کوئی ہے جو بچوں کی بھی سنے

یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے بچوں کو تفریح کے لئے جو غیرملکی چینلز دے رکھے ہیں، اس سے ہماری آنے والی نسل تباہ ہو رہی ہے۔


میرشاہد حسین October 24, 2016
آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم کسی بھی طرح اپنی نسل کو میڈیا سے دور نہیں رکھ سکتے لیکن جو ممکن ہے وہ یہ کہ ہم انہیں صحت مند ماحول فراہم کریں۔

ایک وقت تھا جب پاکستان میں صرف ایک ہی چینل کی اجارہ داری تھی اور یہی وجہ تھی کہ پوری فیملی ایک ساتھ صرف اسی کو دیکھ کر خوش ہوتی تھی۔ اس میں بچوں کے لئے انکل سرگم اپنا پُتلی تماشہ دکھاتے تو بڑے بھی اسے دیکھ کر محظوظ ہوتے۔ نوجوانوں کے لئے کوئی ڈرامہ دکھایا جاتا تو اسے بچے بھی بہت شوق سے دیکھتے تھے۔ غرض خبروں سے لے کر تفریح تک ہر چیز ایک ہی ڈبے میں بند مل جاتی تھی جو رات 12 بجے قومی ترانہ کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ جاتی تھی۔

وقت بدلا تو ریموٹ کے ساتھ ہی کئی چینلز بھی میدان میں آگئے۔ اب مقابلہ کی دوڑ لگی تو ریٹنگ معیار بن گئی۔ اب اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی کہ کیا چیز دکھانا چاہیئے اور کیا نہیں دکھانا چاہیئے۔ بڑوں کو دیکھنے کے لئے ٹاک شوز کے چینلز مل گئے، تو خواتین کو دیکھنے کے لئے ڈراموں کے چینلز میسر آگئے۔ لیکن یہاں بچوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی اور وہ یہ کہ ان کا ایک بھی پاکستانی چینل تاحال نہیں ہے۔ جو چینل کارٹون دکھانے کے لئے کیبل نیٹ ورک پر آئے، کیونکہ اِس وقت جتنے بھی چینلز بذریعہ کیبل ہمارے گھروں پر آرہے ہیں وہ تمام غیر ملکی ہیں جس کی وجہ سے ان کی زبان اور ان کی ثقافت غیر محسوس انداز میں ہماری نسل میں اترنے لگی۔

حال ہی میں جب پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوا تو یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ بھارتی چینلز کو بند ہونا چاہیئے۔ اس سے قبل بھی یہ مطالبہ گاہے بہ گاہے زبان زد عام پر رہا لیکن شنوائی نہ ہوسکی۔ لیکن اس بار اس پر سختی کے ساتھ عمل کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں بڑوں کو بھی شکایت پیدا ہوئی تو بچوں کو اس سے بھی زیادہ شکایت ہوئی کیونکہ وہ ان کارٹونز کےعادی ہوچکے تھے۔ ہندی چینلز میں نشر ہونے والے کارٹونز کچھ تو بچوں کے پلے پڑ ہی جاتے تھے لیکن اب تو انگریزی میں کارٹون چل رہے ہیں، جو ان کی سمجھ سے باہر ہیں۔

بچوں کی تعلیم اور ان کی تفریح پر والدین ہزاروں نہیں لاکھوں خرچ کرتے ہیں لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے ان کو تفریح کے لئے جو غیرملکی چینلز دے رکھے ہیں، اس سے ہماری آنے والی نسل تباہ ہو رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی ہے۔ اچھے کارٹونز جب کمرشل کی صورت میں چل سکتے ہیں تو پھر چینل پر کارٹون اور ڈرامے کیوں نہیں بن سکتے؟ میری یادداشت کے مطابق پہلی بار اردو کارٹون یونیسف کے تعاون سے بنایا گیا جس میں مینا کا کردار تھا۔ بچوں کے لیے بنائے گئے ڈراموں میں 'عینک والا جن' بہت مقبول ہوا تھا۔

آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم کسی بھی طرح اپنی نسل کو میڈیا سے دور نہیں رکھ سکتے لیکن جو ممکن ہے وہ یہ کہ ہم انہیں صحت مند ماحول فراہم کریں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی نے بچوں کو تعلیم سے دور کردیا ہے۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ امریکہ میں پاکستان سے کہیں زیادہ چینلز موجود ہیں لیکن وہاں کتابوں کی اشاعت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا رجحان نہ پہلے کبھی تھا اور نہ ہی آج ہم پیدا کیا جاسکتا ہے۔ مجھے اس بات پر تعجب ہے کہ اکثر معروف اشاعتی پبلشرز یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کی کتابیں بڑوں سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بچوں کے لئے لکھنے کی جانب بڑے ادیب متوجہ نہیں ہوتے۔

فاطمہ ثریا بجیا نے اس بات کا اعتراف ٹی وی کے ایک شو میں کرتے ہوئے کہا کہ،
''اس معاملہ میں ہمیں اپنی کوتاہی تسلیم کرلینے میں لمحہ بھر کا بھی عذر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم سے بچوں کا حق ادا نہیں ہوا۔ ہم لوگ کچھ اپنی دوڑ میں، کچھ کام کرنے میں، کچھ شہرت کی خواہش میں لگ گئے لیکن یہ جو کچھ بنیادی قسم کے کام ہیں، قومی مسائل جو ہیں اس پر واقعی توجہ نہیں دی، میں خود اپنے آپ کو سب سے زیادہ قصوروار سمجھتی ہوں اس لیے کہ مجھے بچوں سے پیار بھی بہت ہے۔ میرے خیال میں ہمارے یہاں بہت اچھا اچھا لکھنے والے ہیں انہیں بھی اس (بچوں) کے میدان میں آنا چاہیے۔''


بوڑھے بزرگ ہمارا ماضی، نوجوان ہمارا حال اور بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ہمارے حال کے نوجوانوں نے ماضی کے بزرگوں سے ناطہ توڑ رکھا ہے اور بچے جو ہمارا مستقبل ہیں، ان پر ہماری کوئی توجہ نہیں۔ آنے والا کل ہم سے یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ہمارے کھیل کے میدان ختم کردو گے تو ہم کہاں کھیلیں گے؟ اور جب کسی کا شیشہ ٹوٹتا ہے تو وہ شور کیوں کرتا ہے؟ ہمیں پڑھنے کو بچوں کے رسائل نہیں دو گے تو پھر ہم کیا پڑھیں گے؟ پھر ہم سے یہ شکایت کیوں کرتے ہیں کہ ہم پڑھتے نہیں ہیں۔ آپ نے ہمیں دیا ہی کیا ہے جو ہر وقت شکایت کرتے ہیں؟ ہے کسی کے پاس کوئی جواب ؟؟؟؟؟ کم از کم میرے پاس تو نہیں ہے۔

[poll id="1251"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں