بھوک
بھوک ایک ایسی کیفیت ہے جوانسان کومکمل طور پر تبدیل کردیتی ہے
بھوک ایک ایسی کیفیت ہے جوانسان کومکمل طور پر تبدیل کردیتی ہے۔غذاکی قلت یاعدم دستیابی انسان کو کھڑے کھڑے جانورمیں بدل سکتی ہے۔ایک ایسا جانور جسکاکوئی ملک،عقیدہ اور مذہب نہیں ہوتا۔یہ ایک ایسی جبلت ہے جسکے سامنے سب بشربے بس ہیں۔ اگر لوگوں کودووقت کی روٹی نصیب نہ ہو،توکوئی وعظ، تلقین یانصیحت کام نہیں آسکتی۔
یہاں ایک ایساطبقہ ہے جسکاپیٹ بھرتاہی نہیں۔ ایک دوسرا بدقسمت طبقہ بھی ہے جونانِ جویں کومسلسل ترستا ہے۔ یہیں سے دہشتگردی،نفرت اورپُرتشددخیالات کاوہ طوفان اُٹھتاہے جسے روکنا کم ازکم ہمارے جیسے ملکوں کے لیے انتہائی مشکل ہے۔2016ء میں ایک قدآوربین الاقوامی ادارے نے گلوبل ہنگرانڈکس(Global Hunger Index) شایع کیاہے۔جو کسی بھی حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ مگر کبھی بھی مقتدرطبقے کی وقت پر آنکھیں نہیں کھلتیں۔
راگ درباری اس درجہ طاقتورہے دنیا میں ترقی پذیرممالک گہری نیندسوئے ہوئے ہیں بلکہ بیہوشی کے عالم میں ہیں۔برصغیرمیں حالات توصدیوں سے بدتر سے بدترین ہوتے رہے ہیں۔اگرآپ ریاستی بادشاہوں اورراجواڑوں کے حکمرانوں کے حالات پڑھیں اورتجزیہ کریں تورونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں بائیس فیصدآبادی غذائی قلت کاشکارہے۔
بائیس فیصد کا مطلب تقریباًچارسے پانچ کروڑلوگ ہیں۔کسی افریقی ملک کا ذکر نہیں کررہا۔ہمارے ملک میں رپورٹ کے مطابق تقریباً پانچ کروڑلو گ رات کوبھوکے سوتے ہیں۔ شائدانھیں کبھی کبھی پیٹ بھرکرکھانانصیب ہوتا ہے۔ جس ریاست میں کروڑوں لوگ بے بسی کی زندگی گزررہے ہوں،وہاں بلند اخلاقی قدروں کی باتیں کرناانتہائی نامناسب بات ہے۔
گلوبل ہنگرانڈکس میں ایک سواٹھارہ ملکوں کاتجزیہ کیاگیاہے۔اس میں ایک طرف صفرکاہندسہ ہے یعنی ایک ایسی صورتحال جس میں کوئی بھی انسان روٹی سے محروم نہ ہو۔ پورے اسکیل کوپانچ حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ صفرسے دس تک وہ خوش نصیب ممالک ہیں جہاں بھوکے لوگوں تعدادنہ ہونے کے برابرہے یابہت کم ہے۔دس سے بیس تک درمیانی سطح کے ممالک آجاتے ہیں۔بیس سے پنتیس تک جوممالک موجودہیں ان میں غذائی قلت "سنجیدہ" ہے۔
پنتیس سے پچاس تک کے نمبروں میں موجود ریاستوں کی صورتحال"نازک"ہے اورپچاس سے اوپر والے بدنصیب ملک قحط میں زندگی گزاررہے ہیں۔ وہاں کھانانہ ملنے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مرجاتے ہیں۔پورااسکیل صفرسے سونمبروں تک ہے۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں آتاہے جہاں غذاکی عدم دستیابی کی صورتحال سنجیدہ ہے۔ہماراملکی اسکور 33.4 کا ہے ۔کیایہ المیہ نہیں کہ دنیا کی ایک ایٹمی ریاست اپنے لوگوں کودووقت کاکھاناتک مہیا نہیں کرسکتی۔
بھوک کے انڈکس کے بنیادی طورپرچاراہم جزو ہیں۔سب سے پہلاحصہ غذاکے کم ملنے کاہے یعنی Undernourishmentاہے۔کسی بھی ملک میں مجموعی طورپران لوگوں کو شمار کیا جاتاہے جنھیں بھرپور غذائیت مہیا نہیں ہے۔دوسراجزویاحصہ بچوں کے کم وزن کاہے اسے Child Wastingکانام دیاگیاہے۔اس میں پانچ برس سے کم عمران بچوں کاتجزیہ کیا جاتا ہے جنکے قداوروزن میں تفریق ہو۔یعنی غذاکی قلت کی وجہ سے وہ اپنے معمول کے وزن تک نہیں پہنچ پائے۔
تیسرا جزو Child Stunting کا ہے۔یعنی پانچ برس کی عمرسے کم بچے جنکے قدان کی عمرکے حساب سے کم ہیں۔جیسے پانچ سال کے ایک بچے کاجونارمل قدہوناچاہیے مناسب غذانہ ہونے کی بدولت اسکاقدکم رہ گیاہے۔چوتھاحصہChild Mortalityکاہے جس میں بچے غذاکی کمیابی اور غیرصحت مندانہ ماحول کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ اپنی طبعی عمرتک پہنچ ہی نہیں سکتے۔یہ وہ چراغ ہیں جواپنی روشنی کے سائے میں مستقل اندھیروں کی نظر ہوجاتے ہیں۔دیکھاجائے تویہ ایک طرح کا ریاستی قتل ہے۔ مگریہاں کون پرواہ کریگا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میںپانچ برس سے کم عمرکے آٹھ فیصدبچے بھوک کی وجہ سے فوت ہوجاتے ہیں۔یہ تعدادہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ ذرا اس گھرکی اندرونی کیفیت دیکھیے جہاں بھوک سے کم عمر بچے اس سفرپرروانہ ہوجاتے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔تکلیف دہ اَمریہ ہے کہ یہ زندہ رہ سکتے تھے۔
اگر ان بچوں کومناسب غذاملتی تویہ آج بھی سانس لے رہے ہوتے پر نہیںیہ لاکھوں ننھے منے پھول بہاردیکھ ہی نہ پائے۔ان کی موت کی ذمے داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ نہ ریاست اورنہ ہی معاشرہ۔جبہ دستارسے مزین ہمارے مذہبی علماء نے بھی کبھی اسکاذکرنہیں کیا۔ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کوبھی اس درجہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس نکتہ کوکسی سنجیدہ جگہ پرزیرِبحث لائیں۔ ہاں، تقاریر،مباحثہ اورمناظروں کاکوئی شمار و قطار نہیں۔ بے مقصداوربے معنی گفتگوسے کسی غریب بچہ کو موت کے منہ سے نہیں نکالا جاسکتا۔
رپورٹ میں پاکستان کے متعلق چارٹ اور اعداد دیے گئے ہیں۔آبادی کاوہ حصہ جسکومناسب غذانھیں ملتی، اس کی عکاسی گراف کی طرزپرکی گئی ہے۔قابل شرم بات یہ ہے کہ2000ء میں یہ شرح 22.4 فیصد تھی۔ 2008ء میں یہ شرح22.2ہوگئی اور2016ء میں یہ 22 فیصد ہے۔یعنی سولہ سال کے طویل عرصے میں ہم ایک فیصدآبادی کوبھی اس قلت سے نجات نہیں دلواسکے۔
یہ ایک بین الاقوامی غیرسیاسی ادارے کی مستندرپورٹ ہے۔ پاکستان میں کسی نے اسے چیلنج نہیں کیا۔میراگمان ہے کہ شائدکسی نے پڑھا ہی نہیں ہوگا۔کسی کوکیافکرکہ سولہ سال میں ایک زرعی ملک کچھ نہیں کرپایا۔سولہ برس ضایع ہوگئے۔مگرکون اس کی ذمے داری لیگا۔کم وزن بچوں کی صورتحال بھی تقریباًیہی ہے۔ 2000ء میں یہ تعداد 14.2فیصدتھی۔
2008ء میں یہ کم ہوکر12.6رہ گئی اور موجودہ برس یہ 10.5 فیصد ہے۔ سولہ برس میں ہم صرف ساڑھے تین فیصدبچوں کواتنا کھانا دے پائے ہیں کہ یہ شرح14.2سے کم ہوکر 10.5 ہو چکی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شاندار کامیابی ہے مگرسنجیدگی سے دیکھاجائے توہمارے ہمسایہ ممالک نے یہ شرح بے انتہاکم کردی ہے۔ہندوستان کاذکرنہیں کرناچاہتا۔ مگر ہمارے ہی ملک کے سابقہ حصے بنگلہ دیش نے اس انڈکس میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ دنیا میں پاکستان 107 نمبر پر ہے اوربنگلہ دیش 90 پر ہے۔
آپ آگے چلیے۔پانچ برس کی عمرتک کے بچوں کا قدانھیں ملنے والی غذاکے تناسب سے ہوتے ہیں۔یعنی اگر کھاناکم ملے گاتوبچوں کاقدکم رہ جائیگا۔سن2000ء میں یہ تعداد41فیصدتھی۔2008ء میں یہ کم ہوکر40فیصدرہ گئی۔2016ء میں ان بدقسمت بچوں کی تعداد 45 فیصد ہوچکی ہے۔لمحہ فکریہ توہے ہی مگریہ ایک شرم کامقام ہے۔ یعنی ہمارے بچوں کے قدتیزی سے کم ہورہے ہیں۔
اگر پنتالیس فیصدبچے کم قدکے ہونگے توہماری پوری آبادی کے کروڑوں لوگ اپنے قدرتی قدسے محروم ہو جائیں گے بلکہ ہوچکے ہیں۔خوداندازہ فرمائیے۔کیایہ بچے بڑے ہوکر بین الاقوامی معیارکے کھلاڑی بن سکتے ہیں۔تمام کھیل جن میں انسانی قدکی اہمیت ہوتی ہے۔ہم عملی طورپران کے نزدیک بھی نہیں جاتے۔باسکٹ بال، سوکر، تیراکی، فٹبال اور دیگر کھیل ہمارے لیے اجنبی ہوتے جارہے ہیں۔ لازم ہے جب اس جسامت کے بچے نہیں ہونگے توبین لاقوامی سطح پر ہم کیا اور کیونکرمقابلہ کرپائینگے۔
دیگرممالک کاجائزہ لینابھی ضروری ہے۔ہم افغانستان،نائیجراورسیرالیون کے نزدیک ممالک میں ہیں۔ افغانستان کے 34نمبر ہیں اور نائجیریا 33.7فیصد پر فائز ہے۔ہم33.4فیصدپرہیں۔یعنی فرق بالکل معمولی سا ہے۔ایک فیصدسے بھی کم۔کیایہ صورتحال مناسب ہے۔ ٹھیک ہے۔درست ہے،اسکافیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ دل اس بات پردکھتاہے کہ ہم کیوں اتناپیچھے رہ چکے ہیں۔ کیاوجہ ہے کہ ہم کسی قسم کی ترقی کی شاہراہ پرگامزن نہیں ہوپائے۔
اس پوری صورتحال کاایک عجیب سا پہلو اوربھی ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ہمیں مسلسل بتایا جاتا ہے کہ ہم گندم میں خودکفیل ہوچکے ہیں۔ ہم چاول برامد کرنے والے اہم ترین ممالک کی فہرست میں ہیں۔ اگریہ سب کچھ ایساہی ہے جیسے بتایاجاتاہے توہماری بائیس فیصد آبادی دووقت کی روٹی سے کیوں محروم ہے۔کیاان کے پاس مالی وسائل نہیں کہ کھانے پینے کی اجناس خرید سکیں۔
کیا ریاستی سطح پرغذاکی بنیادی قلت جیسے نکتہ کواتنااہم نہیں سمجھا گیاکہ ان کروڑوں انسانوں کوباعزت کھانا مہیا کیا جاسکے۔ کیا روزگارکی کمی ہے یاتعلیم کے کم ہونے کی وجہ سے روزگاربہت کم ہوچکا ہے۔ کیا صنعت کے پہیہ کا آہستہ آہستہ چلنابائیس فیصدآبادی کی بھوک کی اصل وجہ ہے۔یا سب کچھ مل جل کرایک ایساعذاب بن چکاہے جسکی آگ میں کرورڑوں لوگ روزجل رہے ہیں۔نہ مرتے ہیں اور نہ زندوں میں ہیں۔
عالم برزخ میں رہنے والے یہ کروڑوں بھوکے لوگ کس کی ذمے داری ہیں اس پرسب خاموش ہیں۔ خاموشی اتنی شدیدہے کہ کان پڑی آوازسنائی نہیں دیتی۔جس گھرمیں بچے رات کوبھوکے سوتے ہیں ان پرکیا گزرتی ہوگی۔یہ صرف اورصرف وہ معصوم ہی جانتے ہیں۔ سوچیے اگرکسی دن کروڑوں بھوکے لوگوں نے اپنے حصے کا کھاناچھین لیاتو پھر کیا ہوگا۔ ہوسکتاہے وہ وقت قریب ہو۔