جولائی تا ستمبر وفاق182توانائی منصوبوں میں سے صرف2 کیلیے فنڈز جاری کر سکا

منصوبوں کیلیے ایک کھرب 30 ارب روپے مختص مگر 2پروجیکٹس کیلیے محض 6کروڑ92لاکھ روپے کے فنڈ جاری کیے گئے


اظہر جتوئی October 24, 2016
منصوبوں کیلیے ایک کھرب 30 ارب روپے مختص مگر 2پروجیکٹس کیلیے محض 6کروڑ92لاکھ روپے کے فنڈ جاری کیے گئے،وزارت منصوبہ بندی کی دستاویزات فوٹو: فائل

KARACHI: وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران توانائی کے منصوبوں کیلیے فنڈز کے اجرا کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، پہلی سہ ماہی میں توانائی کے 182منصوبوں میں سے صرف 2 منصوبوں کیلیے فنڈز کا اجرا کر دیا جبکہ 180 منصوبوں کیلیے کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے بھی ناکام ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں جن منصوبوں کو فنڈز کا اجرا نہیں کیا گیا ہے ان میں اہم منصوبے دیامر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، گولن ہائیڈروپاور، ایل این جی پاور منصوبے سمیت دیگر شامل ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی کے دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال 2016-17 کیلیے وزارت پانی و بجلی توانائی سیکٹر کیلیے 182منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے اور ان منصوبوں کیلیے ایک کھرب 30 ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کیے گئے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے پہلی سہ ماہی کے دوران توانائی کے منصوبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور صرف 2 منصوبوں کیلیے 6 کروڑ 92لاکھ روپے کے فنڈز جاری کیے ہیں۔

ان منصوبوں میں پش زئی گریڈ اسٹیشن کوئٹہ کیلیے 3 کروڑ 92لاکھ روپے جبکہ ڈیپ سی گوادر کے 132کے وی منصوبے کیلیے 3 کروڑ کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ توانائی کے دیگر 180منصوبوں کیلیے پہلی سہ ماہی کے دوران کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق جن منصوبوں کیلیے فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں۔

ان میں 4500میگاواٹ کے دیامر بھاشا ڈیم منصوبہ، داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، منگلا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، گولن گول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ،منگلا پاور اسٹیشن اپ گریڈیشن، تربیلا فور توسیعی ہائیڈرو پاور منصوبہ، وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن، چترال ہائیڈرو پاور اسٹیشن، 1200میگاواٹ ایل این جی بیس پاور پلانٹ بلوکی، 1200میگاواٹ ایل این جی بیس پاور پلانٹ حویلی بہادر شاہ سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں