غربت انسانی دماغ کی ساخت بدل دیتی ہے

غربت اور انسانی دماغ کے مابین حیران کُن تعلق!


ندیم سبحان میو October 30, 2016
افلاس زدہ بچوں کے دماغ میں خاکستری مادّہ (گرے میٹر) کم ہوتا ہے، نیوروسائنس کے نئے زاویے پر تحقیق جاری۔ فوٹو: فائل

ویڈیو میں ملالہ یوسف زئی کی کہانی دکھائی جارہی ہے۔ 2012ء میں یہ پاکستانی لڑکی پندرہ برس کی تھی جب طالبان نے اس کے سَر میں گولی مار دی تھی۔ اس وقت وہ اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ اسکول وین میں سوار تھی۔ اچانک اسکرین پر ملالہ نمودار ہوئی،''میں تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔'' اس نے اپنا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے کچھ لڑکیوں کو تیزاب پھینک کر جھلسا دیا تھا، اور کچھ کو قتل کردیا تھا '' مگر وہ مجھے نہیں روک سکے۔''

ایک پندرہ سالہ لڑکا سدرن کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے برین اینڈ کریٹیوٹی انسٹیٹیوٹ میں بینچ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر نوبیل انعام یافتہ پاکستانی لڑکی کی ویڈیو دیکھ رہا ہے، مگر سپاٹ چہرہ اس بات کا غماز ہے کہ ملالہ کی ولولہ انگیز کہانی اس پر کوئی بھی تأثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کا چہرہ بے تأثر اور کاندھے جھکے ہوئے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے سوال کیا کہ ویڈیو دیکھ کر اسے کیا محسوس ہوا۔ لڑکے نے سر جھٹکتے ہوئے جواب دیا،''مجھے نہیں معلوم۔''

یہ سُن کر محقق نے اس سے پوچھا کہ بڑا ہوکر وہ کس قسم کا انسان بننا چاہتا ہے۔ '' اچھا انسان '' جواب ملا۔

سوال و جواب کا سلسلہ آگے بڑھا:

'' کیا تم کالج میں پڑھنا چاہتے ہو؟''

'' ہاں ''

'' کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیا کرو گے؟ اس بارے میں کچھ سوچا ہے؟''

'' نہیں، ابھی نہیں،''

یہ لڑکا ان تہتر غریب نوجوانوں میں سے ایک ہے جن کا کیلے فورنیا یونی ورسٹی کی نیوروسائنٹسٹ میری ہیلن امورڈینو یانگ تحقیقی مطالعہ (اسٹڈی) کررہی ہے۔ پانچ سالہ تحقیق کا مقصد یہ جاننا ہے کہ ثقافت، خاندانی رشتے اور تعلقات، تشدد اور دیگر عوامل کس طرح انسانی دماغ کی تشکیل کرتے ہیں۔ میری کے زیرمطالعہ نوجوانوں کا تعلق جنوبی کیلے فورنیا کے مختلف علاقوں سے ہے۔ انھیں چالیس ویڈیو کلپس دکھائے جاتے ہیں۔ ہر کلپ ایک مختلف سچی کہانی پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اس کہانی کا مرکزی کردار اپنی آپ بیتی بیان کرتا نظر آتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کی آپ بیتی جیسی کچھ کہانیاں متأثرکُن اور ولولہ انگیز ہونے کی بنا پر منتخب کی گئی ہیں۔

عام حالت میں ویڈیو کلپس دکھانے کے بعد ایک بار پھر تمام نوجوانوں کو باری باری کلپس کے کچھ حصے دکھائے جاتے ہیں، مگر اس طرح کہ زیرمطالعہ نوجوان ایم آر آئی مشین پر دراز ہوتے ہیں اور فلم بینی کے دوران ان کے دماغ کا ردعمل ریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔ دو سال کے بعد پھر ان نوجوانوں کو ' برین اینڈ کری ایٹیو لیب' میں بلایا جاتا ہے کہ جو متنوع مرکز آموزش ہے۔ اس میں ایک ایم آر آئی اسکیننگ لیب، ملاقاتی دفاتر، جدید آرٹ اور فوٹوگرافی کی گیلیریاں، اور ایک پرفارمینس ہال بھی موجود ہے، جہاں ادبی پڑھت، سائنسی نمائشیں اور موسیقی کے کنسرٹ منعقد ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زیرمطالعہ نوجوانوں کے دماغ میں رونما ہونے والے تغیرات ریکارڈ کرنے کے لیے ایم آر آئی مشین پر لٹا کر کلپ دکھانے کا عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔

امورڈینو یانگ کی تحقیقی کے ابتدائی نتائج ایک پریشان کُن رجحان ظاہر کرتے ہیں: وہ بچے جو پُرتشدد ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، ایم آر آئی اسکینز کے مطابق ان کے دماغ کے شعور و آگاہی، فیصلے، اور اخلاقیات اور جذباتیت سے وابستہ حصوں کے درمیان فوری اعصابی رابطے اور باہمی تعامل کم زور ہوتا ہے۔

امورڈینو یانگ کا تحقیق مطالعہ ایک اُبھرتی ہوئی علمی شاخ کو فروغ دے رہا ہے جسے ''غربت کی دماغی سائنس'' کہا جاتا ہے۔ اگرچہ نیوروسائنس کی یہ نئی شاخ دماغی سرگرمی اور مخصوص ماحول کے باہمی تعلق پر زیادہ انحصار کرتی ہے، لیکن امورڈینو کی تحقیق ایک پریشان کُن نتیجہ ظاہر کرتی ہے: غربت اور اس سے اکثر منسلک پائی جانے والی صوت ہائے احوال جیسے تشدد، شوروغل، گھریلو چیخ پُکار، آلودگی، غذائی قلت، بُرا سلوک اور بے روزگار والدین، نوجوان دماغ کے اندر باہمی تعاملات، اور رابطوں کی تشکیل پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔

حال ہی میں منظرعام پر آنے والی دو مستند تحقیقی رپورٹوں کے بعد اس معاملے پر عوامی بحث مباحثے کی راہ کُھل گئی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں محققین نے بتایا ہے کہ غربت و مفلسی کا شکار بچوں کے دماغ کے مختلف حصوں جیسے دماغی اُبھار (hippocampus؛ یہ حصہ یادداشت سے متعلق ہے ) ، بالائی حصے ( frontal lobe؛ اس کا تعلق قوت فیصلہ، درپیش مشکل کا حل نکالنے، قوت متحرکہ، اور سماجی و جذباتی رویے سے ہے ) اور دماغ کے دونوں جانب کنپٹی کے اندرونی حصے ( temporal lobe؛ یہ حصہ نطق، حس باصرہ و سماعت اور خود آگاہی سے متعلق ہے) میں خاکستری مادّے (gray matter؛ یہ دراصل بافتیں ہیں جو مذکورہ بالا دماغی حصوں میں معلومات کی پروسیسنگ اور ان پر عمل درآمد میں معاونت کرتی ہیں) کی مقدار کم ہوتی ہے۔ ہدایات پر عمل درآمد ، ارتکاز توجہ اور سیکھنے کے مجموعی عمل کے ضمن میں دماغ کے ان اہم ترین حصوں کا باہم مربوط ہوکر کام کرنا کلیدی اہمیت رکھتا ہے، اور یہ تمام افعال تعلیمی میدان میں کام یابی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

2015ء میں JAMA Pediatrics نامی جریدے میں شایع ہونے والے تحقیقی مطالعے میں 389 افراد کو زیرتحقیق لایا گیا تھا۔ تمام افراد کی عمریں چار سے بائیس سال کے درمیان تھیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی کا تعلق ان گھرانوں سے تھا جن کی سالانہ آمدنی غربت کی مقررہ سرکاری حد (24230 ڈالر سالانہ برائے 2016ء ) سے بہت نیچے تھی۔ دوران تحقیق مفلسی کا شکار بچوں کے دماغ میں خاکستری مادّے کی کمی پائی گئی اور معیاری آزمائشی امتحانات میں ان کی کارکردگی بھی پست رہی۔

دوسرا کلیدی تحقیقی مطالعہ بھی اسی برس ''نیچر نیوروسائنس'' میں شایع ہوا۔ اس تحقیق کے دوران محققین تین سے بیس سال کی درمیانی عمروں کے 1099 افراد کو زیرمطالعہ لائے۔ انھوں نے دیکھا کہ جن بچوں کے والدین کی آمدنی کم تھی ان میں مختلف دماغی سطحوں کے رقبے مال دار والدین کے بچوں کی نسبت محدود تھے۔

اس بارے میں ہارورڈ یونی ورسٹی میں قائم سینٹر فار ڈیولپنگ چائلڈ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جیک شونکوف کہتے ہیں،''صحت اور سیکھنے کے عمل پر طبقاتی فرق کے اثرات کے بارے میں ہم بہت پہلے سے واقف ہیں،'' تاہم اب نیوروسائنس نے ماحول، رویے اور دماغی سرگرمی کے مابین ربط قائم کردیا ہے، اور اس ربط کی بنیاد پر تعلیمی اور سماجی پالیسیاں یکسر تبدیل ہوسکتی ہیں جیسے کہ 'ہیڈ اسٹارٹ اسٹائل' پروگرام جس میں روایتی طور پر ابتدائی خواندگی یعنی چھوٹی عمر میں تعلیمی سلسلے کے آغاز پر زور دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر جیک کے مطابق نئی حکمت عملیوں یا پالیسیوں کی بنیاد تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی اور جذباتی نمو پر بھی ہوسکتی ہے، کیوں کہ سائنس ہمیں اب یہ بتارہی ہے کہ رشتے اور ماحول کے ساتھ تعامل دماغ کے ان حصوں کی تشکیل پر اثرانداز ہوتے ہیں جو رویوں (جیسے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ) کنٹرول کرتے ہیں۔ اس فعل کی بنیاد پر یہ دماغی حصے تعلیم سے جُڑے افعال (جیسے پڑھنے کی صلاحیت) وغیرہ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شونکوف کہتے ہیں کہ ہم حیاتیاتی انقلابات کے دور میں سانس لے رہے ہیں۔ ایک انقلاب وہ ہے جس میں ہونے والی دریافتیں ہمیں فطرت اور انسان کی پرورش کے مابین واسطے اور تعلق کی حقیقی فہم عطا کررہی ہیں۔



انیس سالہ اسٹیفنی ورگیرا جب اپنے جنوبی لاس اینجلس میں واقع اسکول کے بارے میں سوچتی ہے تو تصور میں میٹل ڈٹیکٹر، پولیس کے کھوجی کتے اور دنگا فساد کے مناظر ابھر آتے ہیں۔ ایک بار اچانک اسکول میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، جب انتظامیہ نے طلبا کو کمرہ ہائے جماعت میں عملاً بند کردیا تھا۔ انھیں کمروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس اقدام کی وجہ انتظامی افسران نے اسکول کے باہر جرائم پیشہ گروہ کی موجودگی بتائی تھی۔ عمارت کے اطراف میں گروہ کی سرگرمیوں سے خوف زدہ انتظامیہ نے بچوں کو کلاس روم تک محدود رہنے کا پابند کردیا تھا۔

یہ صورت حال ایک ہفتے تک برقرار رہی تھی۔ ورگیرا کی چھوٹی بہن، سولہ سالہ ونیسا کی یادداشت میں وہ خوف زدہ کردینے والا واقعہ آج بھی تازہ ہے۔ وہ اپنی سہیلی راکیل کی ہمراہی میں فزیکل ایجوکیشن کے لیے مختص میدان میں سے گزر رہی تھی جب اچانک پانچ لڑکیوں کے گروپ نے انھیں گھیرلیا۔ انھوں نے ونیسا کو تو دو چار ہاتھ لگاکر چھوڑ دیا مگر راکیل کو اس وقت تک پیٹتی رہیں جب تک کہ اس کے ناک منھ سے خون جاری نہیں ہوگیا۔ گروپ کی اراکین کے خیال میں ونیسا کی سہیلی زیادہ سخت جان بننے کی کوشش کررہی تھی۔ اس کی 'اکڑ ' نکالنے کے لیے اسے خون میں نہلادیا گیا تھا۔

