پاکستان برانڈ پرسنالٹی

برانڈکی پرسنالٹی بنانے میں ایڈورٹائزنگ کا بڑا اہم رول ہے


سید معظم حئی October 28, 2016
[email protected]

ایک برانڈ اورپروڈکٹ میں کیا فرق ہے؟ برانڈکی پرسنالٹی ہوتی ہے کسی انسان کی شخصیت جیسی۔ مثلاً بازار میں ملنے والی کھلی چائے پروڈکٹ ہے جو عام سے لفافے میں آپ کو دی جاتی ہے۔ دوسری طرف جدید پیکنگ میں دستیاب برانڈڈ چائے ہے جس کا اپنا مخصوص لوگو، برانڈ کلرز اور ڈیزائن ہوتے ہیں۔

برانڈکی پرسنالٹی بنانے میں ایڈورٹائزنگ کا بڑا اہم رول ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں گے کہ ایسی بھی برانڈڈ چائے کی پتی ہے جس کے اشتہاروں میں جوائنٹ فیملی دکھائی جاتی ہے خصوصاً ساس، بہو اوراس کا شوہر۔ بہو جوان اور خوبصورت پڑھی لکھی ہوگی جو چائے کے ذریعے سب ہی کا دل جیت لے گی۔کیا برانڈ پرسنالٹی وہی ہے جو برانڈ کی کمپنی چاہتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے کنزیومر ریسرچ کروائی جاتی ہے، جو عام طور پر ایف جی ڈی یعنی فوکس گروپ ڈسکشن کے سیشنز پہ مشتمل ہوتی ہے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہر سیشن ٹارگٹ مارکیٹ سے تعلق رکھنے والی دس سے بارہ خواتین پر مشتمل ہوگا، جن سے مختلف سوالات کیے جائیں گے مثلاً یہ کہ اگر یہ مخصوص چائے کا برانڈ انسانی روپ میں ہو توکیا اورکیسا ہوگا۔ خواتین عام طور سے اس طرح سے برانڈ کی شخصیت کی خصوصیات بتائیں گی کہ یہ ایک جوان، سلیقہ مند، تمیزدار، خیال رکھنے والی، خوبصورت، اچھے خاندان کی لڑکی کے روپ میں ہوگا۔

مختلف کیٹگریز کے مختلف برانڈز کی مختلف برانڈ پرسنالٹی ہوتی ہیں جن کی اپنی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں جو ظاہر کرتی ہے کہ مارکیٹ کی نظر میں برانڈ پرسنالٹی کیا ہے۔ یہ خصوصیات اچھی بھی اور بری بھی ہوسکتی ہیں۔ جتنی اچھی ہوں گی برانڈ اتنا اوپر جائے گا۔ جتنی بری ہوں گی برانڈ اتنا نیچے جائے گا۔ بری خصوصیات متعلقہ برانڈ منیجر کی نااہلی یا ناکامی بھی ظاہرکرتی ہیں چنانچہ کچھ چالاک برانڈ منیجر اپنی مینجمنٹ یا کمپنی مالکان کے سامنے برانڈ پرسنالٹی کی بری خصوصیات بھی اس کاریگری سے پیش کرتے ہیں کہ جیسے وہ بہت اچھی ہیں اور برانڈ بہت اچھا جارہا ہے۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ برانڈ اپنے آخری دموں کو پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر برانڈ منیجر خوشامد یعنی چرب زبانی میں ماہر ہوگا تو مالکان اسے ایک اور برانڈ پکڑا دیں گے ورنہ نوکری سے فارغ ہوگا۔ تاہم عام طور پر ایسے چالاک برانڈ منیجر کو اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تب تک وہ برانڈ کے مارکیٹنگ بجٹ میں سے آؤٹ ڈور (ہورڈنگ، شاپ بورڈ وغیرہ) پی او ایس (دکان میں پوسٹرز وغیرہ) اور برانڈ ایکٹیویشن کے وینڈرز، میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی سی (ٹی وی کمرشل) کے ڈائریکٹرزکے تعاون سے اتنا مال بنا چکا ہوتا ہے کہ تنخواہ ایک ثانوی چیز بن گئی ہوتی ہے۔

قومیں بھی برانڈ جیسی ہوتی ہیں،ان کی برانڈ پرسنالٹی اور اس پرسنالٹی کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ مثلاً دنیا بھر میں لوگ آپ کو جاپانی قوم کی برانڈ پرسنالٹی کی خصوصیات کچھ ایسی بتائیں گے کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ،خوش پوش، محنتی، ہائی ٹیک، وقت کا پابند، تیز طرار، ذہین، کاروباری شخص۔ اب ظاہر ہے کہ ہر قوم کی طرح پاکستانی قوم کی بھی اپنی ایک برانڈ پرسنالٹی ہے جو گوناگوں شخصی خصوصیات پر مبنی ہے۔ آئیے! ذرا ان خصوصیات پر ایک نظر ڈالیں۔

ہم پاکستانی ''آن دا گو'' لوگ ہیں۔ ٹریفک سگنل ہو یا قطار صبر اور اپنی باری کا انتظار ہمارے لیے سوہان روح ہے، محال ہے، ناقابل برداشت ہے، ہم رکنا نہیں جانتے۔ مگر پھر 'عجلت پسندی' بھی ہماری برانڈ پرسنالٹی کی خصوصیات میں سے ہے چنانچہ کسی بھی للو پنجو کرپٹ وی آئی پی کی آمد کے موقعے پہ انھی ٹریفک سگنلز پہ جہاں ہم ہارن بجا بجا کر ایک عجب طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہیں، اب بالکل چپ چاپ سر جھکائے دم دبائے فرمانبرداری سے دیر دیر تک کھڑے رہتے ہیں اور پاکستان سے باہر قدم دھرتے ہی لمبی لمبی قطاروں میں اچھے بچے بنے کھڑے رہتے ہیں۔

یہ دوغلا پن دراصل ہماری ''پریکٹیکل'' برانڈ پرسنالٹی خصوصیت ہے۔ ''مستقل مزاجی'' میں دنیا میں ہمارا مقابلہ کم ہی لوگ کرسکتے ہیں۔ مثلاً پاکستانی بدترین ناقابل علاج کرپٹ اور قدرتی وجینیاتی طور پر نااہل لوگوں کو پوری مستقل مزاجی سے بار بار اپنے حکمراں منتخب کرتے رہتے ہیں جو ہر بار پہلی بار سے بھی زیادہ ''مستقل مزاجی'' سے اس ملک کو لوٹتے رہتے ہیں اور ہم پوری ''مستقل مزاجی'' سے پھر روتے پیٹتے رہتے ہیں کہ ہائے مرگئے لٹ گئے برباد ہوگئے۔

''کانفیڈنٹ'' جی ہاں ہم بڑے پراعتماد لوگ ہیں۔ اتنے زیادہ ''کانفیڈنٹ'' کہ ہم میں موجود بڑے بڑے نامی گرامی شہرہ و آفاق بدبودار ترین کرپٹ کردار بھی اپنی کرپشن سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہر کس وناکس کو چیلنج کرتے ہیں کہ ہمت ہے تو ثابت کرکے دکھاؤ یعنی یہ اپنی کرپشن تکنیک اورکاریگری کے بارے میں اتنے زیادہ متاثرکن حد تک ''کانفیڈنٹ'' ہیں اور جناب ''کیئر فری'' یعنی ''بے پرواہ'' ہونا بھی ایک نمایاں پاکستانی برانڈ پرسنالٹی خصوصیت ہے۔ ہم چھوٹی موٹی چیزوں کو دل پہ نہیں لیتے۔

آپ مثلاً کبھی ان لوگوں کو دیکھیے کہ جن پہ مبینہ طور پر بھتے کے لیے کراچی کی ایک فیکٹری میں ڈھائی سو سے زیادہ جیتے جاگتے بے گناہ انسانوں کو زندہ جلا کر مارنے کا الزام ہے تو یہ لوگ آپ کو تقریباً ہمیشہ ہی پوری ''بے فکری'' سے ہنستے مسکراتے نظر آئیں گے۔ اب بھلا چند سو عام انسانوں کو زندہ جلاکر مارنے جیسی عام سی بات پاکستانی برانڈ پرسنالٹی کی ''بے پرواہی'' جیسی خصوصیت کو کہاں متاثر کر پائے گی۔ ''حساسیت'' ایک لازمی پاکستانی برانڈ پرسنالٹی ٹری بیوٹ ہے۔

ہم ذمے داری کے بغیر اپنے حقوق کے بارے میں بڑے ''حساس'' ہیں بلکہ چاہے ہمارے سابق جمہوری پارلیمنٹرینز ہوں یا ایکٹو فورسز کے ممبران کرام سب ہی اپنی پوری ''حساسیت'' کے ساتھ ان چھوٹے موٹے بے وقوف ناعاقبت اندیش سرکاری اہلکاروں کو قرار واقعی سبق سکھاتے ہیں جو ''حساس'' لوگوں کے معاشرے میں مقام و مرتبے کا لحاظ کیے بغیر ان پہ بھی عام عامی عوام کی طرح قانون لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ ''ووکل'' یعنی ''بلند آہنگ'' ہونا ایک اور پاکستانی برانڈ پرسنالٹی خصوصیت، ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر اپنی نجی زندگیوں تک ہم پاکستانیوں کو اگر کوئی آواز سننی پسند ہے تو وہ ان کی اپنی آواز ہے۔

ہم پاکستانیوں جیسی برانڈ پرسنالٹی رکھنے والوں کا حکمراں طبقہ کچھ چالاک برانڈ منیجرز سا ہے۔ یہ اپنے نام نہاد مالکان یعنی عوام کو سب اچھا ہونے کی پریزینٹیشن دیتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ملک دو ٹکڑے ہونے جا رہا ہوتا ہے اور یہ پاکستان کے ''بچ'' جانے کی نوید دے رہا ہوتا ہے۔ ملک مفلوج کردینے والے قرضوں میں ناک تک ڈوب گیا ہوتا ہے اور یہ اقتصادی ''ترقی'' کی خوشخبری دے رہا ہوتا ہے۔ ملک رہے نہ رہے کچھ چالاک برانڈ منیجرز کی طرح اس طبقے نے بھی اتنا مال اکٹھا کرلیا ہے کہ اسے کچھ فرق نہیں پڑتا، مگر ہم جیسے پاکستانی برانڈ پرسنالٹی والوں کو شاید ایسے ہی برانڈ منیجرز ملنے چاہئیں، ہمیں یہی سوٹ کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں