتا ہے کہ اسے زیادہ فائدہ ملے تو اسے صوبے کی نہیں بلکہ ملک کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے فائدہ صوبے کے عوام کو پہنچے تو بھلا پاکستان کا ہی ہو گا۔یہ بھی یقین دلایا جا سکتا ہے کہ جوں جوں اس اقتصادی راہداری پر کام آگے بڑھے گا خود بخود کئی منصوبے شروع ہو جائیں گے مثال کے طور پر اگر سڑک بن جائے ،ریل گاڑی خنجراب تک چلنا شروع ہو جائے تو جہاں جہاں سے ٹرین کی پٹڑی گزرے گی وہاں کے حالات خود سے بہتر ہو جائیںگے یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ افغانستان اور ایران بھی اس سی پیک کا حصہ بن جائیں تو طورخم اور تفتان تک کے علاقوں کی قسمت سنور جائے گی۔موجودہ حالات میں اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اتحاد و اتفاق اور یگانگت کی ضرورت ہے۔اخباری بیانات سے صوبوں اور وفاق کو احتیاط برتنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ یہ منصوبہ کہیں ہم ہاتھ سے کھو نہ دیں۔