انسانوں کو نہیں کیڑوں کو مارنا ہے
غذائی قلت، عدم علاج اور کیڑوں کی بھرمار سے اس کرۂ ارض پر روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں
غذائی قلت، عدم علاج اور کیڑوں کی بھرمار سے اس کرۂ ارض پر روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کی غذائی اجناس اور لہلہاتے کھیتوں کو چٹ کر جانے سے سالانہ ایک ارب عوام کی غذا کم پڑجاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں اتنی پیداوار ہوتی ہے کہ ساڑھے سات ارب نہیں بلکہ 10 ارب عوام کو کھلا کر بھی غذا کو بچایا جاسکتا ہے، لیکن اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی خاطر ملٹی نیشنل کمپنیاں ان کی ذخیرہ اندوزی کرتی ہیں۔ اس دنیا میں اسلحہ سازی اور بارود کی ذخیرہ اندوزی پر کھربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں، جس سے لوگوں کو بچایا نہیں بلکہ مارا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں 5 کروڑ انسان جان سے جاتے رہے۔ عالمی معیشت کو حملہ آور کیڑوں سے ہر سال 77 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔
ان میں دیمک سب سے زیادہ نقصان دہ ہے، جب کہ ٹڈی دل، بگ، سنڈیاں، پتنگے و دیگر کیڑے بھی انتہائی مہلک ہیں۔ نیچرل کمیونیکیشنز نامی جرنل میں چھپنے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ انتہائی کم ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ دنیا کے ایک چھوٹے حصے کا احاطہ کرتا ہے۔ موسمی تبدیلی رواں صدی کے وسط تک اس 20 فیصد متاثرہ علاقے کو مزید بڑھا دے گی۔ مذکورہ تحقیق میں محقق نے اشیا، خدمات، صحت عامہ اور زرعی پیداوار پر غیر مقامی اجسام کے اثرات پر کی گئیں 700 سے زیادہ سائنسی اسٹڈیز کا جائزہ لیا۔ تحقیقی رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر تحقیقات شمالی امریکا اور یورپ میں کی گئی تھیں۔ جس کا مطلب ہے کہ فصلیں کھانے اور بیماریاں لانے والے ان کیڑوں کی تباہ کاریاں درست طرح نہیں جانچی گئیں۔
سب سے تباہ کن کیڑا دیمک کی ایک قسم فارموسان ہے جو بڑی تعداد میں ایک ساتھ رہتی ہیں اور لکڑی کی مصنوعات اور درختوں کا صفایا کردیتی ہیں۔ یہ دیمک امریکا کے بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کو ختم کرنا ناممکن ہوگیا ہے، جب کہ بحرالکاہل کے خطے سے دنیا بھر میں پھیلنے والی ٹڈی دل بھی انتہائی مہلک ہے، جو پھول گوبھی، بند گوبھی اور اسی خاندان کی دیگر فصلوں کو کھا جاتی ہے، اسی طرح خاص طور پر کینیڈا میں موجودہ سبز درختوں کو کھانے والی لانگ ہونڈ بیٹل، پتنگے، سنڈیاں اور دیگر کیڑے بھی مہلک ہیں۔
فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے محققین کے عملے کا کہنا ہے کہ کیڑے جانوروں میں سے انسانی معاشرے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں، حملہ آور کیڑوں کی وجہ سے عالمی سطح پر صحت کے اخراجات 6 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ جس میں بڑا کردار ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والا ڈینگی بخار ہے۔ محققین کے عملے کے سربراہ فرینک کور چیمپ کے مطابق حملہ آور کیڑے درجہ حرارت کی رکاوٹوں کے باعث مخصوص علاقوں تک محدود ہیں، تاہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں یہ ایسے علاقوں میں بھی حملے کرنے کے قابل ہوجائیں گے جو اب تک ان کے لیے موافق نہیں ہیں۔
دنیا میں کیڑوں کی 25 لاکھ اقسام ہیں، جن میں سے انتہائی کم یعنی صرف 2200 نئے علاقوں میں منتقل ہوئی ہیں، مگر یہ اقسام جہاں گئیں وہاں تباہی مچا دی۔ یہ کیڑے فی الوقت بین الاقوامی تجارت کے ذریعے دنیا میں پھیل رہے ہیں، تاہم ان سے نمٹنے کا بہترین راستہ کیڑے مار ادویات ہیں نہ جینیاتی تبدیلیاں، بلکہ بہترین حل بائیو سیکیورٹی ہے، جس میں بحری جہازوں اور فضائی کارگو کی معائنہ کاری، ہائی رسک درآمدات کی لازمی ٹریٹمنٹ کے لیے قانون سازی اور نئے علاقوں میں ان کا پھیلاؤ فوری روکنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کیڑے سالانہ عالمی زرعی پیداوار کا 30 سے 40 فیصد کھا جاتے ہیں جو ایک ارب عوام کی خوراک کی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں سے سالانہ لاکھوں لوگ مر جاتے ہیں۔
اسی طرح سے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے لوگ مرتے رہتے ہیں۔ چین میں دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے لوگ مرتے ہیں۔ وہاں کوئلے سے زیادہ بجلی پیدا کی جاتی ہے، تقریباً 10 لاکھ آدمی ہر سال فضائی آلودگی سے مر جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اب کوئلے کا استعمال شروع ہوچکا ہے۔ پورٹ قاسم پر درآمدی کوئلے کو اندرون ملک بھجوانے کے لیے دو برتھیں بننے کو ہیں لیکن اس منصوبے پر ماہرین ماحولیات اور شہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، جن کی فیکٹریاں براہ راست اس آلودگی سے متاثر ہوں گی وہ بھی اس منصوبے کو روکنے کے خواہاں ہیں۔
بدترین ماحولیات، انتہائی کرپشن، پسماندہ انفرا اسٹرکچر، بڑھتی ہوئی غربت، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی، بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبنے کے باوجود آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کا ذیلی ادارہ (تحقیقی اور اشاعتی) ''ایمرجنگ مارکیٹس'' نے پاکستان کو جنوبی ایشیا کا بہترین انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ ملک قرار دیا۔
اس سلسلے میں ایوارڈ دینے کی تقریب واشنگٹن میں ہوئی، جہاں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے ایوارڈ وصول کیا۔ ادارے کی جانب سے ایوارڈ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ توانائی اور ٹرانسپورٹ منصوبوں میں سرمایہ کاری پر دیا گیا۔ یہ ایوارڈ 2016 کے لیے جنوبی ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ قرار دیتے ہوئے انھیں ایوارڈ سے نوازا۔ ادارے نے پاکستانی معیشت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ''یہاں کی معیشت روز بروز بہتر ہو رہی ہے، ادارے نے مزید کہا کہ حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔'' اس ایوارڈ سے عالمی سامراجی اداروں کی جانب داری اور مذموم مقاصد کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ اس سے قبل بھی ایسے ایوارڈ اور تعریفیں سامراجی ادارے کرچکے ہیں۔
پہلی بار جب ن لیگ حکومت نے نجکاری کی تھی تو امریکی صدر نے بیان دیا تھا کہ ایشیا میں سب سے بہتر اور بروقت پاکستانی حکومت نے نجکاری کرکے معیشت کو بہتری کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ برما کی ڈیموکریٹک لیگ کی خاتون رہنما کو نوبل انعام دیا گیا۔ پھر جب برما میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام اور دربدر کیا گیا تو نوبل انعام یافتہ خاتون اونگ سام سوچی خاموش رہیں۔ حال ہی میں کولمبیا میں طے پانے والے امن معاہدے میں شریک فریقین نے امن معاہدہ کیا۔ ایک جانب کولمبیا کی سامراج نواز فوجی حکومت اور دوسری جانب کمیونسٹ باغی گوریلا۔ نوبل انعام سامراج نواز حکومت کے صدر کو دیا گیا۔
اسی طرح پاکستان کی توانائی اور انفرااسٹرکچر کے بارے میں اور اسحاق ڈار کے بارے میں سب کو پتا ہے، اس بات پر مجھے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور سری لنکا وغیرہ سے پاکستانی معیشت زیادہ ترقی کی جانب گامزن ہے، تبھی تو پاکستان جنوبی ایشیا کا بہترین انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ ملک قرار پایا۔ جو ملک بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے زیادہ قرضہ لے گا اور سود ادا کرے گا اسی کو انعام ملے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلی بار جب پاکستان کو امریکی امداد ملی تو اونٹ گاڑی پر ''تھینک یو امریکا'' کی تختی لگا کر کراچی کے شہر بھر میں اس گاڑی کو گھمایا گیا تھا۔ لہٰذا بلکتی ہوئی عوام کے مسائل کا واحد حل سامراجی سرمایہ کی ضبطگی اور ایک غیرطبقاتی معاشرہ یعنی امداد باہمی کا آزاد معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