سانحہ در سانحہ آخر کب تک
ملک کی موجودہ پراسرار سیاسی فضا میں کتنے ہی پہلو اور زاویے ایسے ہیں جن پر تفصیل سے لکھنے کی اشد ضرورت ہے
ملک کی موجودہ پراسرار سیاسی فضا میں کتنے ہی پہلو اور زاویے ایسے ہیں جن پر تفصیل سے لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمارا ازلی دشمن سفارتی سطح پر ہمیں نہ صرف تنہا بلکہ بدنام کرنے میں کافی آگے نکل چکا ہے، ایسے وقت میں ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا رویہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔
ایک عام آدمی جو نہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہے نہ مادی مفادات کے پیچھے بھاگ رہا ہے بلکہ اپنی محنت سے بمشکل زندگی کی گاڑی دھکیل رہا ہے، وہ حیران و پریشان ہے کہ آخر ان عقلمندوں، دانشوروں بزعم خود ملک کے وجود کے لیے ناگزیر ہستیاں کہ اگر یہ نہ ہوں یا ان کے سیاسی (بلکہ ذاتی) مشن کہیں ناکام ہوجائیں تو گویا ملکی وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا، آخر کس طرز فکر کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟
ملک کے روشن مستقبل یا بربادی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مگر صرف سیاستدانوں ہی کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے، کتنی ہی خبریں ہیں جو سر چکرانے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہیں، مذہبی انتہا پسندی، دین کے نام پر ہر طرح کا معاشرتی استحصال، انصاف کی سست روی کہ بے گناہی اس وقت ثابت ہو جب لوگ ''فراز دار کی منزل سے بھی گزر جائیں''۔ صد حیف دو بھائی بیک وقت انصاف کے حصول، اور تقاضے پورے ہونے سے قبل ہی تختہ دار پر چڑھا دیے جائیں، یعنی انصاف خود انصاف کو قتل کردے۔
ایسا ہونا کوئی اچھنبے کی بات ہی نہیں۔ یہ سرزمین جس پر ہمارا ملک خداداد واقع ہوا ہے، کے چپے چپے پر بے گناہوں کے بے نام و نشان مدفن ہیں۔ جانے کتنی خواتین اپنے ہی باپ، بھائی، شوہر اور بیٹوں کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہوئیں۔ ہمارے طبقہ اعلیٰ کی شاندار حویلیوں کی غلام گردشوں کے نیچے جانے کتنی بیٹیاں، خادمائیں بے جرم قتل ہوکر دفن کی گئی ہیں۔ یہ جو ملک کا معاشرتی و اخلاقی زوال ہے یہ ان ہی بے گناہوں کی آہوں کا اثر ہے، جو عرش الٰہی کو ہلا دیتی ہیں۔
خیر یہ موضوع تو ایسا ہے کہ جس پر ہزاروں صفحات کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ انصاف کی مبینہ برق رفتاری کی درج بالا خبر کے علاوہ اور بھی کئی اہم خبریں دامن قلم کو اپنی جانب کھینچ رہی ہیں کہ آخر ہم پر توجہ کیوں نہیں؟ کئی اہم نکات ذہن میں تھے کہ اس بار ان پر ضرور لکھا جائے گا، مگر کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں دہشت گردی کی واردات نے جیسے لکھنے کی صلاحیت ہی سلب کرلی، ذہن مفلوج ہوکر رہ گیا۔ دس ماہ کے دوران چار بار کوئٹہ خون میں نہا چکا ہے۔
تازہ سانحہ گزشتہ سانحے سے صرف دو ماہ سترہ دن بعد رونما ہوا۔ ہر سانحے کے بعد ذمے داروں کو جلد ازجلد کیفرکردار تک پہنچانے کے حکومتی دعوؤں کی بازگشت ابھی فضا میں گونج رہی ہوتی ہے کہ نیا حادثہ رونما ہوجاتا ہے، دو چار دن کی ہلچل کے بعد طویل خاموشی دہشت گردوں کے حوصلے بڑھا دیتی ہے۔ یوں تو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کے لیے کراچی کا نام زیادہ خبروں میں آتا رہا ہے مگر کسی شہر میں دس ماہ کے دوران چار بڑے سانحے اپنی جگہ اہمیت کے حامل بلکہ انتظامیہ اور حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
ایسا ملک جو کئی عشروں سے دہشت گردی کی زد پر ہے جس کی نذر عام شہری ہی نہیں فوجی جوان، رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے علاوہ کئی حکومتی اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد معاشرے کی اہم شخصیات ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلا، فنکار وغیرہ ایک بار نہیں کئی بار دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں، اس ملک میں کمسن طلبا اپنے ہی تعلیمی ادارے میں خون میں نہلائے گئے ہیں۔
