اصلی مساوات

ہم برصغیر کے مسلمان ان دنوں اپنے جذبات کے عروج سے ان شخصیتوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


Abdul Qadir Hassan October 12, 2016
[email protected]

ہم برصغیر کے مسلمان ان دنوں اپنے جذبات کے عروج سے ان شخصیتوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہر رشتے اور اعتبار سے ہمارے لیے بے حد مقدس اور محترم ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی انسان آنحضرت ﷺ کا نواسہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاریخ میں اور مستند تاریخ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کا جو ذکر ملتا ہے مورخ اس کو نقل کرتے ہوئے کانپ جاتا ہے کہ وہ کیسے کسی کو حضور پاک ﷺ کی اولاد میں سے کسی رشتے سے یاد کرے۔ ابھی میں کل پرسوں ہی کسی جگہ پڑھ رہا تھا کہ کسی خوشحال صحابی نے حضور پاکؐ کی دعوت کی اور جب کھانے کی پلیٹ حضور کے سامنے آئی تو انھوں نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ کوئی جائے اور اسے فاطمہ کے گھر پہنچا دے جس نے تین یا زیادہ دن سے کھانا نہیں کھایا اور بھوکی ہے۔

یہ حضور اپنی اس بیٹی کا ذکر فرما رہے تھے جو انھیں غیر معمولی حد تک پیاری تھی۔ اس مستند واقعے سے کئی باتیں سامنے آئیں کہ ہمارے یہ غیر معمولی حد تک بڑے آدمی زندگی کس عسرت کے ساتھ بسر کرتے تھے۔ بس زندہ رہتے تھے اور سانس لینے کے لیے کھاتے پیتے تھے اپنے اس معاشرے کا احترام کرتے تھے جس میں وہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ کسی بھی فرد سے بڑھ کر آسودگی حاصل نہیں کرتے تھے اور معاشرے میں کسی کو بھی اپنے سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ اگر خاتون جنت کے ماتھے پر پانی کی مشک اٹھاتے اٹھاتے داغ پڑ جاتے تھے تو حضور پاک نہ جانے کس دل سے بیٹی کو صبر کی تلقین فرماتے تھے۔

حضور پاک کے لیے ان کی امت کی ہر بیٹی ان کی بیٹی تھی۔ آپﷺ کے لیے ان میں تفریق ممکن نہ تھی۔ یہ وہ مساواتی معاشرہ تھا جس نے انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم کی تھی اور ہر فرد اس معاشرے کا محترم اور مساوات کا حامل فرد تھا۔ اسی حالت کو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھایا اور آج کے یورپ کے لیے بھی اپنے نام سے ایک نمونہ بن گیا۔

مسلمان پہلے وہ ایسے مسلمان تھے جس کا تصور رسول پاکؐ کی زندگی میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ کچھ اور تھے اور ایسے باعمل اور اسلامی جذبات سے سرشار لوگ تھے کہ دنیا آج تک ان کے حالات پڑھ سن کر حیرت زندہ ہو جاتی ہے آج کے انسانوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی ایک انسان ہر دوسرے انسان کے برابر بھی ہو سکتا ہے اور دنیا کو اس مساوات کو دکھا سکتا ہے۔

انھی مسلمانوں نے اسلام کے تصور مساوات کو مستحکم کیا تھا اور اس قدر مستحکم کہ وہ اپنی دنیا اور تاریخ کے لیے ایک مثال بن گیا تھا۔ بات یوں ہے کہ مسلمان وہی تھے جو وہ کہتے تھے۔ ان کا کہا ان کی زندگی کے مطابق تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ حیران رہ گئی کہ کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو وہی کرتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اور یہ کوئی افسانے نہیں ہیں تاریخی حقیقت ہیں۔ ان مسلمانوں نے اپنی زندگیوں کو تاریخ بنا دیا تھا اور وہ تاریخ کا ایک نمونہ بن کر زندہ رہے اور دنیا کے سامنے پیش ہوئے۔

مسلمانوں کی مساوات کے بعد کمیونزم نے بھی انسانی معاشرے میں مساوات قائم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ یہ مساوات مکمل نہ کر سکے۔ اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے کوشش ضرور کی کہ اس آئیڈیل تک پہنچ سکیں لیکن انسانوں کے اندر ان کی پسند و نا پسند پر قابو نہ پا سکے اور لوگ حرص و ہوس کے شکار ہو گئے۔ یہ ایک انسانی مجبوری تھی لیکن اس پر قابو پانے کے لیے جس اندرونی جذبے اور ایثار کی ضرورت تھی وہ کسی قانونی مساوات سے قائم نہیں ہو سکتا تھا اس کے لیے دلوں کے مساواتی جذبے کی ضرورت تھی جو مسلمانوں نے پیدا کر دیا تھا۔

قانون تو بظاہر مساوات قائم کر سکتا ہے لیکن معاشرے میں مساواتی جذبہ قائم نہیں کر سکتا۔ آپ حکومت کی طرف سے ہر شہری کو برابر کی مراعات دے سکتے ہیں لیکن ان گوناگوں مراعات کو مساوات کی صورت میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ عام شہریوں کو اچھا کھانا پینا اور رہنا سہنا دینے کے لیے آپ ایسے حالات پیدا کر دیں کہ شہری ان حالات کی مدد سے بہت کچھ حاصل کر سکیں لیکن ایک بات آپ یاد رکھیں کہ ایک مسلمان ریاست کے شہری جو کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ہو سکتا ہے وہ سب ایک جیسا نہ ہو۔

اس میں عدم مساوات موجود ہو اس کے معیار میں اور اس کی دوسری خوبیوں میں۔ سب سے بہترین صورت یہی ہے کہ انسانوں کو وسائل دیے جائیں اور انھیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ ان وسائل کو اپنی پسند کے مطابق استعمال کریں۔ مساوات صرف ان وسائل کے معیار اور ان کی حیثیت میں ہونی چاہیے۔ اس سے آگے شہریوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور ان کی یہی پسند و نا پسند ہے جس کو لوگ پسند و نا پسند کرتے ہیں اور اسی میں وہ تنوع ملتا ہے جس کی بازار میں ہر ایک کو تلاش رہتی ہے۔ ایک آزاد معاشرے کا مطلب یہی ہے کہ ہر فرد آزاد زندگی بسر کر سکے کسی پابندی کے بغیر۔

اگر کسی ریاست کو دعویٰ ہے کہ اس کا معاشرہ آزاد ہے تو اس کا معیار یہی ہے کہ اس کے معاشرے کے ہر فرد کو اس کی پسند نا پسند کی کتنی آزادی ہے اور ریاست اس میں اس کی کتنی مدد کرتی ہے۔ ریاست کو وہاں دخل دینا چاہیے جہاں کسی فرد پر معاشرہ اس کی پسند کے خلاف کوئی پابندی نافذ کرنے کی کوشش کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں