صرف تعلیم
ٹیکسی سروسز کا جو رجحان ہمارے شہروں میں آیا ہے تو یقین جانیے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈرائیوری کر رہے ہیں
وہ شعبہ جس پر ہمیں ہنگامی حالات میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے بے شک وہ شعبہ تعلیم ہے، جس کو ہم نے گھاس پھوس سمجھ کر ایک سائیڈ میں کردیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان تمام بڑوں کے اپنے بچے باہر کے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہ لوگ بڑے فخر سے یہ بات بتاتے بھی ہیں، مگر اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے لیے تعلیم کا معیار پچھلے برسوں سے بھی پست ہوتا جا رہا ہے۔
بے انتہا افسوس کا مقام ہے یہ کہ تعلیم کا بجٹ جوکہ نہ ہونے کے برابر ہے اس کو بھی مزید کم کردیا جائے۔ قوم کو برباد کرنے کا یہ آسان طریقہ ہے کہ ان کو تعلیم سے دور کردیا جائے اور ایسا ہی ہمارے اردگرد ہو رہا ہے۔ موجودہ صدی میں جہاں دنیا سمٹ کر فنگرز ٹپس پر آگئی ہے۔
ان جدید برسوں میں ٹوٹی ہوئی چھت، اسکول کے اندر طویلے، باتھ رومز غائب، بیٹھنے کے لیے زمین، نہ استاد، نہ پینے کا پانی، یہ ہے اسکول کی حالت۔ پرائیویٹ اور جدید اسکول ہر ایک کے بس کا روگ نہیں، لاکھوں روپے ایڈمیشن فیس، ہزاروں روپے مہینے کی فیس، ٹیوشن الگ، نہ کوالیفائیڈ اساتذہ، نہ ہی تعلیم کا معیار، نہ کوئی پوچھنے والا، نہ کوئی سمجھنے والا، بس چلے جاؤ لوٹے جاؤ، کھاتے جاؤ، وہ تعلیم جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ تعلیم عبادت کا دوسرا نام ہے آج وہی تعلیم تجارت کا دوسرا نام ہے۔
اگر آپ ایک اچھا بزنس قائم کرنا چاہتے ہیں تو اسکول کھولنے کا بزنس اعلیٰ ہے۔ کمائی بھی شاندار۔ ہم کس القاب سے آج کے حکمرانوں کو یاد کریں گے اور ان کا انجام کس طرح کا ہوگا کہ پوری قوم تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی ہے، مورل ویلیوز ختم، تعلیم و تربیت ختم، بس قوم کا، ہمارے بچوں کا ایسا ستیاناس کیا جا رہا ہے کہ اللہ ہی سے صرف امید ہے، اللہ جانے ہم پر یہ عذاب کب تک رہے گا۔
میری ایک دوست اپنے بیٹے کو اسکول میں داخل کروانے گئیں، اسکول اس کے گھر سے نزدیک ہی تھا، ڈیڑھ لاکھ ایڈمیشن فیس اور ہزاروں روپے ماہانہ فیس، وہ بھی 3 مہینوں کی جمع کرانی ہوگی، پھر بڑے فخر سے یہ اسکول والے کہتے ہیں کہ اگر آپ کے 3 بچے ہیں اور ہمارے ہی اسکول میں ہیں تو ہم کچھ ڈسکاؤنٹ کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہم کیا امید لگائیں اور کس سے شکوہ کریں۔
ججز اپنا فرض اس طرح نبھا رہے ہیں کہ اپنے فیصلوں میں کچھ صلح کی بات کرتے ہیں اور کبھی ظلم و ستم روکنے کی بات بھی کرتے ہیں مگر سنے کون اور ان کو پورا کرے کون، کہ تخت کا نشہ ایسا ہے کہ ہر چیز قدموں کے نیچے کچل دی جا رہی ہے۔ ہمارے بچے دربدر بھٹک رہے ہیں، نہ تعلیم نہ تربیت، جنھوں نے بڑی مشکلوں سے ڈگریاں بھی حاصل کرلی ہیں وہ بھی بے روزگاری اور غربت کا شکار ہیں۔
ٹیکسی سروسز کا جو رجحان ہمارے شہروں میں آیا ہے تو یقین جانیے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈرائیوری کر رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو عوام سے وعدے کرتے ہیں، ووٹ مانگتے ہیں، اور ان کی قسمت بدلنے کے دعوے کرتے ہیں اور ایسی قسمت بدلتے ہیں کہ ان کی زندگی پہلے سے مشکل ترین بنادیتے ہیں۔ بچے بچیاں گمراہ ہو رہے ہیں ان کی کونسلنگ والے ادارے نہیں، آخر کب اور کس طرح ہم تعلیم پر توجہ دیں گے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ لوگ کہیں تعلیم حاصل کرکے ہم سے حساب و کتاب نہ مانگیں، کہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ لوگ ہم سے کرپشن اور جرائم کے بارے میں سوال و جواب نہ کریں۔
شدید ترین نقصان پہنچایا جا رہا ہے تعلیم کے شعبے کو، اور شدید ترین نقصان پہنچایا جا رہا ہے ہماری نوجوان نسل کو۔ہم تو وہ لوگ ہیں کہ ہمارا ایمان ہی پڑھنے سے شروع ہوتا ہے، تمام نبیوں نے علم حاصل کرنے پر زور دیا۔ گورنمنٹ کے اسکولوں سے پڑھے ہوئے لوگ کیسے کیسے لاجواب انسان بنے اور بدقسمتی کہ انھی اسکولوں کو ان کے معیار کو ختم کردیا گیا۔
پورے پاکستان کے گورنمنٹ اسکول کو پہلی ترجیحی بنیادوں پر اسکولوں کا درجہ دیا جائے، جانوروں سے پاک کیا جائے، اسکول کی عمارتوں کو مضبوط بنایا جائے، بچوں کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے صاف و ستھرا ماحول بنایا جائے، ہر صوبائی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ گورنمنٹ اسکول کو اپنی پہلی ترجیح دیں، تمام پاکستان کا گورنمنٹ اسکول کا معیار تعلیم اور سلیبس ماہر اساتذہ کی نگرانی میں تیار کروایا جائے اور اس کو پورے پاکستان میں ہنگامی بنیادوں پر نافذ کیا جائے۔ دین اور دنیا دونوں اساتذہ سے اس کو ہر کلاس کے کورس کو تیار کرنے میں مدد لی جائے۔
تعلیمی اداروں کو رول ماڈل بنایا جائے، بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو آپ مضبوط کرنے میں بے حساب نقصانات کرتے چلے جائیں، اس قوم کے لیے ان لوگوں کے لیے ایسے زبردست اقدامات کریں کہ آپ کا نام سالہا سال عزت سے لیا جائے۔ بے انتہا دیانت داری اور اللہ کے خوف کے ساتھ تعلیم کو پورے پاکستان میں ایسے پھیلادیا جائے کہ عوام خود کھانے سے زیادہ علم حاصل کرنے کی فکر کریں، علم سے تعلیم سے نہ صرف ہمارے ذہنوں کے دروازے کھلیں گے بلکہ ہم ایک دوسرے کے مددگار ایک دوسرے کے دوست بنیں گے، ہاتھوں میں چاقو اور ہتھیاروں کی بجائے، قلم اور کتاب ہوگی تو دماغوں اور دلوں سے دشمنیاں، نفرتیں خودبخود ختم ہوں گی ہمارے اساتذہ، ہمارے ادیب، ہمارے لکھاری اللہ کے واسطے اس قوم پر رحم کھائیں اور انھیں اس راستے پہ چلنے کے لیے راہ ہموار کریں جہاں بہترین سائنسدان، بہترین سیاستدان، بہترین تجارت کرنے والے، بہترین انسان بن سکیں۔
پچھلے کئی سال سے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، خاص طور پر گورنمنٹ اپنے اسکولوں پر بالکل توجہ نہیں دے رہی، گاؤں اور دیہاتوں میں بچے پڑھنا چاہتے ہیں اور دور دور پیدل سفر بھی کرتے ہیں مگر ان مشکلات کو دور کرنا صرف حکومت کا کام ہے۔ گھوسٹ اسکولز، گھوسٹ اساتذہ ختم کیے جائیں۔ سنجیدگی اور اللہ کی عبادت سمجھتے ہوئے بہترین تعلیمی اداروں کا جال اس طرح پھیلایا جائے جس طرح پورے پاکستان میں کھانے پینے کے کیفے اور ریسٹورنٹ کا جال بچھتا جا رہا ہے۔ ان کیفے اور ریسٹورنٹس میں ہماری نوجوان نسل گھنٹوں برباد کرتی ہے، شیشہ، سگریٹ، چرس اور اسی طرح کے نشے کا استعمال ہوتا ہے، بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور اخلاقیات بھی تباہ برباد۔
یہی وقت ہے اگرچہ نوجوان نسل، سستی اور اچھی حکومت کی مہیا کی گئی تعلیم کو حاصل کرنے میں لگائے تو بہترین لوگ ہمیں ملتے چلے جائیں گے، ہاں یہ ضرور ہوگا کہ پھر کرپشن، بددیانتی، ظلم و جبر، نفرت اور چالبازی رفتہ رفتہ ختم ہوگی، روشنی کے دیے جلیں گے اور ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے مگر کیا ایسا ہوگا یا ہونے دیا جائے گا؟