آبشاروں کا شہر
امریکا کے شہر نیوجرسی سے چلے تھے اور اب واٹکن گلین شہر کے قریب ہیں
بس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح موجود ہیں۔ زیادہ تر نوجوان جوڑے ہیں۔ کچھ تنہائی کے مارے ہوئے لوگ بھی دکھائی دیے۔ انڈیا سے آئی ہوئی اکیلی خاتون، جرمنی سے آدم بے زار سا شخص، کچھ ایشیا کے لوگ جن کا تعلق چین اور جاپان سے ہے۔
بس کا گائیڈ بھی چینی لڑکا ہے۔ چن چھو پہلے انگریزی میں معلومات فراہم کرتا ہے اور اس کے بعد چینی زبان میں بولنے لگتا ہے۔ اگر چینی زبان بھول جاتا ہے تو، بس میں موجود چینی اسے یاد دلاتے ہیں کہ اسے چینی زبان بول کے انھیں اپنائیت کا احساس دلانا ہے۔ لگتا ہے یہ چینی لوگ اپنی زبان اور ثقافت کے معاملے میں ہم سے زیادہ بہتر ہیں۔
منظر تیزی سے بدل رہے ہیں۔ امریکا کے شہر نیوجرسی سے چلے تھے اور اب واٹکن گلین شہر کے قریب ہیں۔ ہر طرف اس قدر سبزہ بکھرا ہے کہ آنکھوں میں نیند کا خمار اترنے لگتا ہے۔ سبزے کے اوپر جھلملاتا سورج ہر منظر پر سنہری کرنیں نچھاور کر رہا ہے۔ ہر طرف خوشی اور سرشاری کا احساس بکھرا ہوا ہے۔
تمام راستہ اس قدر سرسبز کہ طلسماتی دنیا کا حصہ لگنے لگتا۔ اس قدر ترتیب اور حسن تو دیومالائی قصوں میں پڑھتے تھے۔ لوگ بھی کس قدر پرسکون۔ چن چھو نے سایہ دار درختوں کے سامنے بس رکی تو بتایا کہ اب آپ نیچے ڈھلوان کی طرف چلیں گے ۔ ٹریکنگ کے لیے اچھا راستہ ہے جہاں راستہ ختم ہوگا دوسری طرف بس کھڑی ہوگی۔ لیکن ڈیڑھ گھنٹے میں آپ نے واپس پہنچنا ہے، یہ نہ ہو کہ میں آپ لوگوں کو ڈھونڈتا پھروں۔
سب لوگ بس سے اتر کر ڈھلوان کی طرف چلنے لگے۔ دو پہاڑوں کے درمیان کا راستہ تھا۔ سیڑھیوں کے بعد سیدھا راستہ آجاتا۔ اتنا تنگ کہ دو لوگ ہی گزر سکتے۔ اوپر سبزے پر سورج کا عکس کئی رنگوں میں بدل جاتا۔ جتنی بار آنکھیں جھپکیں، اتنے ہی قوس و قزح کے رنگ آنکھوں کے قریب جگمگاتے۔ نیلا پانی بہہ رہا ہے۔
واٹکن گلین اسٹیٹ پارک مشہور ہے۔ یہ فنگر لیک پارک بھی کہلاتا ہے۔ دو میل کے فاصلے تک پانی بہتا ہے۔ انیس آبشار ہیں۔ کہیں نہ کہیں کوئی آبشار بہہ رہا تھا۔ پانی کے بہنے کی آواز میں جادو کا اثر تھا۔ جھرنے کی موسیقی میں عجیب سا سحر تھا۔ تتلیاں، بھنورے اور شہد کی مکھیاں سبزے اور جنگلی پھولوں پر منڈلا رہی تھیں۔
ایک خوبصورت ہرا بھرا جنگل تھا۔ اور پرکیف راستوں پر لوگ چلے جا رہے تھے۔ گوکہ راستے دشوار گزار تھے۔ میں تھک گئی اور ایک طرف سبزے کی گھنی چھاؤں میں سستانے بیٹھ گئی۔ میاں بولے جلدی چلو یہ نہ ہو کہ بے چارہ چن چھو تمہاری تلاش میں مارا مارا پھرتا رہے۔ لیکن مجھے وہاں سے کوئی بھی نہیں ہٹا سکتا تھا۔ قدیم اور پراسرار راستوں کی بوسیدہ مہک کے ساتھ سبزہ سانسوں میں مہک رہا تھا۔ کئی لوگ وہاں سے گزرے ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ یونیورسٹی کے طلبا اپنی تحقیق میں مصروف تھے۔ سامنے بارش کی طرح جھرنا برس رہا تھا۔ لوگ بھیگتے گزر رہے تھے۔
''ہائے کتنے حسین جھرنے ہیں۔'' انڈین خاتون میرے قریب آ کے بیٹھی۔ وہ انڈیا سے بیٹے سے ملنے آئی تھی۔ بیٹا مصروف ہونے کی وجہ سے نہیں آسکا لہٰذا اکیلے ہی نکل کھڑی ہوئی۔ پارک میں کیمپ گراؤنڈ، پکنک اسپاٹ، سوئمنگ پول وغیرہ بھی ہیں۔ پارک شہر کے بیچ میں واقع ہے۔ یہ گاؤں کہلاتا ہے۔ مگر ہمارے شہروں سے زیادہ منظم ہے۔ یہ جگہ دو تین میلوں تک محیط ہے۔ اور تیس فٹ گہری ہے۔
اٹھ کے چلنے لگی۔ اشتیاق آگے چلتے پیچھے مڑ کر ضرور دیکھتے۔ جیسے یہ خدشہ ہو کہ کسی مشکل راستے سے گزرتے ہوئے نیچے نہ گر جاؤں۔ کیا حسین راستہ ہے۔ اوپر دیکھو تو، کرنوں سے جگمگ کرتا سبزہ تھا۔ ہر سو ہوا کی سرسراہٹ میں لپٹی ہوئی پرکیف خاموشی تھی، جو پانی کی خوشبو کو ساتھ لیے پھرتی۔
ایک گہری شعور بھری سانس لے کر زندگی کے حسن کو محسوس کرو۔ کس قدر لطیف اور معطر سانسیں ہیں۔ جنگل کے شبنمی سحر سے سرشار۔
میں نے دیکھا چن چھو میری طرف آرہا تھا۔ آئیے پلیز! جلدی آئیے۔
مگر میں نے اس کی بات نہیں سنی۔ ٹنل سے گزرتے ہوئے برج تک پہنچے۔ دونوں طرف کا حسین منظر تھا۔ راستوں کے سبز ترین پیچ و خم تھے۔ جھرنوں کے مدھر سر تھے۔ اور یہ سامنے ریمبو فال کا حسین ترین حصہ تھا۔
میں تیز تیز چلنے لگی۔ کہیں خوبصورت منظر کو کیمرے کی آنکھوں میں قید کرلیا، تو کہیں مووی بنالی۔ میں سب سے پیچھے تھی۔ لہٰذا آگے سے میاں کی آنکھیں گھور رہی تھیں۔ دوسری طرف چن چھو ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہا تھا۔ جلدی سے آگے آئیے۔ دیر ہوجائے گی۔
اب چلا نہیں جا رہا تھا۔ اس قدر مشکل ترین راستہ تھا کہ تھکن سے برا حال تھا۔ کئی تتلیاں اور پرندے راستے میں آئے۔ فطری زندگی کا عجب سماں تھا۔
یہ لوگ کس طرح اپنی ہر چیز کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ انھیں سبزے سے کس قدر پیار ہے کہ ان کی آنکھوں سے روح تک ٹھنڈک کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں۔ انھوں نے فطرت کے حسن میں اپنے وجود کو دریافت کیا ہے۔
پھر اس وجود کو درختوں، پودوں، پھولوں، دریاؤں اور آبشاروں سے ہم آہنگ کرلیا ہے۔
تبھی تو یہ ہم آہنگی کا حسن اوڑھ کر، ذات کی وحدت کا جشن مناتے ہیں۔
''یہ کون سا درخت ہے؟'' میں نے گائیڈ سے پوچھا تو وہ ہونق بنا دیکھتا رہ گیا۔ اسے فقط بس تک پہنچنے کی جلدی تھی۔
اس نے سب مسافروں کو بس میں بٹھا کر دم لیا۔ اور اعلان کیا کہ آگے اسٹاپ پر رکیں گے تازہ دم ہونے کے لیے۔
میرے آگے عرب جوڑا بیٹھا تھا۔ یہ میاں بیوی کس قدر باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے حسرت سے کہا۔
''یہ میاں بیوی نہیں ہیں۔'' اشتیاق نے مسکرا کے کہا۔ بس چلنے لگی۔ ہر طرف خوبصورت گھر تھے۔ پھولوں سے آراستہ خوبصورت گلدستے دروازوں پر آویزاں تھے۔ نہ تو یہ لوگ کبھی تھکتے ہوں گے اور نہ ہی بے زاری کے ان پر دورے پڑتے ہوں گے۔
آگے بیٹھا ہوا شخص اس عرب حسینہ کو موبائل میں تصویریں دکھانے لگا۔ اپنے بیوی اور بچوں کی تصویریں، خاندان کی تصویریں۔ کیا فطرت کے حسین مناظر تھے اس کے کیمرے میں قید۔
یہ میاں بیوی نہیں ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے کا جملہ کانوں میں گونجا۔ پھر ایک مفکر کی بات یاد آگئی۔ میاں، اس قدر بیوی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد انھیں اس دن بیوی کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