اسی نوع کے واقعات کے باعث ورگیرا اور ونیسا، دونوں بہنوں نے اسکول میں رہتے ہوئے کبھی خود کو محفوظ نہیں سمجھا۔ اجنبی چہرے، جن میں بچوں کے علاوہ بڑے بھی شامل ہوتے تھے، کھڑکیوں کی ٹوٹی ہوئی سلاخوں میں سے گزر کر اندر داخل ہوجاتے تھے۔ جرائم پیشہ گروہوں کے اراکین چھٹی کے وقت اسکول کے باہر جمع ہوجاتے تھے۔ ونیسا کے مطابق ان کے ہاتھوں میں چرمی بیلٹس ہوتی تھیں، اور وہ بچوں کے اسکول سے باہر نکلنے کے منتظر ہوتے تھے۔

ہائی اسکول میں صورت حال اگرچہ بہتر تھی مگر ہمیشہ برقرار نہیں رہتی تھی۔ ونیسا کو یاد ہے ایک بار انتہائی ہنگامی صورت حال پیش آئی تھی جب اسکول کے اطراف میں گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دینے کے فوری بعد اسکول کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے طلبا کو جم خانے تک محدود کردیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ یک اسلحہ بردار شخص اسکول کے احاطے میں گھس آیا تھا۔

ونیسا اور اسٹیفنی، بڑی بہن اور ایک بھائی کے ساتھ اس گھر میں پلی بڑھی تھیں جس کا رقبہ محض 950 مربع فٹ تھا۔ ان کی ماں اور باپ تارکین وطن تھے جن کی پہلی ملاقات ایک ملبوسات ساز فیکٹری میں ہوئی تھی۔ انھوں نے یہ گھر 1999ء میں کئی برسوں کی کفایت شعاری کے بعد جمع ہونے والی رقم سے اقساط پر حاصل کیا تھا۔ ان کے علاقے میں چار بدمعاش گروہوں کا راج تھا جو ایک دوسرے کے حریف تھے، اور اکثر وبیشتر ان میں جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔

2013 ء میں ورگیرا ایک زیرتحقیق فرد کی حیثیت سے امورڈینو یانگ کی اسٹڈی کا حصہ بن گئی۔ دوسرے نوجوانوں کے مانند وقفے وقفے سے ویڈیوز دیکھنا اور ایم آر آئی اسکین کروانا اس کا بھی معمول بن گیا۔ (ورگیرا کو سرطان کا شکار ایک بچی کی کہانی یاد تھی جس نے اپنے علاج کے لیے لیموں کے شربت کی فروخت کے ذریعے رقم اکٹھی کرنے کا آغاز کیا تھا)۔ اس کہانی نے ورگیرا میں ایک تحریک پیدا کردی تھی، پھر جب اس نے امورڈینو یانگ کی پیش کش کے بارے میں سُنا تو فوراً اس تحقیق کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوگئی۔ اسے تحقیق کے لیے مزید بچے اور نوجوان مہیا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ورگیرا کے لیے یہ کام کچھ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا، کیوں کہ اس افلاس زدہ علاقے کے 43 فی صد خاندان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔

تحقیق کا حصہ بننے سے پہلے ہی ورگیرا کو علم تھا کہ قرب و جوار کی متمول آبادیوں کے مکینوں کا اس علاقے کے باسیوں کی زندگی کے بارے میں زاویۂ نگاہ کیا ہے، نیز محققین اس کا اور اس کے ہم جماعتوں کا مطالعہ کرنے میں کیوں دل چسپی رکھتے تھے۔ بعدازاں جب اس نے اپنے ہم جماعتوں کے ایم آر آئی اسکین دیکھنے شروع کیے تو اسے ایک تشویش ناک امر کا ادراک ہوا۔ ورگیرا کے بیان کے مطابق ایم آر آئی اسکین کا تقابل کرنے سے اس پر انکشاف ہوا کہ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی دماغی نشوونما مال دار علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے دماغوں کی طرح نہیں ہورہی تھی۔

نوجوان لڑ کی اس وقت تک نہیں جانتی تھی کہ ذہنی دباؤ پر ردعمل ظاہر کرنے والے جسمانی نظام (اسٹریس رسپانس سسٹم) اور دماغی نشوونما کے مابین براہ راست تعلق ہوتا ہے، اور غریبوں کو تو ذہنی دباؤ ورثے میں ملتا ہے۔ دونوں بہنوں کو معلوم ہوجاتا تھا کہ ان کے علاقے میں کب گروہوں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں۔ انھیں یہ بھی علم تھا کہ علاقے کے کس حصے پر کس گروہ کی اجارہ داری ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ آس پاس کی گلیوں میں رہنے والا کون سا شخص کس گروہ سے وابستہ ہے نیز یہ کہ ان کے ایلیمینٹری اسکول میں زیرتعلیم کون کون سے بچے ان گروہوں میں نئے نئے بھرتی ہوئے ہیں۔ ورگیرا نے کسی کو گولی لگتے ہوئے نہیں دیکھا تھا البتہ اپنی خواب گاہ کے باہر سے گولیوں کے گزرنے کی زناٹے دار آوازیں بارہا سنی تھیں۔

امورڈینو یانگ کہتی ہیں کہ کسی فرد کے تشدد سے متأثر ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ اس کے سینے میں گولی لگی ہو ۔ محقق کے مطابق،''اس قسم کا ماحول آپ کی حیاتیات (بایولوجی) کو باور کراتا ہے کہ آپ خوف زدہ کردینے والے سماج میں جی رہے ہیں۔۔۔۔ یہ ایک خطرناک اور گھٹیا جگہ ہے جہاں کچھ بھی رونما ہوسکتا ہے، اور آپ دوسرے لوگوں کے اچھا ہونے پر یقین نہیں کرسکتے۔'' ذہنی دباؤ کی اس حالت میں دماغی ساخت میں تغیر واقع ہوتا ہے۔ معانقہ عصبی ( Neural synapses، یہ وہ مقام ہے جہاں سے ایک دماغی خلیہ دوسرے خلیے کو برقی یا کیمیائی اشارات منتقل کرتا ہے) میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، اور آپ کے دماغی یا عصبی خلیے یعنی نیورون مختلف انداز سے فائر ہونے لگتے ہیں۔ علاوہ ازیں دماغ میں سرایت کرجانے والے اسٹریس ہارمون ضرورت سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

بیشتر لوگ، جب بندوق کی زد پر آجائیں تو ان کا جسم ردعمل ظاہر کرتا ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ''فائٹ آر فلائٹ رسپانس'' (ڈٹ جاؤ یا بھاگ جاؤ) کہا جاتا ہے۔ اس ردعمل کے دوران ہارمونز ، بشمول کورٹیسول اور ایپنیفرائن کا اخراج ہوتا ہے جو عضلات کو برق رفتاری سے طاقت اور توانائی بہم پہنچاتے ہیں۔ نورپائنفرائن، ایڈرینالائن اور ڈوپامائن جیسے نیوروٹرانسمیٹر amygdala میں پہنچتے ہیں جو دماغ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ دل کو تیزی سے دھڑکنے اور پھیپھڑوں کو عمل تنفس کی رفتار بڑھانے کی ہدایت جاری کرے۔

اس کیفیت میں جذبات کی شدت اور حس سامعہ اور باصرہ عروج پر پہنچ جاتی ہیں، اور جسم جان بچانے کی خاطر بھاگنے یا پھر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ انتہائی ذہنی و جسمانی دباؤ کے اثرات اس صورت حال سے نکل آنے پر زائل نہیں ہوجاتے۔ لندن کے کنگز کالج کے محققین نے مسلح راہ زنی کا شکار ہونے والے 106 افراد کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے 33 فی صد post-traumatic stress disorder (پس صدمہ ذہنی و جذباتی دباؤ) میں مبتلا تھے، جب کہ 80 فی صد کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں سے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔

اب ذرا تصور کیجیے گھر سے باہر نکلتے ہوئے آپ کا سامنا روزانہ درجنوں تشدد پسند مجرموں سے ہوتا ہے۔ کسی بھی لمحے یہ آپ پر حملہ آور ہوسکتے ہوں، اسلحے کے زور پر آپ سے لوٹ مار یا جنسی تشدد کرسکتے ہوں یا پھر گولی مار سکتے ہوں۔ اس ماحول میں آپ کا جسم مستقل طور پر زاید مقدار میں ہارمون کا اخراج کرتا رہے گا۔ کچھ وقت کے بعد جسم بھی ہارمون کی زائد مقدار کا اثر زائل کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ آپ کا دماغ مستقل طور پر '' ڈٹ جاؤ یا بھاگ جاؤ'' کی حالت میں رہے گا۔

یہ شدید ذہنی دباؤ اسٹیم سیلز، دماغی روابط، اور دماغی خلیوں کے ارتقا میں مزاحم ہوتا ہے۔ امورڈینو یانگ کی تجربہ گاہ میں یہ جانچنے کے لیے برین اسکینز کا جائزہ لیا گیا کہ آیا پُرتشدد ماحول نوجوانوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی اور اہداف کا تعین کرنے، اخلاقی فیصلے کرنے اور جذباتی استحکام برقرار رکھنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں۔ محقق کے مطابق جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوجوانوں کے دماغوں میں جاری سرگرمی زیادہ منظم، پختہ، اور مربوط نہیں تھی۔

گھریلو لڑائی جھگڑے، نظرانداز کیے جانے اور بُرے سلوک کے بھی نوجوانوں کے دماغ پر یہی اثرات نظر آئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ حیاتیاتی۔ اعصابی اثر نوبالغوں کے علاوہ چھوٹے بچوں یہاں تک کہ نومولودوں کو بھی گرفت میں لیتا دکھائی دیا۔ وسکونس میڈیسن یونی ورسٹی کے محققین کی 77 بچوں پر کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ غریب گھرانوں میں پیدا ہونے والے پانچ ماہ تک کی عمر کے بچوں کے دماغ کے اطراف اور بالائی حصے میں خاکستری مادّے پر مشتمل ٹکڑے دولت مند گھرانوں میں جنم لینے والے بچوں کے مقابلے میں مختصر ہوتے ہیں۔ تازہ تحقیق اور قبل ازیں بچوں کے دماغ میں جاری سرگرمیوں پر ہونے والی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں بھی غربت کے اثرات انسانی دماغ پر مرتب ہوتے ہیں اور اس کی نشوونما کو متأثر کرسکتے ہیں۔

دماغی نشوونما پر غربت کے اثرات پر کی جانے والی تحقیق کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں اس نوع کی سرخیاں نشر و شائع ہورہی ہیں؛ '' غربت کیسے بچوں کی دماغی نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہے؟''، ''غربت پیدائش کے وقت ہی سے دماغ کو جکڑ لیتی ہے''، ''عسرت زدہ لوگ زیادہ تر غلط فیصلے کیوں کرتے ہیں؟'' شونکوف کہتے ہیں کہ اس قسم کی زبان استعمال کرنا خطرناک ہے کیوں کہ اس سے طبقاتی اختلافات اور غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں اور بعض اوقات بات لڑائی جھگڑوں تک پہنچ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس بنیاد پر برتری کا تصور بھی جنم لے سکتا ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ میں ان تحقیقی رپورٹوں کی نشر و اشاعت احتیاط کی متقاضی ہے۔

مشی گن یونی ورسٹی میں قائم قومی مرکز برائے غربت کے مطابق امریکا میں غربت کی سطح اقلیتی آبادیوں میں بلند ہے۔ مردم شماری سے متعلق اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2014ء میں غربت کی قومی شرح 14.8 فی صد تھی۔ تاہم افریقی یعنی سیاہ فام امریکیوں میں یہ شرح 26.2فی صد اور لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے باشندوں میں 23.6 فی صد تھی۔ ان کے مقابلے میں 10.1 سفید فام اور 12 فی صد ایشیائی نژاد امریکی غربت کا شکار تھے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ غربت کی شرح تمام علاقائی و نسلی گروہوں میں یکساں نہیں ہے۔

لوئی ویل یونی ورسٹی میں پین افریکن اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈبلیو کارسن برڈ کہتے ہیں کہ ( امریکا میں ) اقلیتوں کے غربت کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، یوں ان تحقیق اور ( درج بالا) سرخیوں کی بنیاد پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو یہ 'طعنے' بھی سننے کو مل سکتے ہیں کہ وہ سفید فام بچوں کے مقابلے میں نااہل اور غبی ہیں۔ تاہم صرف غریب کے گھر پیدا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بچے کی دماغی نشوونما موروثی طور پر متأثر ہے، بل کہ غربت کے مختلف پہلو اور غریبوں کے ساتھ معاشرے کا برتاؤ؛ یہ دونوں عوامل دماغ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

رہائش گاہوں کی فراہمی میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برت کر انھیں غیرمحفوظ اور شکستہ مکانوں میں گزارے پر مجبور کردینا، اساتذہ کا متعصبانہ سلوک، پیٹ بھر خوراک نہ ملنا، اور عسرت زدہ آبادیوں میں ٹوٹے پھوٹے اسکول؛ یہ تمام عوامل غریب بچوں کی دماغی نمو میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ان کے لیے لکھنا پڑھنا مشکل کرسکتے ہیں۔ تاہم شینکوف کے مطابق یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔

عسرت زدہ آبادیوں میں ایسے بچے بھی مل جائیں گے جن کے دماغ بالکل نارمل ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غربت ایک جانب صرف آمدنی کا پیمانہ ہے، یہ انفرادی حیثیت میں دماغی حیاتیاتی زندگی پر وہ اثرات مرتب نہیں کرسکتی جو تشدد اور بُرے سلوک کا دباؤ مرتب کرتا ہے۔ غربت زدہ اور جرائم پیشہ گروہوں کے زیراثر علاقوں میں رہنے کے باوجود کچھ بچے خود کو محفوظ ماحول میں پروان چڑھتا محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے والدین نے انھیں تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ناموافق حالات سے نمٹنے کے لیے ذہنی اور جذباتی طور پر تیار کررکھا ہوتا ہے۔

والدین، اساتذہ اور دیگر متعلقہ افراد بچوں میں احساس تحفظ جگاکر اور انھیں ناموافق حالات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرکے ان کے جسم میں ''فائٹ آر فلائٹ سسٹم'' کو مستقل طور پر 'آن' رہنے سے باز رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح بچوں کے اندر ناموافق حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی جو ان کے دماغوں کو نقصان سے محفوظ رکھے گی۔

شینکوف کے مطابق،''بات اسٹریس سسٹم کو ابتدائی یا عام حالت پر لانے اور تشدد یا غربت کے بوجھ کو سہارنے کی اہلیت پیدا کرنے کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے ذہنی دباؤ سے نمٹنا سکھایا جائے۔'' اگر ناموافق ماحول کی وجہ سے بچے کی اعصابی بنیاد کم زور ہوچکی ہے تو بھی کوئی بات نہیں کیوں کہ دماغی نشوونما کا عمل جاری رہتا ہے۔ اعصابی سرکٹ ماحول کا اثر قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت کُھلے رہتے ہیں۔

دماغ کی خودتشکیلی کی صلاحیت بہ وقت پیدائش اور بچپن کے زمانے میں عروج پر ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت گھٹتی چلی جاتی ہے مگر کبھی ختم نہیں ہوتی۔ 15سے 30 سال کی عمر کے درمیان دماغ میں خودتشکیلی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوبالغ اور نوجوان راہ نمائی اور تربیت کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں، طفلی رویوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ افلاس زدہ علاقوں سے متعلق سماجی منصوبوں اور پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے اور وہاں جرائم، آلودگی، افراطِ آبادی اور تشدد میں کمی لانے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے، نیز ابتدائی پانچ برسوں میں بچے کی نشوونما کے لیے والدین کی اعانت کی جائے۔ نئے منصوبوں میں بچے کے ساتھ ساتھ ماں کو بھی مدنظر رکھا جائے جو غربت میں پلنے بڑھنے کے باعث ناموزوں حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہوتی ہے، اور نتیجتاً یہ صلاحیتیں اپنے بچوں کو منتقل نہیں کرسکتی۔

اسکولوں کے نصاب میں ابتدائی سطح پر سماجی اور جذباتی رویوں کی تفہیم سے متعلق کورس متعارف کروائے جاسکتے ہیں جن کی مدد سے بچے اپنے جذبات کو سمجھیں اور صدموں اور ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے جذبات پر خصوصی توجہ دے سکیں۔ اس قسم کے کورسز کو لازمی مضامین کی فہرست میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

ورگیرا کو امورڈینو یانگ کے ساتھ انٹرن شپ مکمل کیے ہوئے دو برس گزر چکے ہیں۔ گذشتہ برس اس نے ہائی اسکول سے 3.8 گریڈ پوائنٹ کی بلند اوسط سے گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔ اب وہ مکمل اسکالر شپ پر سان جوز اسٹیٹ یونی ورسٹی سے بایومیڈیکل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ ورگیرا کے مطابق طلبا کو جب اس کے پس منظر کا علم ہوتا ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ غربت زدہ علاقے اور جرائم پیشہ گروہوں کے گڑھ میں رہنے کے باوجود وہ یہاں تک کیسے پہنچی؟

ورگیرا اس سوال کے جواب سے اچھی طرح واقف ہے۔ اپنے گھر میں رہنا اس کے لیے کسی بحالی کیمپ میں رہنے جیسا تھا۔ سڑکوں پر اور گلیوں میں رونما ہونے والے واقعات اور جاری سرگرمیوں پر ورگیرا کے والدین کا قابو نہیں تھا، مگر گھر کے اندر انھوں نے بہترین ماحول برقرار رکھا۔ گھر کے داخلی دروازے کے ساتھ موجود چھوٹا سا باغیچہ آج بھی آس پاس کے تمام گھروں سے زیادہ سرسبز و شاداب ہے، جس میں سرخ، گلابی، ارغوانی، اور زرد گلابوں کے پودے لگے ہوئے ہیں۔ بے داغ مہمان خانے کی دیواروں پر بھی سرخ گلابوں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ گلابوں کے ساتھ اہل خانہ کی فریم شدہ تصاویر دیواروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف پینٹنگز اور مجسموں سے کمرہ سجا ہوا ہے۔

ورگیرا کی خواب گاہ میں اس کی دونوں بہنیں اور ننھا بھانجا بھی سوتا ہے۔ تنگ دستی کے دنوں میں ورگیرا کے والدین نے انھیں اپنے سخت حالات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔ وہ اصول پسند تھے اور انھوں نے کام اور سماجی میل جول کے لیے سخت اصول اپنا رکھے تھے، مگر انھوں نے ورگیرا اور اپنی دوسری بیٹیوں کو اتنا اعتماد بخشا تھا کہ وہ ان سے بلا جھجک بات چیت کرسکتی تھیں۔ والدین نے ان کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ ان کے علاوہ بھی اپنے رول ماڈل اور محافظ تلاش کریں۔ ورگیرا اور اس کی بہنیں اپنے بلاک کے تمام جرائم پیشہ افراد کے نام سنتے اور ان کے چہرے دیکھتے ہوئے جوان ہوئی تھیں مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ پریشان کُن صورت حال پیدا ہوجانے پر کون کون ان کی مدد کرسکتا ہے جیسے ان کے گھر سے کچھ ہی دور واقع آئس کریم کی دکان کا مالک یا پھر ان کے ہم درد ہمسائے۔

ورگیرا کے والی بال کوچ نے کیلے فورنیا یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی کے توسط سے اس نے بایومیڈیکل انجنیئرنگ کے بارے میں جانا۔ بعدازاں اس نے اسی مضمون میں ڈگری لینے کا ارادہ کیا۔ کوچ ہی نے اسے امورڈینو یانگ سے متعارف کروایا تھا۔ اسی یونی ورسٹی کے محققین نے وقت نکال کر ورگیرا کو نہ صرف دماغ کے بارے میں پڑھایا بلکہ اس کے کام میں بھی مدد کی۔

ورگیرا کو اپنی خوش قسمتی کا احساس ہے کہ اسے بہت اچھے طریقے سے پرورش کرنے والے والدین، اتالیق اور ہم درد میسر آئے۔ تاہم اس کے دوستوں کو نہ تو ایسے لوگ ملے اور نہ ہی کوئی امدادی نظام میسر آسکا۔ زمانۂ طالب علمی کے برسوں کے دوران ورگیرا نے خوب مشاہدہ کیا کہ اساتذہ اور انتظامیہ نے طلبا کو باصلاحیت اور نااہل بچوں میں بانٹ رکھا تھا اور اس تقسیم کی بنیاد پر ہر گروپ سے مختلف برتاؤ کیا جاتا تھا، لیکن یہ نئی سائنس ظاہری رویے اور آموزش کی مشکلات سے کہیں آگے کے معاملات پر روشنی ڈال رہی ہے، جن کا تعلق دماغ کی نشوونما اور ماحول کے مابین تعلق سے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں