پولیو سے پاک پاکستان کا ہدف بہت جلد حاصل کرلیں گے

حکومتی و شعبۂ صحت کے ماہرین کی پولیو کے عالمی دن  کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو


Express Report October 24, 2016
حکومتی و شعبۂ صحت کے ماہرین کی پولیو کے عالمی دن  کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

لاہور: پولیو ایک انتہائی موذی مرض ہے ۔ پولیو وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی اندرونی بافتوں پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی وجہ سے پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں اور اس کے نتائج معذوری کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ پولیو پہلے صرف برطانیہ اور یورپ تک محدود تھا البتہ 1950ء کی دہائی میں اس مرض نے وباء کی صورت اختیار کرلی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس مرض کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر اقدامات کیے گئے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کہ زیادہ تر ممالک پولیو کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت پولیو سے متاثرہ ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان شامل ہے اور پولیو کا خاتمہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پولیو کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کی ساتھ متاثر ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے تمام مسافروں کو پولیو کے قطرے پینے کے تصدیقی سرٹیفکیٹ کے بغیر روانگی کی اجازت نہیں ملتی۔پولیو جیسے خطرناک مرض کے خاتمے کے لیے حکومت سمیت متعدد عالمی ادارے یہاں کام کررہے ہیں اور اس مرض کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ''پولیو کے عالمی دن '' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی نمائندے و شعبہ صحت کے ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر رانا محمد صفدر
( کوآرڈینیٹر، پولیو ایریڈیکشن پاکستان 'وزارت صحت)
پاکستان میں پولیو وائرس کے خلاف جاری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیاں انتہائی حوصلہ افزا ہیں جو کہ پولیو پروگرام کے اب تک کے دورانیے میں آج سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں البتہ پولیووائرس کی منتقلی سے متاثرہ علاقوںمیں پیدا ہونے والی کمی کے باوجود ان علاقوں سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے حاصل کردہ نتائج میں پائیداری اور مزید بہتری پیدا کرنا ہو گی۔پانچ سال سے کم عمر کے10 لاکھ بچوں کے متناسب صرف 0.5 فیصد پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں، یہ تناسب ملک میں پولیو کے خلاف جاری جدوجہد کے لیے انتہائی خوش آئند ہے۔

پولیو وائرس کا جنیاتی تنوع اس وقت انتہائی کم سطح پر ہے جو ملک میں وائرس کے پھیلاؤ میں پیدا ہونیوالی بڑی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔وائرس کی منتقلی کو روکنے کیلئے اے ایف پی اور ماحول میں وائرس کی موجودگی کی مسلسل نگرانی کے عمل کو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔پاکستان میں رواں سال بھرپور پولیو مہم چلائی جارہی ہے۔ قومی سطح پرکی جانے والی ہر پولیو مہم میں3کروڑ 70لاکھ سے زائد بچوں اورہرذیلی قومی مہم میں 2 کروڑ سے زائد بچوںکو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جارہے ہیں۔



پولیو سے بچاؤکے قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے بچوں کی تعداد میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ ایسے بچوں کی تعداد سال 2014ء میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 25 فیصد اور اب سال 2016ء کے نصف عرصے میں یہ تعداد کم ہو کر 4 فیصد رہ گئی ہے۔علاوہ ازیں پولیو سے متاثرہ اضلاع میں جن بچوں نے کبھی بھی پولیو سے بچاؤکے قطرے نہیں پیئے، ان کی تعداد کا تناسب بھی 2014ء میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 9 فیصد سے کم ہو کر سال 2016ء میں تقریبا صفر فیصد رہ گیا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کی قیادت میں پاکستان سے پولیو کے خاتمے کے پروگرام کو ہر سطح پر سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔حال ہی میں انسداد پولیو کے لیے قومی سطح پر کی جانے والی منصوبہ بندی پر مشتمل دستاویز، حکومت کی جانب سے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان کی توثیق کے نتیجے میں وضع کئے گئے اہداف و مقاصد کے حصول کے عمل میں مزید پختگی آئی ہے۔ پولیو کے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان کے تحت پروگرام سے متعلق انتظامی امور کی نگرانی،احتساب کے عمل اور رسک مینجمنٹ میں مزید بہتری آئی ہے۔ ملک سے پولیو کے خا تمے کیلئے کوشاں ہزاروں صحت محافظ کارکنان کی کوششوں اوراپنے بچوں کی صحت یابی کے حصول کے لیے والدین کے عزم اور تعاون کی بدولت پولیو کے خاتمے کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

