مادر جمہوریت ۔ قابل فخر ماں
پاکستانی سیاست کے اسٹیج پر کھیلے جانے والے ڈراموں میں ملکیت ہمیشہ غاصبوں کے ہاتھ رہی
آج مادر جمہوریت کو دار فانی سے کوچ کیے پانچ سال ہو گئے ایک دھائی سے زائد عرصے سے دنیا و مافیا سے بے خبر رہنے والی پاکستان کی سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو دنیا سے اسی حالت میں رخصت ہو گئی تھیں۔
جس پودے کی آبیاری اس خاندان نے اپنے لہو رنگ سے کی اس کی بہار کوئی ایک فرد بھی نہ دیکھ سکا کبھی کبھی یادداشت کھو دینا بھی کتنی بڑی نعمت بن جاتا ہے ایسے لو گوں کے لیے جو دکھ اور اذیت کی انتہائیں جھیل چکے ہوں یہی سب کچھ بیگم بھٹو کے لیے کہا جا سکتا ہے پے در پے اس خاندان نے جمہوریت کی سربلندی کے لیے ناقابل بیاں ذہنی اور جسمانی صدمے سہے، کوئی پھانسی چڑھا تو کسی نے سینے پر گولیاں کھائیں ان کے ساتھی اور عقیدت مند انھی راہوں پر چلنے والے سر پھرے لوگ جنھوں نے جمہوریت کے لیے اپنی جوانی عقوبت خانوں میں گزاری تو کوئی جلا وطن ہوا اور کسی کی پیٹھ کوڑوں سے ادھیڑی گئی۔
پاکستانی سیاست کے اسٹیج پر کھیلے جانے والے ڈراموں میں ملکیت ہمیشہ غاصبوں کے ہاتھ رہی جنھوں نے اس ملک میں جمہوریت کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں پیپلزپارٹی کی جمہوری اقدار ان طالع آزماؤں کے سینے میں پھانس بن کر چھبتی رہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے سچائی، جمہوریت اور سولی کا انتخاب کیا جس کی سزا آنے والے دنوں میں ان کے خاندان کو بھی بھگتنی پڑی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی خاندان پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس کا اثرسب سے زیادہ ماں پر پڑتا ہے خاص کر ان حالات میں جب معاملہ حاکم وقت کے زیر عتاب ہو اور باپ کا سایہ بھی سر پر نہ ہو انھی حالات میں بیگم نصرت بھٹو نے اپنے فرائض و کردار بڑی بہادری سے ادا کیا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک مضبوط کردار کی حامل باوقار خاتون تھیں۔
1929ء ایران کے شہر اصفہان میں ایک مالدار خاندان الحریری میں نصرت صبونچی پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان کاروبار کے سلسلے میں بمبئی منتقل ہوا والد ایک متمول ایرانی تاجر تھے جو بعد میں کراچی رہائش پذیر ہوئے۔
نصرت صبونچی ایک شیعہ گھرانے کی دلیر لڑکی تھیں انھوں نے اس زمانے میں پاکستان آرمی کے نیشنل گارڈ میں شمولیت اختیار کی اور بعدازاں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئیں، نصرت صبونچی کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے کراچی میں ہوئی، خاندان کے کئی لوگوں کی مخالفت کے باوجود انھوں نے 8 ستمبر1951 میں ذالفقار علی بھٹو سے شادی کر لی وہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے شانہ بشانہ سیاسی سرگرمیوں میں ان کے ساتھ رہیں ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد خاتون اول کہلائیںاور مختلف ممالک کے دوروں میں شریک سفر رہیں ان کے چار بچے ہوئے دو بیٹے اور دو بیٹیاں، جن میں ان کی واحد نشانی صنم بھٹو کی صورت میں زندہ ہیں۔
5جولائی 1977ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو بر طرف کر کے مارشل لاء کا نفاذ کیا اور بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تو نصرت بھٹو نے عوامی جدوجہد کا آغاز کیا۔ شوہر کی گرفتاری کے خلاف جلسے جلوسوں کا انعقادکیا، بیگم بھٹو کے عوامی جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت نے جنرل ضیاء الحق کو بوکھلا دیا، انھوں نے انتخابات ملتوی کرا دیے اور بیگم نصرت بھٹو نے شوہر کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی کو سنبھالا، اور جیالوں کی قیادت کا فرض ادا کیا۔
کہا جاتا ہے کہ اگر نصرت بھٹو 1977ء میں پارٹی کو یکجا نہ کرتیں تو پیپلزپارٹی کب کی بکھر چکی ہوتی، اس کے تعاقب میں کئی ایسی سیاسی قوتیں اور نان اسٹیٹ ایکٹر تھے جو پیپلزپارٹی کی روح اور اس کی جان کے درپے تھے۔ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پر جوش پارٹی کا رکنوں نے انھیں اپنا چیئرمین نامزد کیا۔
بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی لیڈر کی بیوی کی حیثیت سے تو اپنی ذمے داری نبھائی اور بحثیت ماں بھی انھوں نے مثالی کردار اداکیا۔ جب انھوں نے بے نظیر بھٹو کو اس قابل سمجھا کہ وہ پارٹی قیادت سنبھال سکیں تو پارٹی قیادت ان کے حوالے کر دی اور خود بیٹی کا دست و بازو بن کر ہر قدم پر ان کی رہنمائی کی، انھیں مفید، بروقت مخلصانہ مشورے دیے۔
یہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت میں ایک کامیاب لیڈر کی خوبیاں پیدا کرنے کا سہرا بھی نصرت بھٹو کو جاتا ہے جنھوں نے بیٹی کے اندر یہ ہمت و طاقت اور فکری و سیاسی گہرائی پیدا کی کہ وہ ایک آمر سے ٹکر لے سکیں۔ فوجی ڈکٹیٹرز کے خلاف میدان عمل میں آئیں۔ خود نصرت بھٹو پر قذافی اسٹیڈیم میں جلسے کے دوران ل ٹھیا ں برسائی گئیں، ان کا سر پھاڑ دیا گیا، جس کے زخم کبھی مند مل نہ ہو سکے۔ اس چوٹ سے ان کے اعصاب اور یاد داشت بہت متاثر ہوئے وہ رفتہ رفتہ عمر کے آخری حصے میں الزائمر کی مریض بن گئی تھیں۔
ان تمام مشکلات کے باوجود انھوں نے غیر معمولی اور مثالی کردار ادا کیا۔ وہ پارٹی کی شہ رگ تھیں، انھی کی رہنمائی میں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں لیکن دوسری مرتبہ وزیر بننے کے بعد پارٹی قیادت کے لیے بے نظیر بھٹو اور ان کے بھائی مرتضی بھٹو میں کچھ اختلافات پیدا ہوئے، ماں نے بوجوہ بیٹے کا ساتھ دیا تو کچھ وقتی دوریاں پیدا ہوئیں لیکن! اسی دوران ایک افسوس نا ک واقعہ پیش آیا۔ 20 ستمبر 1996ء کو ان کے گھر 70 کلفٹن سے چند قدم کے فاصلے پر پولیس مقابلے میں میر مرتضیٰ بھٹو کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
شام کا وقت تھا، اندھیرا ہو چکا تھا، اپنے سامنے یہ سانحہ دیکھنے اور اس کے بارے میں سننے کے بعد وہ اس دکھ سے پھر کبھی نہ نکل سکیں، ان کے آنسو رواں تھے، شوہر کی پھانسی، چھوٹے بیٹے کی پراسرار موت اور پھر بڑے بیٹے کے اچا نک سفاکانہ قتل نے ان کے ذہن پر کثیر جہتی اور گہرا اثر ڈال ، وہ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر مفلوج حالت میں جی رہی تھیں جب کہ اپنی پیاری بیٹی بے نظیر بھٹو کی موت سے بھی لا علم رکھی گئی تھیں۔ نصر ت بھٹو کا خاندان اگر چاہتا تو ایک آسودہ زندگی گزار سکتا تھا کہ ان کے پاس دولت وآسائش کی کمی نہ تھی۔ پھرشاید ان کے اپنے اتنی جلدی نہ بچھڑتے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے قربانیاں دیں۔
ایک جلسے کے دوران شوہر کے نظریے کو اپنی آواز دیتے ہوئے نصرت بھٹو نے فرمایا تھا ''بھٹو صاحب کا ایک مطمع نظر تھا کہ اپنے عوام کو شخصی آزادی دلائی جائے۔ انھیں سماجی، اقتصادی شکنجوں سے آزادی مل جائے۔ انھیںآمریت کے غاصبا نہ اقتدار سے نجات دلائی جائے۔ سیاسی طور پر بھی اظہار کی آزادی ہو۔ وہ سب انھیں فراہم کیا جائے جو آزاد ملک کے عوام کا حق ہے۔ وہ صرف اپنے ہم وطنوں کی ترقی کے خواہاں نہ تھے بلکہ اس ترقی میں تیسری دنیا کے غریب عوام کو بھی شریک کرنا چا ہتے تھے''۔
نصرت بھٹو آگے فرماتی ہیں کہ ''میں چاہتی ہوں کہ بولتی چلی جاؤں اور ان کی زندگی کے گوں نا گوں رخ سامنے لاؤں'' لیکن افسوس کہ پے در پے صدمات کے بعد وہ ایک دھائی سے خاموش تھیں اور بالاخر 13 اکتوبر 2011 کو موت نے انھیں تمام دکھوں اور غموں سے نجا ت دلادی۔جمہوریت کے جس پودے کی آبیاری میں ان کے خاندان نے صعوبتیں، تکلیفیں برداشت کیں، موت کو گلے لگایا، ان کے جانے کے بعد وہ شجر پھر کبھی اپنی بہار نہ دکھا سکا۔