قتلام کے موسم میں ادب
کراچی کے بھلے مانسو تم پر سلام ہو‘ تم نے علامہ اقبال کے نیک مشورے کی لاج رکھ لی۔
جب ہم کراچی کی آرٹ کونسل کے بلاوے پر ادھر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو دور تک ہمیں سمجھانے زندگی آئی کہ اے ناعاقبت اندیش کہاں جا رہا ہے۔ کہاں کا ادب اور کیسا آرٹ، وہاں تو قتلام کا میلہ لگا ہوا ہے۔ مگر ہم نے اس آواز پر کان دھرا نہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ چل سو چل۔ ورد زبان یہ شعر تھا؎
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
لیکن جب اس مقتل میں پہنچ کر آرٹ کونسل میں قدم رکھا تو دم بخود رہ گئے۔ اس تند و تیز ہوا کے بیچ کیا عجب چراغ جلایا ہے کہ خونیں آندھی سے بے پروا جھلمل جھلمل کر رہا ہے۔ اور کیا گہما گہمی ہے۔ وسیع و عریض ہال کے اندر بھی اور ہال سے باہر برآمدوں میں بھی اور برآمدوں سے باہر تنبوئوں کے تلے بھی۔ ہال کے اندر سامعین گوش بر آواز قطار اندر قطار بیٹھے ہیں۔ باہر یاران ادب کی چہل پہل تو ہے ہی اس رنگ سے کہ ادیبوں کی دید کے مشتاق کیمرے بغل میں دابے جس مہمان ادیب کو دیکھتے ہیں دوڑ کر اس کے قریب جاتے ہیں، یاروں مداحوں کو ان کے دائیں بائیں کھڑا کرتے ہیں اور کیمرے میں آنکھ ڈال کر ان پر نشانہ باندھتے ہیں۔
مگر یہ بچے' اور بیبیاں کس خوشی میں یہاں گھوم پھر رہی ہیں۔ سمجھ رہی ہیں کہ شعر و ادب کا جشن منایا جا رہا ہے۔ جشن میں شامل ہو کر تھوڑا سیر سپاٹا ہم بھی کر لیں اور ہاں پاکستان الیکٹرونک میڈیا کے ہر چینل کا گروپ اپنے الیکٹرونک کباڑ کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ جو ادیب مقدور بھر بول یا الٹی سیدھی سن کر تھکا ماندہ ہال سے نکلتا ہے اور چائے کی ایک پیالی پی کر تازہ دم ہونا چاہتا ہے وہ بیچ میں پکڑا جاتا ہے۔ چینل کے چست ورکر اسے نرغہ میں اس طرح لیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ٹی وی کیمرے کے سامنے کھڑا پاتا ہے۔ گو ئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل۔ بہرحال الٹی سیدھی کہہ کر رہائی حاصل کرتا ہے اور اس سے پہلے کہ دوسرے چینل کے چنگل میں پھنسے وہ چائے کے اسٹال پر پہنچ کر اطمینان کا سانس لیتا ہے۔
تب ہم نے ورطۂ حیرت سے نکل کر کراچی کے امن پسند شہریوں کو داد دی کہ اے کراچی کے بھلے مانسو تم پر سلام ہو' تم نے علامہ اقبال کے نیک مشورے کی لاج رکھ لی۔ انھوں ہی نے شاید آج کے پاکستان کے نقشے کو کتنے برس پہلے تاڑ کر ہمیں تمہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ؎
اگر خواہی حیات اندر خطر ذی
اگر جینا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو۔ سو تم نے مر گر کر آخر کے تئیں موت کے کھیل کے بیچ زندگی بسر کرنا سیکھ لیا ہے۔
خیر اہل کراچی کی ہمت برحق مگر آرٹ کونسل کے منتظم اعلیٰ محمد احمد شاہ کی انتظامی صلاحیتوں کو بھی داد دینی چاہیے کہ قتلام کے میلے کے جواب میں ادب کا امن میلہ کیا خوب جمایا ہے کہ شہر شہر کا ادیب یہاں آیا بیٹھا ہے و نیز دیس دیس کا کوئی دلی سے آیا بیٹھا ہے، کوئی لندن سے کوئی برلن سے اور ادب کے نام ایسے چہک مہک رہے ہیں کہ جیسے شہر میں سب طرف امن چین ہے۔ یہ سب برحق۔ لیکن اگر احمد شاہ یہ بھی معجزہ کر دکھائیں کہ ہر سیشن وقت پر شروع ہو اور وقت پر ختم ہو تو پھر انھیں منتظم اعلیٰ کی سند ملے ہی ملے۔
مگر سامعین کے صبر کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔ سیشن کتنی ہی تاخیر سے شروع ہو کبھی ان کے صبر کے پیمانے کو چھلکتے نہ دیکھا۔ صبر کا صلہ انھیں یوں ملا کہ جب ایک مرتبہ ادب کی بساط بچھ گئی اور بحث و تمحیص کا نقشہ جم گیا تو پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ سیشن کے بعد سیشن اور پھر سیشن۔ چار دنوں میں کتنے سیشن ہو گئے اور کتنے مسائل و موضوعات زیر بحث آ گئے۔ تحقیق و تنقید کے کتنے نمونے سامنے آ گئے۔ شمیم حنفی ہندوستان سے بلکہ یوں کہو کہ شہر دلی سے وارد ہوئے تھے۔ ہر سیشن میں تنقید کے موتی بکھیرتے چلے گئے،کچھ اپنی خوشی سے کچھ احمد شاہ کی مرضی سے۔ احمد شاہ نے بھی بجا سوچا کہ ایک کام کا نقاد اس وقت دسترس میں ہے۔ اس سے جتنی تنقید اگلوا سکتے ہو اگلوا لو۔