ان معصوموں کا خون رنگ لایا اور آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، ہمارے فوجی جوانوں کی شاندار اور دلیرانہ کارکردگی کے باعث دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بڑا نقصان پہنچا، مگر مکمل کامیابی کے لیے جس قومی اتحاد و اتفاق کی ضرورت تھی وہ کہیں نظر نہ آیا۔ کیونکہ ضرب عضب کی کامیابی محض دہشت گردوں کو ختم کرنے پر منحصر نہیں جب تک کہ ان عناصر کا خاتمہ نہ ہوجائے جو ہمارے درمیان رہ کر دہشت گردوں کے سہولت کار اور سرپرستوں کا کردار ادا کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ذہنی تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔
فرقہ واریت کا زہر گھول کر معصوم ذہنوں کو آلودہ کر رہے ہیں، اسلام کی خودساختہ تشریح کو بزور دوسروں پر تھوپنے اور ماحول کو پراگندہ کرنے میں مصروف ہیں۔ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے ذکر پر تلملا جانے والے، مذہبی انتہا پسندی میں اضافے کا باعث شخصیات وغیرہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کئی بے ضرر میدانوں کو مذموم مقاصد کے لیے بڑی خاموشی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
کچھ ماہ قبل پنجاب کے کچھ اساتذہ پر نظر رکھے جانے کی خبر آئی تھی جو اپنے طلبا کی داعش کے بارے میں برین واشنگ میں مصروف تھے۔ کچھ خطیب، پیش امام حضرات، حتیٰ کہ زندگی کے کئی شعبوں میں ایسے افراد کی موجودگی کے بارے میں آئے دن ایسی ہی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ اتنے سانحات کے بعد بھی آخر انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کے ذمے داران میں کوئی مضبوط رابطہ کیوں نہیں ہوتا۔ تازہ واقعے میں بھی اطلاعات کے مطابق ایسے امکانات موجود تھے، وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطابق تین چار دن قبل انٹیلی جنس اطلاعات موجود تھیں، ہمیں پہلے ہی اطلاع تھی کہ دہشت گرد کوئٹہ میں داخل ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں ہم کافی الرٹ بھی تھے جب کہ آئی جی ایف سی کا خیال ہے کہ ممکن ہے کچھ پولیس اہلکار بھی حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہوں۔ یہ صورتحال ہمارے اس خیال کو تقویت پہنچاتی ہے کہ معاشرے کے مختلف اہم شعبوں میں امن دشمن عناصر کے سہولت کار موجود ہیں۔ نادرا اور پاسپورٹ آفس میں بھی غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیے جانے کی اطلاعات عام ہیں۔
غرض یہ کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے جس مستعدی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے وہ عام آدمی کو نظر نہیں آرہی۔ قبل ازوقت اطلاعات ہونے کے باوجود سانحہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے جو اقدامات کرنے ضروری ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ کیے جاتے ہوں مگر ان پر مزید توجہ کی بہرحال ضرورت ہے۔ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے حادثے میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ اس سانحے میں متاثرہ اہلکاروں کی تربیت مکمل ہوئے آٹھ ماہ ہوچکے تھے۔ بقول ایک عینی شاہد کے تربیت مکمل ہونے کے باوجود یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہمیں واپس کیوں بلایا گیا؟
اس بیان کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے۔ پھر یہ کہ اس سے قبل بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور کراچی پولیس ٹریننگ سینٹر کے زیر تربیت اہلکاروں کی بس پر بھی حملے ہوچکے تھے تو پھر ایسے اہم مقامات کی حفاظت کا مکمل قابل اعتماد انتظام کیوں نہیں کیا گیا، بطور خاص اس صورت میں کہ تربیت ختم ہوجانے کے باوجود اہلکاروں کی اتنی بڑی تعداد کو ہاسٹل میں روکے رکھا گیا، جیسے حالات پر نظر کیوں نہ رکھی گئی اور اس کے جواز کے متعلق اعلیٰ عہدیداران کا کیا موقف ہے؟
ملکی حالات کے پیش نظر ایسے اہلکاروں کی اتنی بڑی تعداد میں شہادت جو تربیت مکمل کرکے ملک و قوم کی خدمت کے لیے تیار ہوچکے تھے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری قوم کا عظیم ترین نقصان ہے۔ ایک ایک اہلکار کی تربیت پر جو اخراجات اور وقت صرف ہوتا ہے وہ الگ مگر جانوں کے تلف ہونے کا ناقابل تلافی نقصان جس کا کوئی نعم البدل ہی نہیں، آج ہمیں تربیت یافتہ افرادی قوت کی کتنی ضرورت ہے اس کا اندازہ ہر صاحب عقل و فہم کرسکتا ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے (آمین)۔