تنہا کون
مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار رہے ہیں
KHUSHAB/
FAISALABAD:
مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار رہے ہیں، بدقسمتی سے یمن پر امریکا سمیت اتحادیوں کے حملوں میں پاکستان کی عدم شرکت کی وجہ سے دشمنوں نے ان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ یمن کے بارے میں پاکستان کی واضح پالیسی ہے کہ وہاں کے آمروں کی غلطیوں کی سزا وہاں کے مصیبت زدہ عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔
دراصل مغربی ممالک یمن پر اپنے پسندیدہ شخص کو برسر اقتدار رکھنا چاہتے ہیں جب کہ یمن کے عوام آمروں سے تنگ آ چکے ہیں وہ نہ عبداﷲ منصور ہادی کو پسندکرتے ہیں اور نہ ہی عبداﷲ صالح کو یمن کا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ دراصل ان دونوں افراد کی باہمی چپقلش کی وجہ سے القاعدہ نے ایک طویل عرصے سے وہاں اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جس کی آڑ لے کر مغربی ممالک یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔
سعودی حکومت نے پاکستان کے اتحادی حملہ آوروں کا ساتھ نہ دینے کا بہت برا منایا ہے۔ مودی کے حالیہ سعودی عرب کے دورے میں اس کی بے مثال پذیرائی اور اسے امن کا ایوارڈ دیا جانا سعودی حکومت کی پاکستان سے ناراضگی اور اس کی خدمات سے برملا چشم پوشی کا اظہار ہوتا ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ مودی مسلمانوں کا قاتل ہے، جس پر امریکا سمیت تمام مغربی ممالک نے اس کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی جب غیر اقوام کا مودی کے بارے میں یہ رویہ تھا تو سعودیہ کا مسلمانوں کے قاتل کو امن ایوارڈ دیا جانا بھارتی مظلوم مسلمانوں کے جذبات کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے مگر ہماری حکومت کی بھی کوتاہی رہی کہ اسے مودی کے دورے سے قبل ہی سعودی حکام کو اس کے بارے میں حقائق سے آگاہ کر دینا چاہیے تھا، بہرحال یہ بھارت کی زبردست سفارتی فتح تھی۔
سعودی عرب کی طرح خلیج کی ریاستوں میں بھی مودی سرکار نے اپنی پاکستان مخالف سرگرمیاں تیزکر دی ہیں۔ یہ ریاستیں دفاعی اور معاشی لحاظ سے سعودی عرب کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ وہ سعودی حکومت کی خارجہ پالیسی کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ یمن کے معاملے میں پاکستان کی عدم شرکت کو خلیجی ریاستوں نے بھی محسوس کیا ہے۔ بھارتی پروپیگنڈے نے مزید حالات خراب کرنے کی کوشش کی ہے یہ بھارتی پروپیگنڈے کا اثر تھا کہ متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر نے پاکستان پر تنقید کی تھی۔ سعودی عرب میں بھی اس وقت وہاں موجود پاکستانیوں کو نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ہزاروں پاکستانیوں کو ملازمتوں سے برطرف کرکے واپس وطن بھیج دیا گیا ہے، بعضوں کے معاوضے بھی ادا نہیں کیے گئے۔ مودی نے خلیج میں اپنے لیے حالات سازگار دیکھ کر اس دفعہ اپنے آیندہ یوم جمہوریہ پر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کو بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی ہے جسے قبول کر لیا گیا ہے۔ اس سارے معاملے کوکیا پاکستانی سفارتی ناکامی کہا جائے یا حکمت عملی کا نام دیا جائے۔ مشرق وسطیٰ میں بھارت اپنا کام تیزی سے کر رہا ہے وہ اسرائیل سے بھی فائدے اٹھا رہا ہے مگر وہاں پاکستانی سفارتکاری نظر نہیں آ رہی۔
اب یمن کے معاملے کوگزرے کئی ماہ ہو چکے ہیں، مگر لگتا ہے کہ پاکستانی خارجہ امور سے متعلق حکام نے سعودی حکومت تک کوئی رسائی نہیں کی ہے۔ پاکستان نے یمن پر حملوں کے سلسلے میں علیحدہ رہنے کی جو پالیسی بنائی تھی۔ اس سے سعودی حکومت اور خلیجی ریاستوں کو کیوں پہلے ہی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اور مودی کی جادوگری کو روکنے کا پہلے ہی کیوں انتظام نہیں کیا گیا تھا۔
سعودیہ اور خلیجی ریاستوں سے تعلقات اگر ہم سے یونہی سرد مہری کا شکار رہے تو اس کے وہاں موجود پاکستانیوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اگر ان کی وہاں سے اسی طرح واپسی کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان سخت معاشی حالات میں گرفتار ہو سکتا ہے۔ مودی اس وقت پاکستان کو جس تنہائی کا طعنہ دے رہے ہیں اس کی پاکستان کے عرب ممالک سے تعلقات میں موجودہ سرد مہری ایک بڑی وجہ ہے مگر یہ کوئی تنہائی نہیں ہے تعلقات میں اتار چڑھاؤ تو آتا ہی رہتا ہے۔
عرب ممالک کبھی پاکستان سے جدا نہیں ہو سکتے اس لیے ان کی ضرورت پاکستان ہے اور پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ امید ہے ہماری حکومت جلد ہی اس سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل کر لے گی۔ تاہم بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی گھناؤنی سازش پھر بھی جاری رہے گی۔ اس نے گوا میں منعقد ہونے والی حالیہ برکس سربراہی کانفرنس کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی زبردست پلاننگ کی تھی حالانکہ یہ ایک معاشی کانفرنس تھی جس کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر مودی نے اسے بھی پاکستان دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا تاہم مودی کو منہ کی کھانا پڑی۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس کانفرنس میں پیوٹن کا رویہ چینی صدر سے زیادہ مایوس کن رہا۔ انھوں نے بھارتی توقع کے برعکس پاکستان کے بارے میں بھارتی موقف کو یکسر مسترد کر کے مودی کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں اور ان کی روس کے بارے میں خوش فہمی کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے، حالانکہ بھارت روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس نے پیوٹن کو خوش کرنے کے لیے اس موقعے پر اربوں ڈالر کے روسی ہتھیار خریدنے کے کئی معاہدے کیے مگر مودی کی ساری ہوشیاری اور چاپلوسی دھری کی دھری رہ گی۔
ادھر چینی صدر نے پاکستان کو دہشتگرد قرار دلوانے کی بھارتی سازش پر خاموش رہنے کے بجائے سخت مذمت کی اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارتی شمولیت کو پھر یہ کہہ کر رد کر دیا کہ بھارت این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے این سی جی کی رکنیت کا قطعی اہل نہیں ہے۔
چینی صدرکی بھارت کو جھنڈی دکھانے کے سبب پورے بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعتیں چین کے خلاف سخت احتجاج کر رہی ہیں اور چینی مصنوعات کے بائیکاٹ پر زور دے رہی ہیں اور چینی مصنوعات کو چوراہوں پر آگ لگاکر دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں۔ مگر چینی مصنوعات کی بھارت میں درآمد کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بھارتی مصنوعات کے مقابلے میں سستی اور معیاری ہیں۔
بھارت نے صرف کشمیر پر ہی قبضہ نہیں کر رکھا ہے بلکہ اس نے چین کو بھی نہیں بخشا اور ان کے کئی علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ چین اور بھارت کے تعلقات میں اصل دراڑ اس وقت پڑی تھی جب بھارت نے تبت کو چین میں شمولیت کے بجائے اسے خود ہڑپ کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعد میں وہ دلائی لامہ کے ذریعے تبت کو ہتھیانے کی بھرپور کوشش کرتا رہا مگر چین نے اس کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا تھا۔
اس وقت بھارت چین کی پاکستان نواز پالیسیوں سے سخت پریشان ہے وہ چاہتاہے کہ چین مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دلوانے میں اس کی مدد کرے تا کہ وہ پاکستان پر دہشتگردی کا لیبل لگوا سکے، چین تو کیا امریکا اور برطانیہ نے بھی بھارت کی پاکستان مخالف مہم کو رد کر دیا ہے یہ دونوں ممالک پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دینے کے بجائے پاکستان کی انسداد دہشتگردی کے سلسلے میں کوششوں کے زبردست معترف ہیں۔
ادھر سری لنکا اور نیپال بھی بھارت کے پاکستان مخالف رویے سے سخت نالاں ہیں انھوں نے حالیہ اسلام آباد سارک سربراہ اجلاس کو سبوتاژ کرنے کو سارک تنظیم کو ختم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ ان کی جانب سے بھارت کو پاکستان کے ساتھ مفاہمانہ رویہ اختیارکرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب پوری دنیا سمجھ چکی ہے کہ اصل دہشتگرد پاکستان نہیں بلکہ خود بھارت ہے جو کشمیریوں کی آزادی کو بزور طاقت روک رہا ہے، اب بڑی طاقتوں کے علاوہ بھارت کے پڑوسیوں اور اسلامی کانفرنس کی جانب سے بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو رد کرنے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش میں خود ہی تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