باقی ناصر عباس نیر گھر کی مرغی ہیں۔ ساختیات پس ساختیات کے ماہر ہیں۔ کتنا کچھ لکھ چکے ہیں۔ اسٹیج پر اب نمودار ہوئے ہیں۔ ہم ان کے ہنر کو دلی سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ یہاں انھوں نے پرانی اور نئی تنقید کا فرق کچھ اپنے ساختیاتی محاورے میں واضح کیا،کچھ چالو محاورے میں۔ ساختیاتی محاورہ کچھ سمجھ میں آیا کچھ سر سے گزر گیا۔ مگر چالو محاورے میں جب بات کی تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ کہہ رہے تھے کہ پرانا نقاد ہر رنگ کی شاعری کو اور ہر قماش کے ادیب کو ایک لاٹھی سے ہانکتا تھا۔ اس کے پاس صرف ایک چھڑی تھی۔ مگر نئی تنقید نقاد سے تقاضا کرتی ہے کہ اس کے پاس ایک سے زیادہ چھڑیاں ہونی چاہئیں۔ اس لیے کہ ہر ادب پارہ یا ساختیاتی زبان میں یوں سمجھو کہ ہر متن ایک الگ چھڑی مانگتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ نکلا کہ ادب اور ادیب سے ہم بہرحال اسی طور نمٹ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں لاٹھی یا چھڑی نام کی کوئی شے ہونی چاہیے۔ گئے زمانوں میں شرفا عصاء یا لاٹھی یا چھڑی لے کر نکلا کرتے تھے کہ رستے میں پیش آنے والے ہر خطرے کا یہ توڑ جانتے تھے۔ نقادوں نے اسی نسخہ کو اپنے انتقادی رنگ سے اپنایا ہے۔
شمیم حنفی کہہ رہے تھے کہ راشد' فیض' میراجی کے ملاپ سے نئی اردو شاعری کی ایک اچھی بھلی تثلیث وجود میں آ گئی تھی۔ یہ تین شاعر مل کر جدیدیت کے مفہوم کو واضح کرتے تھے۔ مگر ان کے مداحوں نے اپنے اپنے ممدوح پر اتنا زور دیا کہ وہ تثلیث بکھر گئی۔ اس سے ہم نے یہ مطلب لیا کہ تثلیث کے بکھرنے کے ساتھ جدید شاعری بھی بکھر گئی۔ مداح تو اب مطمئن ہیں کہ ان کا ممدوح اب بلا شرکت غیرے بڑا شاعر ہے۔ اور ممدوحین جو ایک دوسرے کے سہارے چل رہے تھے اب مشکل میں ہیں۔
ڈاکٹر نعمان اپنی تحقیق میں دور کی خبر لائے یعنی غالب پر لکھی ایک ایسی کتاب کو پردۂ اخفا سے باہر نکال کر لائے جو ایک دھماکے کے ساتھ نمودار ہوئی تھی،کتاب کا پہلا ہی فقرہ کتاب کو لے اڑا اور مصنف کی شہرت کو پر لگ گئے تھے۔ یہ تھے عبدالرحمن بجنوری۔ ان کی کتاب تھی' محاسن کلام غالب'۔ اور کتاب کا پہلا فقرہ تھا
''ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ مقدس وید اور دیوان غالب''
ایسا دھماکہ خیز فقرہ کہ مولانا محمد حسین آزاد بھی سن لیتے تو سر دھنتے۔ اس ایک فقرے کے زور پر اس کتاب نے کتنے دنوں تک دھوم مچائی۔ مگر پھر اس طرح گم ہوئی کہ بس یہ ایک فقرہ ہماری اجتماعی یاداشت کا حصہ بن گیا۔ آگے کتاب کیا کہتی ہے' یہ کسی کو یاد ہی نہ رہا۔
ایک زمانے کے بعد ڈاکٹر نعمان الحق نے اس گمشدہ مال کو برآمد کیا اور اسے تحقیق کا موضوع بنایا۔ یہ کتاب تو مغرب کے اسمائے گرامی سے لبریز چلی آتی تھی۔ اتنے شاعروں دانشوروں مفکروں سے اردو کے قارئین کہاں آشنا تھے۔ اسمائے گرامی کی بھول بھلیاں میں پھنس کر رہ گئے۔ اب نعمان صاحب نے ایک محقق کے حساب سے اس کا حساب کتاب کیا ہے اور بڑی منصفی سے کیا ہے۔ سب سے پہلے تو اسمائے معرفہ کے جنگل کی صفائی ستھرائی کی ہے۔ جنگل وہ پہلے ہی تھا کاتبوں نے اپنی کتابت سے اسے بالکل ہی جھاڑ جھنکار بنا دیا۔ نعمان صاحب کی تنقید کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب تنقید تو واجبی واجبی ہے۔ ہاں ایک مداح اور ایک عقیدت مند کا غالب کو زبردست خراج تحسین ہے۔ بہرحال اس کی تاریخی اہمیت یقیناً ہے۔
ابھی تو مختلف مباحث پر بھی کہنے کو بہت کچھ تھا۔ مگر کالم کی حدود میں اس سب کو کیسے سمیٹا جائے۔