کسی کو نہیں بخشا جارہا ٹارگیٹ کلنگ سیریل کلنگ بنتی جارہی ہے

اس سال فرقہ وارانہ قتل کے7 واقعات ہوئے، جن میں 52افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ 168 زخمی ہوئے۔


Naveed Jaan/Rokhan Yousufzai December 16, 2012
اس سال فرقہ وارانہ قتل کے7 واقعات ہوئے، جن میں 52افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ 168 زخمی ہوئے۔ فوٹو : فائل

گذشتہ چند سال کے دوران خیبرپختون خوا کے کئی شہروں اور علاقوں میں ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں کئی سیاست دانوں اور پولیس افسران کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ قبائلی علاقوں میں امن کمیٹیوں اور امن لشکروں کے سربراہوں سمیت ملکان، علماء کرام، صحافیوں اور عمائدین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین کے مطابق صوبے میں پولیس اور سیاست دانوں کو ٹارگیٹ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سال فرقہ وارانہ قتل کے7 واقعات ہوئے، جن میں 52افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ 168 زخمی ہوئے۔ ان کے بقول آئی جی پی کی بریفنگ کے مطابق گذشتہ سال کی نسبت اس سال پولیس اہل کاروں پر حملوں کے دوران ہلاکتوں کی شرح میں 49 فی صد، جب کہ سویلین کی ہلاکتوں میں 45 فی صد کمی ہوئی۔ خود کش حملے بھی 37 فی صد کم ہوئے، جب کہ 29 فی صد حملوں کو ناکام بنایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں 30 فی صد کمی ہوئی ہے، تاہم رہزنی کے واقعات میں 13 فی صد اضافہ ہوا، جب کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔خیبر پختون خوا میں ٹارگیٹ کلنگ کا سلسلہ 2006ء سے عروج پر ہے۔ اس سلسلے میں بہادر آفیسر عابد علی کو 17 دسمبر 2006ء کو ڈی آئی خان سے بنوں آتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ دسمبر 2007ء میں آئی جی پی ملک سعد، صفدر باغی اور دیگر کو قصہ خوانی میں ایک خودکش دھماکہ میں نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران 2009ء میں ممبر صوبائی اسمبلی عالم زیب خان کو شہید کر دیا گیا۔ 2010ء میں ڈی ایس پی گلفت حسین ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔2011ء میں کوہاٹ کے ڈی ایس پی رشید، ایس پی رورل خورشید اور 28 اکتوبر 2011ء کو ایچ ایس او رسالپور اجمیر خان کو ڈرائیور سمیت ایک خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا، اس طرح سپیشل برانچ کے اے ایس آئی جاوید بھی شدت پسندوں کے نشانے پر رہے۔ صوبائی وزیراطلاعات ونشریات میاں افتخارحسین کے اکلوتے صاحب زادے میاں راشدحسین کوپبی بازار میں نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں وہ شہید ہوگئے۔

دو ہزار گیارہ میں خیبر پختون خوا کے صوبائی وزیر تعلیم سردار حسین بابک پر بونیر میں نامعلوم افراد نے فائر نگ کی، جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے۔ صوبے کے معروف ماہرنفسیات اور مذہبی اسکالر ڈاکٹر فاروق خان بھی ٹارگیٹ کلنگ میں شہید کیے گئے۔ اس دوران امن لشکر کے سربراہ فہیم خان پر متعدد حملے کیے گئے۔ آخر کار وہ بھی شدت پسندوں کا شکار ہوئے۔ پشاور ہی میں صحافی نصراللہ آفریدی کو موٹر کار میں آئی ای ڈی نصب کرکے نشانہ بنایا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی راہ نما حنیف جدون کو پچھلے سال عیدالفطر کے موقع پر بھکاری کی شکل میں خودکش حملہ آور نے شہید کردیا۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کے آئی جی پی صفوت غیور کو ایف سی چوک پشاور میں خودکش حملہ آور نے شہید کر دیا تھا۔

2012ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اپریل 2012ء میں ایس پی رورل عبدالکلام بھی جاں بحق کردیے گئے۔ 2012ء میں ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے اہم افراد کی تفصیل اس طرح ہے: 2 جنوری کو جمعیت علمائے اسلام کے مقامی راہ نما اور سابق ناظم حاجی محمد عظیم شہید کردیے گئے، 4 جنوری کو ٹانک کے علاقے میں مقامی امن کمیٹی کے سربراہ عمر گل بھی قتل کردیے گئے، 9 جنوری کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے محسود قبائل کے رہنماء شیر محمد کو ڈیرہ اسماعیل خان میں قتل کر دیا گیا۔ 17 جنوری کو وائس آف امریکا کے نمائندے مکرم خان عاطف کو شب قدر میں گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ 20 جنوری کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک اہم شخصیت کو بخشی پل کے قریب مارا گیا، 23 جنوری کو لکی مروت میں حاجی نور محمد، نورنگ میں صاحب زادہ داؤد احمد اور مردان کے علاقے پار ہوتی میں پولیس وین پر فائرنگ کی گئی جس میں دو پولیس اہل کار جاں بحق ہوئے، 28 جنوری کو جہانگیر نامی پولیس کانسٹیبل کو ڈیرہ اسماعیل کے علاقے گرڈ روڈ پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ 13 مئی کو مولانا سید محمد محسن شاہ، جو لکی مروت کے ضلعی امن جرگہ کے سربراہ بھی تھے، کو نشانے پر رکھا گیا اور اس طرح 30 ستمبر کو دیر کے علاقے واڑی میں اے ایس آئی امین الرحمن کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کر دیا۔

اسی طرح سوات میں بھی ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعے کئی اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا، سوات میں اکا دکا واقعات کے بعد 2006ء میں ٹارگیٹ کلنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ راہ نما افضل خان لالہ اور ان کے بھتیجے سابق تحصیل ناظم عبدالجبار خان کو نشانہ بنایا گیا، جس میں دونوں شدید زخمی ہوئے، جب کہ ان کے دو محافظ جاں بحق ہو گئے۔ اسی طرح صوبائی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایوب خان اشاڑی کے بھانجے کو 2007ء میں قتل کردیا گیا۔ اے این پی مٹہ کے صدر مظفر علی خان اور ان کے بھائی مختیار علی خان کو ٹارگیٹ کیا گیا اور دونوں شہید ہو گئے۔ سوات میں ٹارگیٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات حاجی سردار علی خان، جماعت اسلامی کے اہم رکن محمد نصیر اور جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے ناظم یو سی کبل محمد حسین بھی نشانے پر رہے۔ اسی طرح اہل سنت و الجماعت سوات کے سربراہ مولانا سمیع اللہ، تحریک انصاف کے سابق امیدوار صوبائی اسمبلی محمد امین اور تحریک انصاف ہی کے یو سی ناظم شیر خان کو قتل کیا گیا، پھر علاقے کی اہم شخصیات پیر سمیع اﷲ، عبدالکبیر خان اور صاحب زادہ ایڈووکیٹ بھی ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمشیر علی خان بھی ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعے شہید کردیے گئے تھے۔ 18 فروری 2008ء کو ایک ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی موسی خان خیل سمیت دیگر مقامی صحافیوں شعیب خان اور عبدالعزیز کو قتل کردیا گیا۔ ٹارگیٹ کلنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے سوات کانٹی نیٹنل ہوٹل کے مالک لیاقت علی خان کو بھی نگل لیا۔ یہ واقعہ 2012ء میں پیش آیا اور 2012ء ہی میں آل سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم وہ اس واقعے میں شدید زخمی ہوئے۔ 9 اکتوبر 2012ء کو فروغ کے تعلیم کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ اور امن ایوارڈ حاصل کرنے والی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں ملالہ اور ان کی دو ساتھی طالبات شازیہ اور کائنات شدید زخمی ہوگئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں