سیاسی سرگرمیوں کے عذاب
ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے جلسے، احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور سیاسی سرگرمیاں عذاب بن کر رہ گئی ہیں
ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے جلسے، احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور سیاسی سرگرمیاں عذاب بن کر رہ گئی ہیں اور حکمرانوں کے خلاف یا اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنیوالی سیاسی پارٹیوں کے اقدامات حکمرانوں سے زیادہ عوام کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن کر رہ گئے ہیں۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں اور مختلف تنظیموں کے دھرنے الگ مسئلہ بنے ہوئے ہیں جن سے حکومتیں تو نہیں مگر عام لوگ نہ صرف متاثر ہورہے ہیں بلکہ انتہائی پریشانیوں کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں جس کا احساس سیاسی جماعتوں کو ہے اور نہ حکومت کچھ کر رہی ہیں اور سزا صرف اور صرف عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔
تین چار عشروں پہلے جلسے جلوس اور مظاہرے تو ہوتے تھے مگر دھرنے نہیں دیے جاتے تھے، جلوسوں میں کاروبار جاری رہتے تھے اور جلسے بھی پر امن طور پر منعقد اور اختتام پذیر ہوتے تھے۔
راقم نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1969 میں جب اپنے آبائی شہر شکارپور سے کیا تو اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریکیں عروج پر تھیں اور ہڑتالوں کی بجائے ایوب حکومت کے خلاف جلسے جلوس پر امن طور پر نکلتے تھے نہ دکانیں بند کرائی جاتی تھیں نہ عام لوگوں کا نقصان کیا جاتا تھا، البتہ سرکاری عمارات پر پتھراؤ ضرور کیا جاتا تھا اور سرکاری عمارتوں کو جلانے، سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات کم اور بڑے شہروں میں ہوتے تھے اور چھوٹے شہروں میں حکومت کے خلاف احتجاج اور جلوس عموماً پر امن رہتے تھے، تعلیمی اداروں کی چھٹی کرا دی جاتی تھی۔
ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے عہدیداروں کے خلاف احتجاج ضرور ہوتا تھا مگر انھیں بھی حکومت کا حامی ہونے کی وجہ سے جانی نقصان نہیں پہنچایا جاتا تھا البتہ کبھی ان کی املاک پر پتھراؤ ضرور ہوجاتا تھا۔ ایوب خان پھر بھی غیرت مند تھے کہ اپنے خلاف نعروں سے دل شکستہ ہوکر اور اپنے سیاسی مخالفین اور خاص کر نوجوانوں کے نعروں کے باعث اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرکے گھر جا بیٹھے تھے اور بعد میں ان کے انتقال کے بعد ٹرکوں پر ان کی تصویر کے ساتھ یہ بھی لکھا قوم نے دیکھا کہ '' تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد'' اور بہت سے پرانے لوگ اب بھی انھیں یاد کرتے ہیں۔
ملک کے دولخت ہونے کے وقت ذوالفقار علی بھٹو عوامی رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے جنھیں جنرل یحییٰ اقتدار سونپ گئے تھے۔ اپنی حکومت کے 1973 کا متفقہ دستور منظور ہونے کے بعد چار سال تو بھٹو صاحب خیریت سے گزار گئے مگر 1977 کے انتخابات میں بھٹو حکومت کی مبینہ دھاندلی پر ہونے والے احتجاج نے شدت اختیارکرلی اور قومی اتحاد کے احتجاج کو جمہوری کہلانے والے وزیراعظم بھٹو کی حکومت نے انتہائی تشدد اور بڑے پیمانے پرگرفتاریوں سے کچلنا چاہا تو پر امن احتجاج بڑے شہروں میں خونی احتجاج میں تبدیل ہوگیا اور تین بڑے شہروں میں مارشل لاء بھی لگا جو جولائی میں مکمل مارشل لاء کی راہ ہموار کرگیا۔ بھٹو کی پھانسی پر ملک میں احتجاج ہوا جسے دبانے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج اور شیلنگ بھی کرنا پڑی اور جیالوں کی خود سوزی کے واقعات پہلی بار منظر عام پر آئے۔
1990 میں کراچی آنے کے بعد آپریشن میں احتجاج، ہڑتالیں اور یوم سوگ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف تو ہوتے دیکھے مگر سزائیں تاجروں، دکانداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتی تھیں۔ شام یا رات کو بھی دکانیں کھولنے نہیں دی جاتی تھیں۔ فائرنگ، گاڑیاں جلاکر خوف پیدا کیا جاتا تھا کئی کئی دن کی ہڑتالیں بھی دیکھیں جب گلیوں تک میں دکانیں جبری بند کرائی جاتی تھیں اور اگلے روز زخموں پر نمک چھڑکنے کے بیانات شایع کرائے جاتے کہ عوام نے خود کاروبار بند کرکے سوگ کامیاب کرایا۔
ان ہڑتالوں میں پیسہ بے وقعت ہوتے دیکھا جب لوگ نوٹ لے کر گلیوں میں کھلی دکانیں تلاش کرتے مگر کھانے کو کھانا ملتا نہ راشن نہ بچوں کو دودھ دستیاب ہوتا ۔کراچی میں لاکھوں مزدور ہوٹلوں پر کھانا کھاتے ہیں، ہڑتالوں میں ان بھوکوں پر جوگزری اس کی ہڑتال کرانے والوں کو کوئی فکر نہ تھی۔ چند سالوں سے ان سنگین ہڑتالوں سے نجات ملی تو مختلف گروپوں کے احتجاجی دھرنے شروع ہوگئے جن کی انتہا اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے طویل دھرنوں میں ہوئی جس کی سزا اسلام آباد والوں نے جو بھگتی وہ دنیا سے زیادہ بھگتنے والے ہی جان سکتے ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ملک گیر سطح پر بڑے شہروں میں ایسے مقامات پر دھرنے دینا شروع کر رکھے ہیں جن کا حکومتوں پر توکوئی اثر نہیں ہورہا مگر ان دھرنوں کے باعث کوئی گھر وقت پر نہ پہنچ سکے حادثے کے متاثر اور شدید بیمار اسپتالوں تک دھرنے میں پھنسے رہنے کے باعث نہ پہنچ سکیں اور چل بسے۔
کہیں سفر پر جانے والے راستوں میں پھنسے رہ جائیں اوران کی گاڑیاں نکل نہ پائیں،کہیں ضروری کام سے جانے، تقاریب یا ملازمتوں پر جانے والے وقت پر نہ پہنچیں تو ان پر جوگزرے گی وہ دھرنے والے کیا جانیں کہ انھیں ان کے عذاب سے گزرنے کی کوئی فکر نہیں بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایمرجنسی میں ایمبولینس کو گزرنے کا راستہ بھی نہیں دیا جاتا اورمجبور لوگ خوشامد کرتے رہ جاتے ہیں مگر دھرنے والوں کو عوام کی پریشانی سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے دھرنیوالوں کو شاید حکومت یا انتظامیہ کو پریشان کرنے سے زیادہ علاقے والوں کو پریشان کرنا مقصود ہوتا ہے کیونکہ دھرنوں، جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں سے متاثر اور پریشان علاقہ مکین، دکاندار اور عوام ہی ہوتے ہیں۔ حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
عدلیہ جو حکومتوں کے غلط کاموں پر تو گرفت کرتی اور روکتی ہے مگر جمہوریت کی آزادی کے نام پر سیاسی پارٹیاں اور دوسری تنظیمیں جو ہڑتالیں کراتی ہیں، دھرنے دیتی، پر تشدد مظاہرے یا احتجاج کرتی ہیں تو انھیں خود تو نہیں روکتیں بلکہ عوامی درخواستوں پر بھی ممانعت نہیں کرتیں۔ یہ سب کچھ جمہوریت میں ملی آزادی اور حاصل بنیادی حقوق کے نام پر کیا جاتا ہے تو یہ سب کرنے سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ان کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے اور کیا ملکی آئین اور قانون احتجاج اور دھرنے کرنے والوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جب چاہیں عوام کو پریشان کرکے ان کے کاروبار اور راستے بند کرا دیں۔ کیا یہ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے اور عوام کو پریشان و ہراساں کرنے کی اجازت اور آزادی انھیں کہاں سے اور کیسے ملی ہوئی ہے۔
حکومتیں بھی اس موقعے پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں، عوامی املاک کے تحفظ پر توجہ نہیں دی جاتی اور اگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچے تو قانون حرکت میں آجاتا ہے عوام کی مشکلات کا احساس حکومتوں کو ہے نہ سیاسی جماعتوں کو اور بے بس عوام کچھ نہیں کرسکتے۔
حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں کچھ نہیں کریںگی کیونکہ دونوں کے باہمی مفادات ہیں اور سزا مفت میں عوام کو مل رہی ہے اور ملتی رہے گی اور عدالت عظمیٰ ہی عوام کو نقصان پہنچانے والے دونوں فریقوں کو پابند کرسکتی ہے کہ وہ عوامی مقامات پر جلسے، جلوس، احتجاج اور دھرنے دینے کی بجائے کسی ایسے مقام کا انتخاب کرلیں جس کی زد میں آکر بے گناہ لوگ متاثر نہ ہوں اور دونوں کی سیاست بھی چلتی رہے۔