تحریک انصاف کی ترجیحات کیا ہیں

پاکستان تحریکِ انصاف کو بنے ہوئے تقریباً 18 برس ہو چکے ہیں


Dr Mansoor Norani October 26, 2016
[email protected]

پاکستان تحریکِ انصاف کو بنے ہوئے تقریباً 18 برس ہو چکے ہیں۔ اِتنے طویل عرصے میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے طور طریقوں، اپنے کردار اور طرز عمل سے اپنے لیے کوئی نظریہ یا منشورضرور ترتیب دے لیتی ہے جو اُس جماعت کی پہچان بن جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب تیسری دنیاکے ملکوں میں بڑی طاقتوں کی سرد جنگ کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں سرخ اور سبز رنگ کی لڑائی لڑا کرتی تھیں اور ایک مخصوص نظریے کے تحت الیکشن میں جایا کرتی تھیں، لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کا کوئی مخصوص نظریہ باقی نہیں رہا۔ بس دورِحاضر ہی کے مسائل اور واقعات کے تحت پالیسیاں اور حکمتِ عملیاں ترتیب دی جانے لگیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف بھی چونکہ ایسے ہی دور کی پیداوار ہے اِس لیے اُس کی کوئی خاص پہچان اور شناخت وضع نہیں ہو پائی۔ وہ نہ انتہا پسند مذہبی نظریات رکھنے والی پارٹی بن پائی اور نہ ماڈرن، لبرل اور ترقی پسند جماعت بن پائی۔ خان صاحب ویسے تو اپنی تقریروں اور بیانوں میں اسلام سے اپنی محبت اور لگاؤکے اظہار میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ رقص و موسیقی کے استعمال کے ذریعے بھی نئی نسل کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

ہمارے یہاں سیاسی جلسوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا اختلاط اور رقص و موسیقی کا باقاعدہ انتظام اُنہی کا ایجادکردہ ہے۔ اِس سے پہلے پی پی پی کے جلسوں میں ہلکی پھلکی موسیقی ضرور ہوا کرتی تھی لیکن اِس بھرپور اور منظم طریقے سے نہیں۔ اِسی لیے اگر یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ اُصولوں اور نظریات کے طور پر تحریکِ انصاف کسی خاص نظریہ کی پارٹی نہیں ہے۔ وہ موقع اور حالات کی رو میں بہہ جانے والی ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کا کوئی اُصول اور نظریاتی اساس نہیں۔

دہشتگردی کے حوالے سے وہ کبھی طالبان کی بہت بڑی حامی اور ہمدرد رہی ہے اور اُن کے خلاف کسی بھی قسم کے فوجی ایکشن کی بھرپور مخالفت کرتی رہی ہے۔ خان صاحب اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ جب آپ بلا امتیاز کسی کے گھر تباہ کریں گے اور کسی کے خاندان اور بچے ماریں گے تو جواب میں وہ بے چارہ کیا کرے گا، دہشتگرد اور خودکش حملہ آور ہی توبنے گا۔ اِسی لیے وہ طالبان سے بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کے پرزور حامی تھے۔ بلکہ وہ طالبان کو اپنا دفتر بھی کھول دینے کی اجازت بھی دینا چاہتے تھے۔

یہ اور بات ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد حالات اور وقت کو دیکھتے ہوئے وہ طوعاً وکرہاً ضرب ِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کو قبول کرنے پر رضامند ہو گئے، مگر وہ آج بھی طالبان سے اپنی ہمدردیوں کو چھپا نہیں پاتے۔ خیبر پختون خوا کے سالانہ بجٹ میںایک ایسے مدرسے کو تیس کروڑ کی گرانٹ دینا جو پسِ پردہ طالبان کی افزائش اور پرورش کرتا رہا ہے اُن کے اِسی جذبہ ہمدردی کو ظاہر کرتی ہے۔

تحریکِ انصاف کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد عمران خان نے کئی سال تک صرف صاف ستھرے کردارکے لوگوں کو پارٹی میں شامل کرنے کی پالیسی اپنائی اور کسی ایسے شخص کو اپنے ساتھ نہیں ملایا جس کا دامن کسی بھی قسم کی کرپشن سے داغدار تھا، مگر 2011ء کے بعد اُنہوں نے اچانک رویہ اور پینترا بدل ڈالا اور ہر کسی کو پارٹی میں لینے پر رضامند دکھائی دینے لگے۔ کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی سے نکل کر یا اختلاف کر کے آنے والا ہر شخص اُنہیں اچھا، نیک اور پارسا دکھائی دینے لگا جو یہاں آ کر اُنہیں مضبوط اور توانا بنا سکے، خواہ اُس کے کردار پر ماضی میں کتنے ہی سوال اُٹھائے گئے ہوں۔

رفتہ رفتہ اُن کی پارٹی ایسے لوگوں سے بھر گئی جو تحریکِ انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو بروقت بھانپ کر موقعہ پرستی اور مفاد پرستی کے تحت اُس میں شامل ہو گئے۔ اب خان صاحب کا نہ تو کو ئی نظریہ قائم رہا اور نہ کوئی پالیسی۔ جو جتنا بڑا مالدار اور بااثر ہو گا وہی پارٹی میں بھی معزز اور محترم کہلائے گا۔ کم پیسے والے، غریب اور باکردار لوگوں کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہو گی۔ ہاں ایسے لوگ اگر خاموش رہتے ہوئے خان صاحب کے ہر فیصلے پر بلا چوں چرا ہاں میں ہاں ملاتے رہے تو پارٹی میں شامل تصورکیے جائیں گے ورنہ اُن کاحال بھی مخدوم جاوید ہاشمی یا جسٹس وجیہہ الدین سے مختلف نہیں ہو گا۔

اِسی اُصول پر دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی تعلقات استوار کیے جانے لگے۔ جس کسی سیاسی جماعت نے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کیا تو تحریکِ انصاف اُسے اپنا دشمن تصورکرے گی اور وہ چور اورکرپٹ کہلائے گی لیکن اگر یہی جماعت آج تحریکِ انصاف کا ساتھ دینے لگے تو اُس کا ماضی میں کیا گیا ہر جرم معاف کر دیا جائے گا۔

انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے بھی یہی اُصول اپنایا گیا۔ پارٹی کے مالدار لوگوں نے اپنے اپنے لوگ منتخب کروا لیے۔ الزامات کے بعد تحقیقاتی کمیشن ضرور قائم کیا گیا لیکن اُس کی تجاویز پر عملدرآمد تو کجابلکہ کمیشن کے سربراہ ہی کو پارٹی سے بیدخل کر دیا گیا۔ یہی حال خیبر پختون خوا کے احتسابی کمیشن کا ہوا۔ جس چیئرمین نے صوبائی حکومت کے کچھ وزیروں کی کرپشن کی نشاندہی کی اُسے ہی اپنے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ پارٹی میں نئے الیکشن گزشتہ چھ سات ماہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

تحریک انصاف کے اندر متوقع دھڑے بندیوں سے بچنے کے لیے پارٹی الیکشن ملتوی کر دیے گئے مگر بہانہ ''پانامہ لیکس'' کو بنایا گیا۔ کہا گیا کہ چونکہ پارٹی اِس وقت ایک بڑے مقصد اور کاز کے لیے حکمرانوں سے جنگ میں ملوث ہے لہٰذا پارٹی الیکشن نہیں کروائے جا سکتے۔ یہ جنگ نجانے کب تک چلے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ گویا جب تک یہ جنگ ختم نہیں ہوتی پارٹی کے اندر نئے الیکشن کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔ اِس طرح انٹراپارٹی الیکشن اور گروہ بندی سے بچنے کے لیے جنگ کو طول دینا خود پارٹی کے قائدین کے مفاد میں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے درخواست منظور کیے جانے کے بعد بھی خان صاحب سڑکوں پر اپنی احتجاجی سیاست کو فی الوقت موخر کرنے پر رضامند دکھائی نہیں دیتے۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سڑکوں کی سیاست ہی میں اُن کی زندگی اور بقاء ہے۔ وہ اگر ابھی واپس ہو جاتے ہیں تو پھر پارٹی کو جوں کا توں قائم و دائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ملک کی اعلیٰ عدالت میں اُن کی درخواست سماعت کے لیے منظور ہو جانے کے بعد اسلام آباد بند کرنے کا جواز گرچہ اب ختم ہو چکا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے احتجاج پر بضد ہیں حالانکہ اُنہوں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ محض اِسی مفروضے کے تحت کیا تھا کہ ملکی ادارے پاناما لیکس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہے لیکن اب جب کہ سپریم کورٹ نے اُن کی اپیل قابلِ سماعت قرار دے کر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کر دیے ہیں تو بھلا اب یہ احتجاج کیوں۔

دراصل خان صاحب خود پانامہ لیکس کا کوئی حل یا ملک کے اندر کرپشن کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ وہ محض اِسے سیاسی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی دلی خواہش تو یہی ہے کہ مسئلہ جوں کا توں قائم رہے اور وہ اگلے الیکشن تک اپنا احتجاجی پروگرام جاری رکھیں۔ عدالت نے اگر یہ مسئلہ حل کر دیا تو پھر سیاست چمکانے کے لیے اُن کے پاس باقی کیا بچے گا۔ سڑکوں کی سیاست ہی ایک ایسا حربہ ہے جس کو استعمال کر کے وہ پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچا سکتے ہیں اور الیکڑانک میڈیا کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس اور بھرم بھی قائم رکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں