ہم سب صرف ضرورت ہیں
کوپر نے کہا ہے ’’چھوٹے غم واویلا کرتے ہیں، بڑے غم خاموش ہوتے ہیں‘‘
کوپر نے کہا ہے ''چھوٹے غم واویلا کرتے ہیں، بڑے غم خاموش ہوتے ہیں'' اسی لیے ملک بھر میں چاروں سو خاموشی طاری ہے۔ آئیں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے غم بڑے غم کیوں ہیں۔ اس کے لیے ہمیں پہلے ہندوستان میں جانا پڑے گا۔
ہندوستان میں بیٹھ کر ہم سالہا سال تک خوشحالی، ترقی، کامیابی، اختیار اور آزادی کے خواب پر خواب دیکھتے رہے اور ان پر خوب مچلتے رہے اور جب پھر ہم نے اپنے لیے ایک الگ ملک کا خواب سچا کر دکھایا تو ہم اپنے باقی خوابوں کو سچا کرنے کے لیے نئے ملک میں بڑے اکڑے اکڑے داخل ہوئے۔
اس یقین کے ساتھ کہ ہم ہی اس نئے ملک کے مالک ہوں گے اور خوشحالی، ترقی، کامیابی، اختیار اور آزادی وہاں بے تابی کے ساتھ ہمارا انتظار کررہی ہوں گی اور بس ہمیں وہاں پہنچنا ہی ہوگا کہ یہ ساری چیزیں یک دم ہم سے آکر لپٹ جائیں گی اور ہم سے اس طرح چمٹیں گی کہ پھر آخر عمر تک ہمارا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں گی۔ لیکن داخل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ہمارا سارا غرور، ساری اکڑ، سارے خواب اس وقت خاک میں ملنا شروع ہوگئے کہ جب خوشحالی، ترقی، کامیابی، اختیار اور آزادی ان کے حصے میں آنا شروع ہوگئیں جو سارے سفر میں شریک ہی نہ تھے، جو کسی بھی قسم کی جدوجہد کا حصہ ہی نہ تھے اور ہمارے حصے میں دھتکار، گالیاں، لعنت ملامت آنا شروع ہوگئیں۔
شروع شروع میں تو ہم یہ سمجھے کہ شاید ہم غلط ملک میں آن پہنچے ہیں اور وہ بھی دشمن ملک میں۔ لیکن جب ہماری یہ سوچ بھی غلط ثابت ہوگئی تو پھر ہم ایک دوسرے سے نظریں ملانے تک کے قابل نہ رہے اور ہمارے خواب ہمارے بھوت بن گئے، جو ہمیں اب دن رات ڈراتے رہتے ہیں۔ اب ہمارے خواب ہی ہماری سزا ہیں۔ ہم سب ادھورے رہ گئے۔ اب روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں۔
ہماری ساری منزلیں سو گئی ہیں، ہمار ے سارے راستے مرچکے ہیں۔ اب کسی کو نہیں معلوم وہ کیوں ہے، کیا ہے اور اسے جانا کہاں ہے؟ بس اندھیروں سے ٹکرا ٹکرا کر خود کو ہلاک کیے جارہے ہیں۔ اب ہم سب بن مانگے، بن چاہے دھتکار اور ذلت کے مارے لوگ ہیں، جن کی زندگی کی شروعات گالیاں سنتے سنتے ہوتی ہے اور اختتام بھی گالیاں سنتے سنتے ہوتا ہے۔
اصل میں ہوا یہ کہ ہمارے نام پر ایک ملک بنایا گیا اور جب ملک بن گیا تو پھر قابضین کا ارادہ دوسرا بن گیا، اسی لیے ہم سب صرف ''ضرورت'' بن گئے۔ اب جب بھی کسی کو ہمارے نام کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم فوراً یاد آجاتے ہیں۔ اکثر ہماری یاد پانچ سال بعد ہی آتی ہے اور جہاں ہماری ضرورت ختم ہوجاتی ہے ہم پھر سے ضرورت بن جاتے ہیں۔
مشہور شاعر ہائنے نے یورپ کے کوڑھیوں کی حالت کا بڑا دردناک نقشہ کھینچا ہے، وہ لکھتا ہے کہ ''یورپ میں پانچ چھ صدی پہلے کوڑھ ایک منحوس مرض سمجھا جاتا تھا اور جو بدنصیب اس بیماری میں مبتلا ہوجاتے تھے انھیں انسانوں کی آبادی سے خارج کردیا جاتا تھا، سماج ان کا بائیکاٹ کردیتا تھا اور وہ آبادی سے دور جنگل میں کسی غار کے اندر پڑے رہتے تھے۔ جب کبھی انھیں کھانے پینے کا سامان لینے کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ سر سے پاؤں تک ایک غلاف میں لپٹے ہوئے نکلتے تھے، ہاتھ میں ایک گھنٹی ہوتی تھی جسے بجاکر وہ اپنے آنے کا اعلان کرتے ہوئے گزرتے تھے تاکہ آدمی ان سے بچ کر ایک طرف ہوجائیں۔
ان کوڑھیوں میں بعض اعلیٰ فنکار بھی ہوتے تھے، جن کے شاہکاروں اور گیتوں کی ہر طرف دھوم مچی رہتی تھی، لیکن خود فنکار جنگل کے کسی کونے میں پڑا رہتا تھا اور کوئی اس کا پرسان حال نہ ہوتا تھا۔ میں اب بھی خواب میں کبھی کبھی ان غریبوں کی حالت دیکھتا ہوں کہ گویا وہ سر سے پاؤں تک ایک چادر میں لپٹے ہوئے آبادی میں سے گزر رہے ہیں، نقاب میں سے ان کی آنکھیں بے کسی اور بے بسی کے انداز میں ادھر ادھر دیکھتی ہیں اور کسی کو اپنا غم خوار نہیں پاتیں، پھر اچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے مگر ان کی گھنٹی کی آواز دیر تک میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے''۔
اب آپ ہی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتادیجیے کہ ہماری حالت کیا یورپ کے ان کوڑھیوں سے مختلف ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمیں بھی کوڑھیوں کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ہم سب بھی سماج کے ایک کونے میں پڑے گل اور سڑ رہے ہیں، اور ہم سے ملک کے طاقتور، بااختیار، خوشحال، کامیاب انسان ملنا تو دور کی بات، کوئی دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا ہے۔ کیا آپ کو اپنے گلے میں بندھی گھنٹی کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے؟ ہم اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم میں اور عہد وحشت کے لوگوں میں ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔
آج بھی ہمارے طاقتور، بااختیار لوگوں کے اندر درندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ درندے جو اپنے چین و سکون، آرام اور عیش و عشرت کی خاطر اپنے ہی جیسے لوگوں کو برباد کرنے پر اسی طرح راضی اور تیار ہوجاتے ہیں جیساکہ عہد وحشت میں ہوتے تھے۔ آج بھی وہ اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ علم اور تعلیمات انسان کو تبدیل نہیں کرسکیں، ورنہ انسان چیزوں اور عہدوں کی خاطر کیوں درندے اور بھیڑیے بنتے۔ لگتا ہے ساری تہذیب و تمدن، تعلیم، علم، سائنس، فلسفے غارت گئے، بے فائدہ رہے۔
لگتا ہے ان گنت لوگوں کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں۔ ورنہ انسانوں کے اندر بیٹھے درندوں اور بھیڑیوں کو موت نہ آگئی ہوتی اور ان کی جگہ انسانیت، قناعت، بزرگی نے نہ لے لی ہوتی۔ عظیم شاعر شیلے کی نظم Ozymandias کی مانند ہمیں ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہر چیز کا مقدر فنا ہوجانا ہے، مٹ جانا ہے۔
جب سکندراعظم 325 ق م میں شمال مغربی ہندوستان میں پہنچا تو اس نے پنجاب اور اس کے آس پاس مقامی بادشاہوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں، لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جوش وخروش پیدا کرسکے کہ وہ طاقتور شاہی نندا خاندان پر حملہ کرسکیں جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا، جو اب پٹنہ کہلاتا ہے، جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا، تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا اور ارسطو کے اچھے شاگرد کے طور پر اس نے خاصا وقت ہندوستانی فلسفیوں اور نظریہ سازوں (مذہبی اور سماجی) کے ساتھ پرسکون نشتیں منعقد کرنے میں گزارا۔ ایک زیادہ پرجوش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے فلسفیوں کے ایک گروہ سے پوچھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں؟
اس سوال کا اس نے درج ذیل جواب پایا ''بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں، آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں اپنے گھر سے اتنے میل ہا میل دور سفر کر رہے ہو، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مرجاؤ گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی''۔ دنیا بھر کے تمام انسانوں کا بس یہی مقدر ہے، اس کے علاوہ باقی سب جھوٹ، فریب اور دھوکا ہے، یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے، اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا۔