سماجی ارتقا اور طبقاتی استحصال
کائنات کا وجود اور تشکیل کتنے عرصے قبل ہوئی، یہ اب تک ثابت نہیں ہوا ہے
کائنات کا وجود اور تشکیل کتنے عرصے قبل ہوئی، یہ اب تک ثابت نہیں ہوا ہے۔ شاید کھربوں نوری سال قبل۔ لیکن جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کی عمر سائنسدانوں کے مطابق چھ ارب سال ہے۔
ہمیں یہ نہیں معلوم یہ درست ہے یا نہیں، ہاں مگر سائنسدانوں نے تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ گیس سے لاوا اور پھر پانی اور زمین تشکیل پائی ہے۔ پانی میں بیکٹیریا (عام نگاہ سے نظر نہ آنے والے حیاتیات) پیدا ہوئے۔ بعدازاں ان ہی بیکٹیریا سے پتنگے، کیڑے مکوڑے اور ریڑھ کی ہڈی کے بغیر رینگنے والے جانور وجود میں آئے، پھر اسی پانی سے کچھ جانور پانی میں ہی رہ گئے، کچھ اڑنے لگے اور کچھ ز مین پر چلنے لگے۔
ڈائنوسار کروڑوں برس قبل وجود میں آئے۔ ان کی تین اقسام تھیں، ایک اڑتے تھے، دوسرے پانی میں تیرتے تھے اور تیسرے زمین پر چلتے تھے۔ زمین پر چلنے والوں میں دو اقسام تھیں، پہلا سبزی خور اور دوسرا گوشت خور۔ کہا جاتا ہے کہ چھ کروڑ سال قبل دوسرے کسی سیارے سے پتھر کے ٹکڑے دنیا پر گرنے سے ایک دھماکا ہوا اور اس کے ٹکر سے دنیا میں آگ بھڑک اٹھی اور ڈائنوسارز کا خاتمہ ہوگیا۔
ڈائنوسار تو زندہ نہیں ہیں لیکن ان کے ڈھانچے اب بھی دریافت ہوتے رہتے ہیں اور ان اعضاء کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ڈائنوسار کو مکمل شکل دی گئی ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈائنوسار کا وجود تھا۔ اسی طرح سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آج سے پچاس لاکھ سال قبل بن مانس نما انسان وجود میں آیا اور پچاس ہزار سال پہلے اس نے کاشتکاری شروع کی۔ اس کا ثبوت بھی سائنسدانوں نے پیش کردیا ہے۔ آج کل ڈی این اے کے ذریعے یہ باتیں ثابت کرنا بہت آسان ہوگئی ہیں۔
پچاس لاکھ سال قبل بن مانوس نما انسان کی سر کی کھوپڑی کا ڈائیومیٹر چھ سو ملی میٹر تھا، جب کہ چالیس لاکھ سال قبل آٹھ سوملی میٹر تھا، تیس لاکھ سال قبل ایک ہزار ملی میٹر تھا، دس لاکھ سال قبل چودہ سو ملی میٹر تھا، جواب سولہ سو ملی میٹر ہوگیا ہے۔ انسانوں کی ابتدائی کھوپڑیاں افریقہ میں ملی ہیں، مگر جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس سے بھی قبل انڈونیشیا کا جزیرہ جاوا اور پاکستان میں سیہون شریف میں اس سے بھی کم ڈائیومیٹر والی کھوپڑیاں پائی گئی ہیں، جس کی تحقیقات پاکستان میں امریکی سائنسدان کررہے ہیں۔ سیہون میں زمین کی کھدائی کا کام جاری ہے۔
انسان جب لاکھوں برس قبل جنگل اور پانی سے اپنی غذا حاصل کرتا تھا، اس وقت اس کے پاس اپنے ہاتھوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بعد ازاں پتھر، ہڈی اور دھاتوں کے اوزار بنائے۔ پتھر کے اوزار سے وہ آج راکٹ تک پہنچ گیا ہے۔ جب ریاست کا وجود نہیں تھا، ملکیت تھی، جائیداد تھی اور نہ خاندان۔ اس وقت ہمارے وحشی معصوم آباؤاجداد آزادانہ طور پر غذا حاصل کرتے اور کھالیتے تھے۔ کوئی ذخیرہ کرتا تھا اور نہ قتل وغارت گری تھی۔ جب ریاست وجود میں آئی تو طبقات پیدا ہوئے۔ چند لوگ سیکڑوں کی محنت پر پلنے لگے۔
سرمایہ داری میں گزشتہ سو سال میں جتنی ترقی ہوئی ہے، اتنی ترقی سماج میں گزشتہ پچاس لاکھ سال میں بھی نہیں ہوئی ہے۔ اب تو نت نئے سیارے اور ستارے دریافت ہورہے ہیں۔ چاند کے بعد مریخ، زحل اور سو سے زاید سیاروں اور ستاروں کی دریافت سائنسدان کرچکے ہیں، جن میں حال ہی میں دریافت ہونے والا سیارہ 'پروکسیمابی' ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ز مین سے ملتا جلتا ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو زمین کے قرب و جوار میں واقع ہے۔
سائنسدانوں نے جب ہمارے قریب ترین ستارے پروکسیما سینٹوری کا مشاہدہ کیا تو انھیں وہاں زمین کی جسامت کا سیارہ نظر آیا، جو اپنے سورج پروکسیما سینٹوری کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ چٹانوں والا سیارہ جسے پروکسیمابی کا نام دیا گیا ہے یہ اپنے سورج کے گرد ایک ایسے خطے میں گردش کررہا ہے جہاں اس کی سطح پر پانی زمین کی طرح مایع حالت میں رہ سکتا ہے۔
پروکسیمابی زمین سے چالیس کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں موجودہ ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی خلائی طیارہ پہنچنے میں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں۔ سائنسی جریدے 'نیچر' میں شایع رپورٹ میں پیل ریڈ ڈاٹ نامی ٹیم کے سربراہ گولم اینگ لارڈاس کودے نے کہا ہے کہ وہاں جانا یقینی طور پر سائنسی فکشن ہے، لیکن لوگ اس کے بارے میں ابھی سے سوچ رہے ہیں۔
کوئین میری یونیورسٹی آف لندن کے محقق اور ان کے گروپ کے مطابق اب تک حاصل شدہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے تقریبا سوا گنا بڑا ہے اور اپنے سورج سے پچھتر لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کررہا ہے اور اپنے سورج کا ایک چکر لگانے میں اسے گیارہ عشاریہ دو دن لگتے ہیں۔ فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا اس سیارے پر کسی قسم کا کرۂ ہوائی موجود ہے یا نہیں۔
ان تحقیقات، ایٹم بموں کے بنانے، کاسمیٹک کی پیداوار، جینیٹک موڈیفائیڈ بیج کی پیداوار اور بلٹ پروف گاڑیاں بنانے پر دنیا کے بے پناہ وسائل کو (روزانہ کھربوں ڈالر) استعمال میں لایا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس کرۂ ارض میں روزانہ صرف بھوک سے پچھتر ہزار لوگ جان سے جاتے ہیں۔ اگر سائنسی ترقی عوام کی فلاح کے لیے ہو تو بہتر ہے مگر عوام کا قتل کرکے اگر ہورہی ہے تو یہ ترقی زہر قاتل ہے۔
اہرام مصر بنانے والے غلام مزدوروں کو روٹی کے ساتھ پیاز تک نہیں ملتی تھی، دیوار چین بنوانے والے چینی بادشاہ نے ہزاروں غلاموں کو قتل کرکے دیوار کی بھینٹ چڑھا دیا۔ تاج محل کی تعمیر کے دوران ہندوستان کا شاہی خزانہ خالی ہوگیا تھا اور قحط پڑنے سے لوگ بھوک سے مرگئے تھے۔ ایسی عمارتیں، ترقی، ایجادات اور تحقیقات سے عوام کوکیا فائدہ؟
1906 میں عظیم روسی ادیب اور فلسفی لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری نہیں مل سکتی ہے ۔ اس دنیا میں سب سے پہلے تمام لوگوں کو پینے کا صاف پانی، کھانے کے لیے معقول اور ملاوٹ سے پاک غذا اور معقول و بروقت علاج کی ضرورت ہے۔ جب ساری دنیا کے لوگوں کو یہ تین چیزیں میسر ہوجائیں گی تو پھر سب کو تعلیم دی جائے۔
یہ ہوائی جہاز، ہیرے کی انگوٹھی، تیز رفتار ٹرین، ایئرکنڈیشن گاڑیاں ہمارے کس کام کی؟ جس دنیا میں روزانہ لاکھوں انسان بھوک، بیماری، بے علاجی، بے گھری، گندے پانی اور ملاوٹ کی غذا اور زہریلے ماحول کی وجہ سے مررہے ہوں وہاں یہ سائنسی ترقی ہمارے کس کام کی؟ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کے ملکوں کی سرحدیں ختم کردی جائیں، جو جہاں جانا چاہے جا سکے۔
اسلحے کی پیداوار فوراً بند کردی جائیں اور موجود اسلحے کے ذخیرے تباہ کردیے جائیں۔ تحقیقات اور سائنسی ایجادات روک دی جائیں، سرحدی محافظوں کو ملکوں کی سرحدوں سے ہٹالیا جائے۔ طبقات، جائیداد اور نجی ملکیت کا خاتمہ کردیا جائے۔ رجعت پسندی، ابہام پرستی، قوم پرستی، فرقہ پرستی، خاندانی انا اور رعونت کے تانے بانے جب ختم ہوجائیں گے تو عوام حقیقی معنوں میں جینے لگیں گے۔