موجودہ حکومت پوری سنجیدگی کے ساتھ پولیو وائرس کے تدارک کیلئے دن رات کام کررہی ہے، وزیراعظم سے لے کرعام پولیوورکرتک سب کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے انسداد پولیو پروگرام کوسٹرٹیجک بنیادوں پرازسرنو تشکیل دیا ہے۔ اس مہم میں پاک فوج، سول سوسائٹی،علماء اور میڈیا کی مدد بھی حاصل کرلی ہے جبکہ ہائی رسک ایریاز میں خصوصی ہیلتھ کیمپس بنائے گئے ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اضلاع کے داخلی اورخارجی راستوں پر ویکسینیشن پوسٹیں بھی قائم کی گئی ہیں جبکہ ملک بھرکے 43 علاقوں سے پولیوکے پھیلاؤ کا باعث بننے والے پانی کے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں ۔

وفاقی حکومت کی کوششوں اور موثر اقدامات کے باعث اب ہم پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ گذشتہ سال کی نسبت رواں سال پاکستان میں پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر پولیو کے کل15کیسز رجسٹرڈ ہوئے ۔ پاکستان میں گزشتہ 6 سالوں کے دوران پولیو سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اتار چڑھاؤ رہا ہے۔گزشتہ 6 سالوں کے دوران 2014ء میں سب سے زیادہ پولیو کے306 مصدقہ کیسز سامنے آئے تھے جس میں سب سے زیادہ فاٹا میں 179،خیبر پختونخوا میں 68،سندھ میں 30،بلوچستان میں 25 جبکہ پنجاب میں 4 پولیو کے مصدقہ کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ 2011ء کے دوران پولیو کے کل 198 مصدقہ کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔

جس میں سے پنجاب میں 9،سندھ میں 33،خیبر پختونخوا میں 23،فاٹا میں59 جبکہ بلوچستان میں 73 پولیو کے مصدقہ کیسز سامنے آئی۔2010 ء میں پولیو کے کل 144مصدقہ کیسز رجسٹرڈ ہوئے جس میں سے پنجاب میں 7، سندھ میں 27،خیبر پختونخوا میں 26، فاٹا میں 72جبکہ بلوچستان میں کل 12 پولیو کے مصدقہ کیسز سامنے آئے۔گزشتہ برس 2015ء کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر پولیو کے کل 54 مصدقہ کیسز سامنے آئے جس میں پنجاب میں 2،سندھ میں 12، خیبر پختونخوا میں17،فاٹا میں 16 جبکہ بلوچستان میں پولیو کے 7 مصدقہ کیسز سامنے آئے۔

اسی طرح 2009ء کے دوران پاکستان میں پولیو کے کل 89 مصدقہ کیسز، 2012ء کے دوران 58 کیسز جبکہ 2013 کے دوران مجموعی طور پر پولیو کے 93 مصدقہ کیسز سامنے آئے ۔گزشتہ سال ملک میں پولیو کے 54 کیسز سامنے آئے جبکہ رواں سال اب تک محض 15 کیسز سامنے آئے ہیں۔پولیو مہم میں حالیہ کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف مستقل بنیادوں پر پولیوسے بچاؤ کے قطرے پلارہے ہیں بلکہ پولیو قطروں سے محروم رہنے والے بچوں کوتلاش کررہے ہیں تاکہ کوئی بچہ ویکسین سے محروم نہ رہ جائے۔پاکستان میں پولیو کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ سازشی عناصر کی طرف سے پھیلائی جانے والی مختلف افواہیں اور شکوک وشبہات ہیں جن کی بنیاد پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے پر پابندی لگادی گئی۔

،اس سے اڑھائی لاکھ سے زیادہ بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ گئے جبکہ پاکستان کے تمام صوبوں کے دیہات اور دور دراز علاقوں میں بھی لوگ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کرتے رہے تاہم آپریشن ضرب عضب کے بعد ان دور دراز علاقوں اور قبائلی علاقوں میں پولیو ویکسین کی رسائی ممکن ہوئی۔حکومتی اقدامات کے نتیجے میں عالمی ادارے پولیو کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کوششوں کے معترف ہیں۔حکومت نے پولیو کے خاتمے کیلئے ایمرجنسی ایکشن پلان تیارکرکے پورے ملک میں نافذ کیا ہے۔

پولیو کے حوالے سے پاکستان پر عائد سفری پابندیاں عارضی ہیں ،جو جلد ہٹالی جائیں گی لیکن یہ بات طے ہے کہ پولیو ویکسینیشن کارڈ کے بغیر بیرون ملک سفری پابندی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا۔ پولیو وائرس کے خاتمے کیلئے ہم سب کو ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے جب تک حکومت کے ساتھ سول سوسائٹی، خواتین، یوتھ اور میڈیا کی شمولیت نہ ہو، پولیو سے پاک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔رواں سال کے دوران تین کروڑ 70 لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین کی فراہمی کا ہدف دیا گیا تھا جس کے حصول کیلئے کوششیں جاری ہے۔ سردیوں کے دوران پولیو کی ویکسین زیادہ موثر ہوتی ہے لہٰذا اس دوران موثر انداز میں ویکسین کی مہم کو تیز کیا جائے گا اور اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے مہینے میں پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کے لیے مزید تین مہم چلائی جائیں گی۔

