چار روزہ عالمی اردو کانفرنس
کراچی میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بے شمار اہل فن کرائے کے گھروں میں تنگدستی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
PESHAWAR:
پاکستان کے تمام شہروں میں علم و ادب کے حوالے سے محفلیں منعقد ہوتی ہیں لیکن کراچی جوکہ منی پاکستان ہے اس شہر کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ یہاں قائد اعظم کی جنم بھومی ہے، مزار ہے، سندھ مدرسۃ الاسلام ہے اور ساتھ ساتھ ہر سال باقاعدگی کے ساتھ عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد آرٹس کونسل کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی اس روایت کو برقرار رکھا گیا اور دور دراز سے ادیب و شاعر تشریف لائے تھے۔
افتتاحی اجلاس کا وقت 6 دسمبر 3 بجے سہ پہر تھا۔ مجلس صدارت میں ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشتاق احمد یوسفی کے اسم گرامی بھی شامل تھے، لیکن ان کا دیدار ان کے قدردان نہیں کرسکے چونکہ اعلیٰ حضرات ناگزیر وجوہات کی بناء پر تشریف نہیں لاسکے تھے، عالمی اردو کانفرنس میں ''ٹاپا'' کے اشاعتی منصوبے اور نئی کتابوں پر گفتگو ہوئی، تحقیق و تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر محمد علی صدیقی، سید مظہر جمیل، ڈاکٹر ظفر اقبال وغیرہ نے تقاریر کیں، بیادِ رفتگاں میں لطف اﷲ خان پر ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ہاجرہ مسرور پر زاہدہ حنا، سلیم الزماں صدیقی پر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے روشنی ڈالی اور مرحومین کی زندگی کے مخفی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔
اس چار روزہ اردو کانفرنس میں علم و ادب کے ناطے بے حد منفرد پروگرام کیے گئے۔ شمیم حنفی بھارت سے تشریف لائے تھے، انھوں نے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ (ہندوستان میں اردو ادب کا اجمالی جائزہ) پیش کیا۔ جسے حاضرین نے بے حد توجہ کے ساتھ سنا کہ اکثریت شمیم حنفی کو سننا اور ان کی گفتگو سے استفادہ کرنا چاہتی تھی۔
پاکستان کے مختلف شہروں سے اہم شخصیات تشریف لائی تھیں مثال کے طور پر کشور ناہید، ایم خالد فیاض، بھارت سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ''عظیم منٹو کی صدی'' کے عنوان سے بھی مضامین نذر سامعین کیے گئے۔ منٹو پر نئی کتابوں کا تعارف امینہ سید نے کرایا۔ (ناقدین منٹو) منٹو کی خاکہ نگاری کے عنوان سے ایم خالد فیاض اور رئیس فاطمہ نے اظہار خیال کیا۔ جب ''میرا جی'' پر بات ہوئی تو نظامت کے فرائض علی حیدر ملک نے انجام دیے۔ ''اردو ادب عالمی تناظر میں'' اس عنوان کے تحت غیر ممالک سے آئے ہوئے ادباء و ناقدین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سعید نقوی امریکا سے، مسرور غزالی جرمنی، عامر حسین برطانیہ سے تشریف لائے تھے۔
آرٹس کونسل میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ عمارت سے لے کر افکار و خیالات تک، اپنے پروگراموں کے ذریعے مثبت تبدیلی لانے کے لیے بھی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ طلبا کے اعتبار سے ہر روز مختلف آرٹ و ثقافت کی کلاسیں ہوتی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں، اس طرح کے پروگراموں میں ممبران کو مدعو کیا جاتا ہے، ہر شخص ان محافل میں شرکت کرسکتا ہے، طلبا کی سالانہ کارکردگی اور نمایاں کامیابی پر جشن منایا جاتا ہے۔ کئی سال قبل آرٹس کونسل کی طرف سے ممبران آرٹس کونسل کو پلاٹ دینے کی بھی بات کی گئی تھی لیکن شاید اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی اسی لیے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔
ہمارے شہر کراچی میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بے شمار اہل فن کرائے کے گھروں میں تنگدستی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں، کتابوں کے مسودے اشاعت کے منتظر ہیں لیکن کوئی نگاہ غلط ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ہے، کام ان کے ہی ہوتے ہیں جو سفارش لے کر آتے ہیں، کوششیں کرتے ہیں، سفارشات و تعلقات سے ہٹ کر بھی ممبران کو کچھ نہ کچھ ضرور فائدہ پہنچنا چاہیے۔ لیکن فائدہ تو دور کی بات ہے کانفرنس کے موقع پر اکثر قابل قدر لوگوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ شہر میں ان گنے چنے لوگوں کے سوا کوئی دوسرا نہیں، بے شک یہ عظیم ہستیاں بھی اس بات کی مستحق ہیں کہ وہ اپنے افکار اور علم کی روشنی کو دوسروں تک پہنچائیں، یقیناً یہ قابل قدر لوگ ہیں جنہیں ان پانچ برسوں میں پابندی کے ساتھ مدعو کیا جاتا رہا ہے اور بار بار انھیں بولنے کا، کچھ کہنے سننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے جوکہ اچھی بات ہے، لیکن یہ بات مزید اچھی ہوتی کہ اس شہر نگاراں سے ان شعراء، مزاح نگاروں اور علم و ہنر کے متوالوں کو بھی دعوت دی جاتی جن کی ساری زندگی علم و آگہی کے موتی چنتے اور دوسروں کو بانٹتے گزری، کوئی بھی ادارہ ہو اس کا فرض ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو مجروح نہ ہونے دے۔
اتنا ہی عزت و مقام ان اہل فن کو بھی دے جتنا وہ اپنے پسندیدہ اہل ہنر کو دیتے ہیں۔ آرٹس کونسل کے معزز حضرات کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے یا ان کے احباب انھیں لاعلم رکھتے ہیں کہ بہت اچھی اور منفرد کتابوں کی اشاعت دو چار سال یا چند مہینوں میں ضرور ہوتی ہے ان کتابوں کا ذکر دور دور تک چلتا ہے۔ لیکن یہاں بھی انہی کتابوں کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جنہیں وہ ضروری سمجھتے ہیں۔
اپنے تمام ممبران کی عزت کرنا اور ان کے ان مسائل کو حل کرنا جن کا تعلق تخلیقی سرگرمیوں یا معاشی افکار سے ہے، اعلیٰ عہدیداران کا اخلاقی فریضہ ہے۔ بہت سے لوگ علم و ہنر میں یکتا ہیں، لیکن اپنا ایک مجموعہ شائع کرانے کے اہل نہیں۔ افلاس کی بڑھتی ہوئی چادر نے ان کی خواہشات کو اپنے اندر ڈھانپ لیا ہے۔ جناب احمد شاہ کی پہنچ سرکار کے در دولت تک ہے کیوں نہ وہ ایسا کریں اپنے تعلقات و سفارشات کی بناء پر اپنے ضرورت مند ممبران اور ان کی اولاد کو روزگار اور مفت تعلیم کے ذرائع مہیا کریں، جب سالانہ اور بڑے پیمانے پر تقریبات ہوسکتی ہیں تو کیا اس پیسے سے جو ان کانفرنسوں کی مد میں خرچ ہوتا ہے کچھ پیسے بچا کر بیمار اور پریشان حال لوگوں کو انعام و اکرام کی شکل میں نواز دیں کہ زمانہ پیری میں ہی کچھ خوشی و سکون میسر آجائے۔
ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ حاضرین و شائقین کے لیے چائے اور کھانے کا کچھ اس طرح بندوبست کیا جانا چاہیے کہ ایک چائے کے کپ کے لیے دھکم پیل نہ ہو۔ طاقتور تو ہر جگہ حاوی ہوجاتا ہے اور کمزور بے چارہ ہر موقع پر پسپا ہوتا ہے لہٰذا کھانا اور چائے بھی بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ بہت سارے لوگ گھر سے کھانا کھا کر جاتے ہیں اور گھر آکر کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ سب سے اچھا ہے۔ ورنہ تو طلبگار ہمیشہ جمگٹھے کی ہی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ویسے ہمارا تو محرومین کے لیے مشورہ یہی ہے کہ جب وہ اس قسم کے اجتماع میں شرکت کریں تو چائے کا تھرماس اور اپنا کھانا ساتھ لائیں ورنہ بھوک اس قدر اچھے پروگرام کا مزہ کرکرا کردے گی۔ گزشتہ اور موجودہ کانفرنسوں کے مواقع پر ہم نے لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا کہ فلاں ادیب یا فلاں نقاد کو کتاب ہرگز نہ دینا یہ لوگ ساتھ لے کر نہیں جاتے ہیں بلکہ ادھر ہی چھوڑ جاتے ہیں لیکن اس بار شمیم حنفی صاحب نے بالکل ٹھیک کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ بھئی! کتابیں دلّی ہی بھیج دی جائیں۔ اس طرح یہ ہوا کہ مہنگی اور قیمتی کتابیں ضائع ہونے سے بچ گئیں۔