زندگی شہر اور گاؤں میں
انسانی محبت اور رابطوں کا تماشا دیکھنا ہو تو کوئی گاؤں میں بیمار پڑ جائے
انسانی محبت اور رابطوں کا تماشا دیکھنا ہو تو کوئی گاؤں میں بیمار پڑ جائے۔ بیماری اور بیمار جائے بھاڑ میں، اصل کام بیمار پرسی ہے جو گاؤں میں اس قدر اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا فلاں کی بیمار پرسی کر لی، ایسے ہی جیسے فاتحہ خوانی۔ بیمار پرسی انسانی تعلق کی ایک گہری علامت سمجھی جاتی ہے۔
دیہات میں جب کوئی بیمار پڑ جاتا ہے تو وہ کسی حد تک بے کسی کا شکار بھی ہو جاتا ہے کیونکہ دیہات میں اچھے حکیم ڈاکٹر کہاں جو آپ کا علاج کتنا بھی کر سکیں تسلی دے سکیں اور صرف تسلی بھی کسی شفا سے کم نہیں۔ میں نے کئی بیمار دیکھے جو کسی معروف معالج سے ملاقات کے بعد صحت یاب ہونے شروع ہو گئے اور بالآخر صحت مند ہو گئے۔
گاؤں میں جب پوچھا گیا کہ کس کا علاج کرایا تو جواب ملا کہ فلاں صاحب آئے تھے اور مہربانی کر کے دوا بھی لکھ کر دے گئے اور دعا بھی کر گئے چنانچہ اس دوا اور دعا دونوں نے صحت عطا کر دی اور زندگی پھر سے شروع ہو گئی۔ دیہات میں بعض اوقات زندگی تبھی ہوتی ہے جب آپ چلتے پھرتے ہوں اور کسی کام کے ہوں۔ اگر آپ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو گئے کہ معمول کے کام کاج کے نہ رہے تو گویا آپ زندگی کے کام کاج کے بھی نہیں رہے۔
ایک زمانہ تھا جب دیہات میں کام کاج ذرا کم اور آرام زیادہ ہوتا تھا مثلاً کسی موسم کی فصل کاشت کر لی اور پھر اسے خدا کے فضل وکرم پر چھوڑ دیا جس کا موسم اس فصل پر مہربانی کرے گا۔ دیہات کے کاشتکار اگرچہ کبھی سستی نہیں کرتے اور وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے کہ قدرت کا موسم ان کی مرضی کے مطابق بدلتا نہیں ہے۔ ایک کاشتکار کی نظریں آسمان پر رہتی ہیں جس پر گھومتے اور سیر سپاٹا کرتے ہوئے بادل اس کی روزی کا سامان رکھتے ہیں۔ وہ برستے ہیں تو زمین جاگتی ہے اور اس میں پڑا ہوا بیج جاگ اٹھتا ہے۔
یہی بیج ایک کاشتکار کی امید ہوتا ہے اور اسی امید کے بر آنے پر وہ زندگی کا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ عجیب معاملہ ہے کہ قدرت نے زمین اپنے کاشتکار بندے کے سپرد کر دی ہے لیکن اس زمین کی زندگی اپنے آسمان کے سپرد کی ہے۔ آسمان کی مہربانی کہ وہ چاہے تو زمین کو زندہ رکھے اور نامہربان ہو تو اسے جیتے جی مار دے۔ زمین اور آسمان کے درمیان کئی رشتے ہیں اور زمین کی زندگی دور آسمان کی مہربانی ہے۔
اگر آسمان مہربان ہو تو زمین بھی زندہ رہتی ہے۔ آسمان سے برسنے والی بارش زمین کی زندگی کا پانی ہوتی ہے اور اسی پانی پر وہ زندہ رہتی ہے ورنہ وہ ایک صحرا ہے جس میں کچھ بھی نہیں، زیادہ سے زیادہ ریت ہے جس میں اگر کہیں سبزے کا کوئی ٹکڑا سامنے آ جائے تو چرواہے اس پر پل پڑتے ہیں اور ان کے مویشی تھوڑا سا وقت اس کے سہارے گزار لیتے ہیں لیکن اگر اسی صحرا پر پانی کا چھینٹا بھی کہیں پڑ جائے تو بتایا جاتا ہے کہ اس کی زرخیزی کا عام زمین مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ نئے نئے رنگ دکھاتی ہے۔
بہرکیف زندگی اسی کا نام ہے یعنی پانی بھی زندگی کی ایک بہت بڑی علامت ہے۔ وہ دریاؤں اور ندی نالوں میں بہہ رہا ہو تو ایک نعمت جو اپنی روانی میں سے زندگی پھیلاتی جاتی ہے اور اس کا یہ فیض نہ جانے کہاں کہاں تک پھیل جاتا ہے جس کے سہارے انسان زندہ رہتے ہیں اور ان کے مال مویشی بھی۔ غرض پوری زمین اسی سے زندہ رہتی ہے۔
پانی اور ہوا ہی ہماری زندگی ہیں۔ اسی آب وہوا میں ہم زندہ ہیں اور قدرت نے ہمیں زندگی کے یہ ذریعے مفت عطا کر دیے ہیں جن کا کوئی معاوضہ دیے بغیر ہم عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ میں جب گاؤں جاتا ہوں اور ابھی کل پرسوں گاؤں سے لوٹا ہوں تو وہاں میں نے اپنی یادداشتیں تازہ کیں۔ زندگی سے معمور یادیں جن پر ہم گاؤں کے لوگ زندگی سر کرتے ہیں اور انھیں یاد کر کے اپنی وقتی مشکل کو بھول جاتے ہیں جو کسی ایسی ہی نعمت سے واپس آ جاتی ہے اور قدرت اس میں سے ہم لوگوں کا رزق پیدا کر دیتی ہے۔
ایک کاشتکار نہ جانے کتنی امیدوں کے ساتھ اپنی خشک زمین کو زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ زندگی کہیں اور آسمانوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے جو قدرت کے کسی اشارے کی منتظر ہوتی ہے۔ جب کبھی اوپر کا اشارہ ہوتا ہے تو آسمان بادلوں سے آباد ہونے لگ جاتا ہے اور جب وقت آتا ہے تو یہ بادل پانی بن کر نیچے گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے اندر پانی کا بوجھ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے بند کھول دیتے ہیں۔ پانی نیچے برسنا شروع ہو جاتا ہے۔
ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے تاآنکہ کاشتکار کے گودام اناج سے بھر جاتے ہیں، وہ اس خوشی میں دھلے ہوئے کپڑے پہن لیتا ہے اور اپنے جوانوں پر کڑی نظر رکھتا ہے کہ وہ اناج سے بھرے گوداموں سے مدہوش ہو کر جوانی نہ دکھا دیں اور پرانے بدلے نہ اتارنے شروع کر دیں۔
برطانوی دور کے سرد گرم چشیدہ تھانیدار کسی بڑی واردات کے پیچھے دیکھتے تھے کہ جس گھر کے جوانوں نے یہ واردات کی ہے ان کی اس سال کی فصل کیسی رہی ہے۔ کسی گھر کی اچھی فصل اس گھر کے جوانوں کو نئی جوانی دے دیتی تھی۔ بس یونہی زندگی چلتی تھی اور اب بھی کسی حد تک زندگی اسی اچھی پیداوار پر گزر بسر کرتی ہے۔