ڈاکٹر شہاب ہاشم
(سینئر پروگرام آفیسریونیسیف )
حکومت پاکستان نے ملک سے پولیو کے خاتمہ کیلئے موثر کوششیں کی ہیں تاہم اس کے باوجود ابھی تک مکمل طور پر پولیو کا خاتمہ تو نہیں ہوسکا لیکن اس کے قریب ضرور پہنچ چکے ہیں۔جس طرح گزشتہ سال کی نسبت رواں سال پولیو کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے اس پر حکومت،وزارت صحت، پولیو کے لیے کام کرنے والے تمام حکومتی و سماجی ادارے ،علماء اورمیڈیا سب خراج تحسین کے مستحق ہیں تاہم ہمارا اصل ہدف ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ ہے اس کیلئے ہمیں جنگی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان سے پولیو وائرس ختم نہ ہونے کی بنیادی وجہ دیہات اور دور دراز علاقوں کے لوگوں میں پایا جانے والا منفی تاثر ہے، ہمیں اس تاثرکو ختم کرنا ہوگا ۔ اس ضمن میں پولیو ورکرز کے ساتھ علماء کے کردار کو بھی زیادہ موثر بنایا گیا ہے،حکومت نے علماء کا ایڈوائزی گروپ بنایا ہے ۔دنیا کے کسی عالم دین نے پولیو ویکسین کے خلاف فتویٰ نہیں دیا بلکہ علمائے کرام نے پولیو پروگرام کی مکمل حمایت کی ہے اور اس تاثر کو غلط ثابت کیا ہے کہ علماء پولیو ویکسین کے خلاف ہیں۔عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان نے اس ضمن میں کتابچہ بنایا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کے فتوے شامل ہیں ۔ پولیو ورکرز ویکسینیشن مہم کے دوران اس کے ذریعے عام لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شریف استوری
(سربراہ شعبہ انتقال خون پولی کلینک ہسپتال)
پولیو ایک موذی مرض ہے جس کے خاتمے کا واحد حل یہ ہے کہ ہر پانچ سال تک کے بچوں کو وقت پر پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جائیں۔پولیو وائرس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج دنیا بھر کے125 ممالک میں سے صرف تین ملکوں میں پولیو وائرس باقی رہ گیا ہے جن میں پاکستان،افغانستان اور نائیجیریا شامل ہیں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں سب سے زیادہ پولیو کے کیسز سامنے آتے ہیں۔یہ باعث شرمندگی ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کے لیے ویکسینیشن کارڈ ضروری قرار دیا گیا ہے اوراس کے بغیر کوئی بھی شخص بیرون ملک سفر نہیں کرسکتا۔ ایک بات خوش آئندہ ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال پولیو کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے حکومتی سطح پر بہترین کام ہورہا ہے اور موجودہ ملکی حالات میں اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے۔دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ پولیو ورکرزپر جان لیوا حملہ کیا جائے یا انہیں قتل کیا جائے ۔انہی حرکتوں کے باعث آج پاکستان ان تین ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں جہاں یہ وائرس موجود ہے۔پولیو وائرس کوئی نیا مرض نہیں بلکہ یہ وائرس تو بیسویں صدی میں پھیلا تھا جس کے بعد اس نے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کیا لیکن اب یہ ترقی پزیرممالک کوگھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پاکستان اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جہاں دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس مرض پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکاہے۔اس کی دوسری بڑی وجہ لوگوں کے ذہنوں میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے پائے جانے والے مختلف شکوک وشبہات اور منفی تاثرہے۔پولیو کے قطروں سے متعلق کہا گیا کہ اس میں سور کی چربی استعمال ہوتی ہے،اس سے مردانہ کمزوری پیدا ہوتی ہے اور اس میں الکوحل شامل ہوتا ہے ۔



یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ یہ ویکسین غیر مسلم ممالک میں تیار کی جاتی ہے اس لیے اسے پلانا حرام ہے۔ اس کے علاوہ یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ٹریس کیا جاتا ہے اورخاص طور پر اسامہ بن لادن کے بارے میں کہاگیا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے انہیں پولیوسے بچاؤ کے قطرے کے ذریعے ٹریس کیا۔ انہی افواہوںکے نتیجے میںکئی علاقوں میں پولیو کے قطروں پر پابندی عائد کی گئی حالانکہ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں موجود اس منفی تاثر کو ختم کرنے کیلئے علماء کرام کی بھر پور خدمات حاصل کی جائیں تاکہ وہ عام لوگوں کو موثر انداز میں پولیو ویکسین سے متعلق آگاہ کریں اور پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کیلئے قائل کریں۔ حکومت پاکستان ، مسلم ممالک سے بھی ویکسین حاصل کرسکتی ہے تاکہ لوگوں کو اعتماد مل سکے کہ یہ حلال ہے اور مسلم ممالک کی تیار شدہ ہے۔ اس طرح بچوں تک اس ویکسین کی رسائی باآسانی ہوسکتی ہے اور منفی پراپیگنڈہ بھی ختم ہوجائے گا۔

ڈاکٹر سرور ملک
( انڈوکرینولوجسٹ )
پولیو وائرس سے متاثرۃ شخص کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی دوا۔یہ انسان کے اعصابی نظام کو مفلوج کردیتا ہے اور بعض کیسز میںیہ جان لیوا بھی ثابت ہوتاہے۔ ہمیں اس کے علاج سے زیادہ حفاظتی اقدامات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے لازمی ہے کہ پانچ سال تک کے ہر بچے کی ویکسینیشن کی جائے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ جب تک تمام بچوںکو حفاظتی قطرے نہیں پلائے جائیں گے یہ وائرس ختم نہیں ہوگا۔

پاکستان میں پولیو ویکسین بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے اور گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ نہ صرف بچوں کو یہ قطرے پلانے سے انکار کرتے ہیں بلکہ پولیو ورکرز پر حملہ بھی کرتے ہیں حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں والدین خود بچوںکوہسپتال لے جاکران کی ویکسینیشن کرواتے ہیں۔

بدقسمتی سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ پولیو ویکسین میں سورکی چربی اور الکوحل شامل ہے یا اس کے استعمال سے بانچھ پن ہوجاتا ہے حالانکہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ صرف منفی پراپیگنڈہ ہے۔پولیو کی کل تین اقسام ہیں جن میں سے دو کا دنیا سے خاتمہ ہوچکا ہے جبکہ ایک قسم ابھی باقی ہے جو پاکستان اور افغانستان میں پائی جاتی ہے ۔ ملک سے پولیو کے خاتمے کیلئے حکومت اور عالمی ادارہ صحت کی کوششوں کو سراہتے ہیں، آج انہی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب ہے۔

ڈاکٹر عمر فاروق
(ماہر صحت)
پولیو کے خاتمے کیلئے ہمیں حفاظتی اقدامات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں قبل از وقت حفاظتی اقدامات کے بجائے علاج معالجے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک خاص طور پر یورپی ممالک میں حفاظتی اقدامات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے کیونکہ یہ طریقہ کار نہ صرف مرض کو روکنے میں موثر ثابت ہوتا ہے بلکہ اس پر علاج کے مقابلے میں خرچ بھی کم آتا ہے۔ پولیو مہم کو موثر بنانے کیلئے پولیو ورکرزکی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی کاؤنسلنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ موثر انداز میں لوگوں کو پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کیلئے قائل کر سکیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ دیہاتوں میں پولیو ویکسین کو حرام سمجھا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک پولیو ورکر کسی دیہاتی خاتون کواس کے بچے کی پولیو ویکسینیشن کے حوالے سے قائل کررہا ہے مگر وہ بدستور انکار کررہی ہے۔پولیو ورکر اس عورت کو قائل کرنے کے لیے کہتا ہے کہ یہ ویکسین انتہائی مہنگی ہے جو حکومت کی جانب سے بچوں کو اس لئے مفت پلائی جاتی ہے تاکہ وہ زندگی بھر معذور ہونے سے بچ جائے۔ اس کے جواب میں عورت بچے کو قطرے پلوانے کے بجائے مطالبہ کرتی ہے کہ ان قطروں کی قیمت کے مطابق اسے رقم فراہم کردی جائے اور وہ قطرے پلانے پر رضامند نہیں ہوئی۔

اس سوچ کے پیچھے وہی منفی پراپیگنڈہ ہے جس نے ان کے ذہنوں کو خراب کیا ہے لہٰذا ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں پولیو وائرس کا خاتمہ اس وقت ہی ممکن ہے جب تمام بچوں تک پولیو ویکسین کی رسائی ہو اور انہیں بروقت ویکسین فراہم کی جائے۔ پولیو ویکسین کے حوالے سے پائے جانے والے منفی تاثر کو ختم کرنے کیلئے جہاں علماء اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں میڈیا کے ذریعے بھی بہترین طریقے سے عام لوگوں میں آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ اگر ہم صحیح معنوں میں ملک سے پولیو کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس میں حکومت،سول سوسائٹی،علماء ، میڈیا اور تمام سٹیک ہولڈرز کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک سے اس مرض کا خاتمہ ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں