بس ایک انتظار ہے
ان ماؤں کو سلام کہ اﷲ پاک ان شہید جوانوں کے والدین کو اور ان کے تمام گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے
KARACHI:
آج پھر ہم نے بے بسی دیکھی
آنگنوں میں بس اداسی دیکھی
کتنے ارمانوں کا دیکھا ہے خون ہوتے ہوئے
کتنے لالوں کے جنازے دیکھے!
ان ماؤں کو سلام کہ اﷲ پاک ان شہید جوانوں کے والدین کو اور ان کے تمام گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر میں خودکش دھماکے اور ہمارے نوجوانوں کے جنازے کوئی معمولی بات نہیں، ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک ساتھ کتنے ہی وکلا اسی قسم کے دھماکوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ کہا جارہا ہے اس کے پیچھے بھارت کی سازش ہے کچھ کہتے ہیں کہ اپنے بھی ملے ہوتے ہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ جب ہم حکومت کے خلاف کچھ کرنے جاتے ہیں اسی طرح کے دھماکے ہونے لگتے ہیں، کیا انسانی جانیں اتنی سستی اور بے کار ہوگئی ہے کہ ان کو اس طرح استعمال کیا جائے گا؟ کیا اﷲ موجود نہیں یا پھر طوافِ کعبہ کی حاضری سے سیکڑوں خون معاف ہوجائیںگے۔ ادھر ظلم اور ادھر طواف کعبہ، منافقت کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوگی۔ اﷲ نے تو حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور انسانوں کے قتل کی شدید مذمت اور ناقابل معافی گناہ کہا ہے تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو نہ تو دین کو مانتے ہیں اور نہ دنیا کو، پھر ان کی دنیا کیا ہے؟
کیا دلوں میں اپنوں کے لیے اتنی شدید نفرت، اتنی شدید چالیں ہیں کہ دوسروں کے ساتھ وفاداری نبھاتی جائے اور اپنے لوگوں کے گھر اجاڑے جائیں، اتنی بے بسی، اتنا ظلم، کبھی پاکستان کا حصہ نہیں رہا کہ 70،70 لوگ قابل لوگ اس طرح ماردیے جائیں۔
آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادتیں، سیکڑوں کی تعداد میں کہ آج تک والدین کو صبر ہی نہیں آیا اور آتا بھی کیسا؟ وکلا کی شہادتیں کہ پڑھے لکھے قابل لوگ کئی سالوں کی محنت و مشقت کے بعد ہی علم رنگ لاتا ہے اور انھیں بھی یوں سرعام صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے، ان جان کے دشمنوں کے لیے ہماری بد دعائیں ہیں کہ اﷲ ان کو اور ان کی اولاد کو بھی اسی طرح کی موت دے کہ انھیں احساس ہو، یہ مردہ جذبوں والے لوگ، انسانوں کا خون پینے والے لوگ جانے کہاں کہاں سے ہمارے شہروں میں، ہمارے ملک میں آبسے ہیں۔
پاکستان کی انٹیلی جنس ادارے کیوں نہیں ڈھونڈ نکالتے ان وطن فروشوں کو، جنھوں نے انسانوں کو جانوروں کی طرح ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یقین ہے اﷲ پاک پرکہ انشاء اﷲ ان ظالموں پر اﷲ کا عذاب ضرورنازل ہوگا۔
بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے بڑے ہونے تک، شادی بیاہ تک اور ان کی اولاد ہونے تک والدین ایک سفر میں رہتے ہیں، بے حساب دکھ سکھ برداشت کرتے ہیں، بے حساب قربانیاں دیتے ہیں اور جب یہ نوجوان درخت بننے لگتے ہیں، اس قابل ہونے لگتے ہیں کہ چھاؤں دے سکیں تو ماردیے جاتے ہیں، جوان لاشیں کس دل کے ساتھ والدین اٹھاتے یہ تو جس پر بیتتی ہے وہی جان سکتا ہے۔
مگر درد تو ہر ذی شعور انسان محسوس کرسکتا ہے آج بھی ہم سب یہ دکھ محسوس کررہے ہیں اور دکھی دل کے ساتھ ان خاندانوں سے ہمدردی کرتے ہیں، پورا ملک ان کے دکھ میں، غم میں شامل ہے۔اپنے اداروں سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ظالم لوگوں کو فوراً ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔
جانے کیوں اس اﷲ کی نعمتوں سے بھرے ہوئے ملک کو ہمیں سارے موسم، سارے رنگ، بے شمار زرخیزی، معدنیات، پہاڑیاں، دریا، سبزہ کیا کچھ نہیں ہے اس ملک میں کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی'' علامہ اقبالؒ نے جو فرمایا ویسا ہی یہ ملک ہے، بے انتہا ذہانت، بے انتہا بہادری، قربانیاں دینے والے جان نثار پھر یہ غدار، ظالم کیوں پنپ رہے ہیں۔
ہنستے مسکراتے شہروں میں موت کے سائے کیوں ہیں، خوبصورت وادیاں سبزہ سے لہلاتے گلزار میں گولہ بارود اور خون کیوں ہے، کوئی شک نہیں کہ دشمن تاک میں بیٹھا ہے، سی پیک منصوبہ بہت ساروں کے لیے عذاب بنا ہوا ہے اور ہم بہت امید لگائے بیٹھے ہیں، بار بار اس منصوبے کو ناکام بنانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ عملاً ناخوشگوار فضا پیدا کی جاتی ہے بلوچستان، وزیرستان، سوات، ضرب عضب آپریشن اب بھی دہشت گردوں کے لیے جاری وساری ہے اور اس میں ہمارے اپنے افواج کے جوان بھی شہادت پارہے ہیں، کامیابیاں بھی مل رہی ہے مگر کچھ ایسے اپنے بھی موجود ہیں جو ذاتی مفادات کے لیے، ذاتی خواہشات کے لیے اس ملک پر دانت لگائے بیٹھے ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ شاید ایک بڑے انقلاب کی ہمارے ملک کو بھی ضرورت ہے جس میں غداروں اور ملک فروشوں سے اس ملک کو پاک کیا جائے، ماؤزے تنگ اور دیگر انقلابی رہنماؤں سے اگر ہم کچھ سیکھتے ہیں تو شاید یہ ہمارے ملک کے لیے بہتر افواج کا کام سرحدوں کے دشمنوں سے لڑنا ہے مگر ہمارے ملک میں افواج کئی کام سرانجام دے رہی ہیں۔
بیرونی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی دباؤ بھی افواج پر بے تحاشا ہے، ادارے لولے لنگڑے ہوئے ہیں،کوئی انھیں ادھر سے کھینچتا ہے کوئی ادھر سے، پھر ان اداروں کے لیے مفادات بھی شروع ہوجاتے ہیں، رہ گئی عوام وہ لٹے جارہے ہیں پسے جارہے ہیں، خودکشیاں، اپنے آپ کو جلالینا، اپنی اولاد کو ماردینا یہ کب ہمارا کلچر تھا؟ مگر ایسے دور میں جہاں خون پینے والے لوگ سر چڑھ کر بیٹھے ہیں اورکوئی پوچھنے والا نہیں پھر یہی سب ہوتا ہے۔
جلسے جلوس میں پورے پورے دن شہر بند ہوجاتے ہیں، راستے بلاک ہوجاتے ہیں، مریض ایمبولینس میں ہی دم توڑ جاتے ہیں، ہمارے بچے اور خواتین اسپتال جانے کے لیے بھٹکتے رہتے ہیں، پولیس حکم کے غلام بنے ہوتے ہیں، انسان اور انسانیت کہیں نظر نہیں آتی، تقریریں آپ سنیں تو لگے گا کہ سارے جہان کا درد صرف ان ہی کے جگر میں ہے، بات غریبوں اور کسانوں سے شروع ہوتی ہے اور انھیں پر ختم ہوتی ہے مگر عملاً دولت ان ہی لوگوں کی بڑھ رہی ہوتی ہے اور انسان اور انسانیت کا روز یہ لوگ جنازہ نکالتے ہیں۔
یہ لوگ پکے اس قدر ہے کہ دولت کے پیچھے اپنی عزت و ناموس تک کو داؤ پر لگاچکے ہیں اب ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ آنکھوں میں شرم نہ الفاظ میں، کوئی تو ایک قدم آگے بڑھے، کوئی تو یہ سوچے کہ خالی ہاتھ ہی دنیا سے جانا ہے، کوئی تو شیر کی ایک دن کی زندگی کو ترجیح دیں پورے معاشرے کو بازار بنادیاگیا ہے۔
نوجوانوں کو ثقافت کے نام پر ناچنے گانے میں لگادیا گیا لڑکیوں کو فیشن کے جال میں الجھادیا گیا کہ بے چاریاں صبح سے شام تک صرف اسٹائلوں میں مصروف رہتی ہیں ،رہی سہی کسر اسمارٹ فون نے پوری کردی، پارلرز اور شاپنگ سینٹر کوبھرنے کے لیے صبح و شام پیکیجز اناؤنس ہوتے ہیں اگر آپ ہمارے ان الجھے ہوئے نوجوانوں اور لڑکیوں سے کوئی بھی تاریخی سوال پوچھیں تو یہ ایسے آپ کی شکل دیکھتے ہیں جیسے آپ کے سینگ نکل آتے ہیں۔ انتظار ہے صرف انتظار درستگی کا، انسانیت کا، فرعونیت کے خاتمے کا۔