علاج معالجہ
ایک دوست ڈاکٹر جس محبت اور توجہ کے ساتھ مریض کو دیکھتا ہے اور اس کا علاج تجویز کرتا ہے
TEHRAN:
عمر کے یہ دن جو زیادہ احتیاط طلب تھے میں ان دنوں کی صحت و عافیت اور کارکردگی سے بے نیاز اور متاثر ہو کر میں نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا۔ نہ کھانے پینے میں احتیاط سے کام لیا اور نہ دن رات کے ضروری آرام کی پروا کی نتیجہ یہ نکلا کہ میں کسی وقت اچانک گڑ بڑانے لگا۔
کبھی پیٹ خراب تو کبھی کمزور جسم کا کوئی دوسرا حصہ اپنی یاد دلانے لگا اور مجھے مجبوراً احتیاط کرنی پڑی بلکہ بعض اوقات تو مریض بھی ہو گیا جس پر میرے جسم شناس دوست ڈاکٹروں نے جلد ہی قابو پا لیا اور اس طرح میں معمول کے مطابق بھلا چنگا ہو گیا اور کام کرنے لگا البتہ ایک پرانے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اب تم ذرا محتاط رہا کرو کام جتنا کر سکو کرتے رہو مگر کھانے پینے اور روز مرہ کے معمولات کو ذرا باقاعدہ کر لو جو ایک عام زندگی میں بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہ ذاتی بات میں اس لیے نقل کر رہا ہوں کہ میرے اس تجربہ کار ڈاکٹر کا مشورہ عام ہو جائے اور میرے قارئین جو میری تحریروں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں حوصلہ پکڑ لیں۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر نے ایک بار گپ شپ میں کہا کہ ڈاکٹر کا ماہر ہونا اپنی جگہ بہت ضروری لیکن اس کا دوست ہونا بھی ضروری ہے۔
ایک دوست ڈاکٹر جس محبت اور توجہ کے ساتھ مریض کو دیکھتا ہے اور اس کا علاج تجویز کرتا ہے عام ڈاکٹر ایسا نہیں کر سکتا۔ میرے اس مہربان ڈاکٹر کے ذہن میں شاید مریضوں کا وہ ہجوم تھا جو اس کے مطب دکھائی دیتا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ کوئی بھی ڈاکٹر ایسے ہجوم کے امراض کو سنبھال نہیں سکتا۔ وہ ہر مریض کو ایک ایک کر کے دیکھتا ضرور ہے لیکن اس کی پوری توجہ کسی ایک مریض پر ہی مرکوز نہیں رہ سکتی اسے سب مریضوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے جو وہ تمام مریضوں کا ایک ایک کر کے رکھتا ہے۔
ڈاکٹر سب سے پہلے تو مریض کے جاری علاج کو دیکھتا ہے اور پھر وہ آگے چلتا ہے اور کوئی بھی ڈاکٹر اس انسان سے لاپروائی نہیں کر سکتا جو بیمار بن کر اس کے پاس آتا ہے اور اس کے سامنے اپنا سراپا بیان کر دیتا ہے۔ میں نے ایسے ڈاکٹر بھی دیکھے ہیں جو کسی مریض کی بیماری پر مضطرب ہو کر اس کے گھریلو معاملات کا حال سن کر پریشان ہو جاتا ہے۔ ہم مسلمانوں کی روایات کے مطابق تو ایک مریض حکیم اور معالج کی ذاتی ذمے داری بن جاتا ہے۔
دلی میں مریض اس قدر زیادہ جمع ہو جاتے کہ مسیح الملک حکیم اجمل خان بھی ان دور دراز سے آنے والے بیماروں پر پوری توجہ نہیں دے سکتے تھے اور اپنا پورا وقت مریضوں کے لیے وقف کر دیتے تھے حتیٰ کہ ان کی تفریح کا جو وقت ہوتا تھا وہ بھی ان مریضوں کی نذر ہو جاتا تھا۔ ہر شام کے وقت لوگ مریضوں کے بستر گھر سے باہر گلی میں رکھ دیتے تھے اور حکیم صاحب اپنی یہ تفریحی شام بھی ان مریضوں کی خدمت میں وقف کر دیتے تھے چنانچہ وہ اپنی سواری سے اتر کر یہ مریض دیکھتے چلے جاتے تھے اور علاج تجویز کرتے جاتے تھے گویا حکیم صاحب کے دن رات مریضوں کی خدمت میں گزر جاتے اور یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ حکیم صاحب کوئی فیس نہیں لیتے تھے بلکہ اس زمانے میں مسلمان طبیبوں کے ہاں مریض سے فیس لینے کا کوئی تصور بھی نہ تھا سب کچھ اس اجر کے لیے کیا جاتا تھا جو طبیب کو کسی مریض کی دعا اور علاج سے ملتا تھا۔
مسلمانوں کے ہاں خدمت خلق کا فرض ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا تھا اور اس پر عمل ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ آجکل جب میں مسلمان معالجوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر رحم آتا ہے کہ خدا نے ان کو جس علم سے نوازا ہے اور خدمت خلق کا جو موقع دیا ہے وہ اسے ضایع کر رہے ہیں۔ اب تو مریض سے فیس کا تصور کسی معالج کا ایک فرض سا بن جاتا ہے لیکن اس میں بعض صورتیں مختلف بھی ہوتی ہیں۔ ایک مریض خاتون سے ڈاکٹر نے جب فیس طلب کی تو اس نے کہا کہ بھائی آپ تو میرے علاقے کے ہیں اور میں اس امید پر آپ کے پاس آئی تھی کہ آپ مجھ سے فیس طلب نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ میری ماں کے کنگن اور اس کی دن رات کی محنت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اپنی ماں کی محنت کا کچھ تو حق ادا کر سکوں جو اس نے میری مہنگی تعلیم پر خرچ کیا ہے۔
میری ماں نے اپنے زیور بیچ کر میری فیس ادا کی اور دن رات محنت کر کے میرا دوسرا خرچ پورا کیا، میں ایک خوشحال طالب علم بن کر تعلیم حاصل کرتا رہا اور اس کی تمام تر توجہ میری ماں تھی۔ آج میں اس کی فیس نہ لوں تو کیا کروں لیکن یہ ڈاکٹر فیس لیتا تھا تو مجبور ہو کر، اس کا مطب مریضوں کے ہجوم سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور وہ مستحق مریضوں کی خدمت بھی کر دیتا تھا مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود وہ خوشحال مریضوں سے فیس بھی لیتا تھا اور بعض اوقات تو ایسے امیر مریضوں کو بعض مریضوں کے علاج کی ذمے داری بھی دے دیتا تھا جو وہ ان مریضوں کی اجازت سے مستحق مریضوں کو دے دیتا تھا۔ اور عرض کر دوں کہ ان دنوں دوائیں اس قدر مہنگی کر دی گئی ہیں کہ جدید طب کا علاج آسان نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے۔