بینک کی اے ٹی ایم سے جعلی نوٹ نکل آیا

ہم پیسے ڈالتے ہیں، کنٹرول وتمام فنکشن اے ٹی ایم چلانے والی کمپنی کا ذمہ ہے، بینک حکام


Shahbaz Anwer Khan December 13, 2012
جعلی کرنسی کا لین دین جرم ہے، ثبوت ملنے پر کارروائی ہوگی، ترجمان اسٹیٹ بینک فوٹو: فائل

کمرشل بینکوں کی اے ٹی ایمز سے پیسے نکلوانے والے شہری خبردار ہوجائیں کہ انہیں اس مشین کے ذریعے ملنے والے کرنسی نوٹ جعلی بھی ہوسکتے ہیں۔

اب تک لاہور سمیت ملک بھر میں جعلی کرنسی نوٹوں کے گردش کیے جانے کی شکایات عام تھیں لیکن اب بینکوں کی اے ٹی ایم سے بھی ملنے والے نوٹوں کے جعلی ہونے کاانکشاف ہوا ہے، جب سے بینکوں میں آن لائن سسٹم شروع ہوا ہے اے ٹی ایم کے استعمال کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے، اب تک یہی گمان کیا جاتا رہا تھا کہ بینکوں کی طرف سے کم از کم جعلی نوٹ جاری نہیں کیے جاتے، یہ کام جعل سازوں کے گروہ کرتے ہیں اور کھلی مارکیٹ میں لین دین کے دوران اس قسم کی وارداتیں ہوتی ہیں لیکن ملک کے معروف نجی بینکوں کی اے ٹی ایم سے پیسے نکلواتے وقت جعلی نوٹ جاری کر دیا گیا۔

اے ٹی ایم کو کوئی فرد واحد، جعل ساز گروہ یا کوئی مافیا کنٹرول نہیں کرتا یہ براہ راست بینک انتظامیہ اور اے ٹی ایم کمپنی کے زیر کنٹرول ہوتا ہے اور عام صارف عمومی طورپر اے ٹی ایم سے پیسے نکلواتے وقت مطمئن ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی جعل سازی نہیں کی جائے گی اور وہ اسی اعتماد کے ساتھ پیسے نکلوانے کے بعد نہ تو گنتے ہیں اور نہ ہی ان کی پڑتال کرتے ہیں کہ کہیں ان میں کوئی جعلی نوٹ تو نہیں ہے لیکن مذکورہ انکشاف کے بعد اب اے ٹی ایم پر بھی لوگوں کا اعتبار جاتا رہے گا۔

5

اس ضمن میں بینک حکام کاکہنا ہے کہ اے ٹی ایم میں ہم صرف پیسے ڈالتے ہیں اسے کنٹرول کرنا اور اس کا تمام فنکشن اے ٹی ایم چلانے والی کمپنی کے ذمے ہے جس کی سروسز بینک لیتے ہیں اور اس کے عوض اس کمپنی کو معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ بینک حکام کا یہ بھی کہنا تھاکہ بینک کا کوئی ملازم یا آفیسر اے ٹی ایم کیلیے رکھے جانے والے نوٹوں میں جعلی نوٹ نہیں ڈال سکتا۔اے ٹی ایم کے ذریعے ہونے والی تمام ٹرانزیکشن بشمول مشین سے نکلوائی جانے والی رقوم، نوٹوں کی مالیت، تاریخ، وقت اور مقام سمیت مکمل ریکارڈ محفوظ ہوتا رہتا ہے۔

اس کے علاوہ کیمرے بھی نصب ہوتے ہیں جن کی آنکھ میں سارا منظر محفوظ ہوتاجاتا ہے، اس لیے اس امر کاامکان نہیں ہوتا کہ بینک جعلی کرنسی نوٹ اپنی برانچ میں نصب کسی بھی اے ٹی ایم میں رکھے، یہ بینک کی ساکھ کا معاملہ ہے جس پر کوئی بھی بینک سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان وسیم الدین نے رابطہ کرنے پر ''ایکسپریس ''کو بتایا کہ جعلی کرنسی نوٹ کا لین دین قانونی طورپر سنگین جرم ہے جس پر بینک قوانین کے تحت سخت انضباطی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، اگر کسی برانچ میں سے کوئی جعلی نوٹ جاری ہوا ہے تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے جس پر کارروائی کی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