زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں
پاکستان میں ایسا کون ہے جو کرپشن کے وجود سے انکار کرے، یہ ایسا سچ ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں۔
طویل وقفے کے بعد پھر قلم اٹھانے کو دل چاہا ہے۔ میرے دوست و قارئین یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جناب یہ گاہے گاہے باز خواں کی وجہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں بس یہی کہوں گا' صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ روز و شب کی مصروفیات نے کچھ ایسے باندھ رکھا ہے کہ قلم و قرطاس کی طرف دھیان کا وقت نکالنا خاصا مشکل ہو گیا ہے۔
میں چونکہ ایک پاکستانی اور پنجابی بھی ہوں' اس لیے ٹائم مینجمنٹ جیسے سائنسی جھنجھٹ اپناتے ہوئے خاصی الجھن ہوتی ہے' بہر حال کوشش جاری ہے' کسی دن کامیاب بھی ضرور ہو جاؤں گا۔ آج قلم اس لیے اٹھایا کہ عمران خان کے دھرنے کا انجام میرے سامنے آ گیا۔
یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے ایک بار حکمرانوں کے چھکے چھڑا دیے' اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنی آنسو گیس ضایع نہ کی جاتی۔ ایف سی اور پولیس کی دن رات کی نیند حرام نہ ہوتی لیکن کیا کریں خان صاحب کے مقدر کا۔ کرکٹ میں اکثر بیٹسمینوں کے ساتھ یہ المیہ ہوتا ہے کہ جب وہ 90سے اوپر چلے جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں' سینچری نہیں بنا پاتے اور نروس نائنٹیز کا شکار ہو کر آؤٹ ہو جاتے ہیں۔
عمران ایک بار پھراپنا حتمی مقصد حاصل نہیں کر سکے۔ آغاز میں وہ حکومتی باؤنسرز سے گھبرائے اور پھر عدالتی گگلی پر آسانی سے کیچ آؤٹ ہو گئے۔ ان کا پہلا دھرنا تاریخ ساز تھا۔ انھیں طاہر القادری کی مدد بھی حاصل تھی اور شاید امپائر کے دل میں بھی ہمدردی موجود تھی۔ ایک موقع پر یہ کامیاب ہوتا بھی نظر آیا لیکن پھر پس پردہ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا فائدہ میاں نواز شریف کو پہنچا۔ عمران خان اور طاہر القادری بغیر کچھ حاصل کیے میدان جنگ سے لشکر اٹھا کر گھروں کو چلے گئے۔
اس وقت یہی سمجھا جا رہا تھا کہ اب میاں نواز شریف اور ان کی حکومت خطرے سے باہر آ گئی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف لمبے عرصے تک اس شاک سے باہر نہیں آ سکے گی لیکن سیاست میں اچانک ایشوز پیدا ہوتے اور پھر یہ ایسا رخ اختیار کر لیتے ہیں جنھیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سیاست کے پرسکون سمندر میں پانامہ لیکس کا دھماکا بھی اچانک ہوا تھا جس نے عمران خان کو نئی سیاسی زندگی دے دی۔
پاکستان میں ایسا کون ہے جو کرپشن کے وجود سے انکار کرے۔ یہ ایسا سچ ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں لیکن خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں۔ آپ وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھ لیں' وہ بھی کہیں گے کہ پاکستان کو کرپشن نے تباہ کر دیا ہے' میں کرپشن کو برداشت نہیں کروں گا۔ آپ آصف زرداری سے بات کریں' وہ بھی کرپشن کا رونا روئیں گے' وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف تو ہر وقت کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے ہیں۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر سیاستدان' بیوروکریٹ' جج' جنرل' صنعتکار' جاگیردار' مزدور اور کسان کرپشن کے وجود کو مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ ختم نہیں ہو گی پاکستان ترقی نہیں کر سکتا' مسئلہ صرف اندھیرے میں کرپشن کی کالی بلی پکڑنے کاہے۔ ایسے ماحول میں پانامہلیکس نے پاکستان میں کرپشن کے وجود کی موجودگی پر مہر لگا دی ہے۔
عمران خان اور ان کے حامی جو 2014 کے دھرنے کی ناکامی سے مایوسی کا شکار تھے' انھیں پانامہ کی شکل میں نیا سیاسی کارڈ مل گیا۔ میاں نواز شریف کے صاحبزادوں کے نام اس لیکس میں شامل ہے لیکن وہ خود اس سے باہر ہیں لیکن پھر نجانے کیوں انھوں نے پانامہ لیکس کے بم کو خود لات ماری اور قوم سے خطاب کر کے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی' پھر کیا تھا عمران خان ہی نہیں بلکہ ساری اپوزیشن جماعتوں کی توپوں کا رخ ان کی طرف مڑ گیا۔
پہلے خطاب کے بعد انھوں نے دوسرا خطاب کیا' تحقیقاتی ٹریبونل بنانے کا اعلان کیا لیکن خان صاحب اور اپوزیشن نے اسے مسترد کر دیا' پارلیمنٹ میں اس پر تقریریں ہوئیں اور پھر ٹی او آرز پر پنگ پانگ جاری رہی لیکن پاکستان کی تاریخ کے اس اہم ترین مسئلے پر تحقیقات کا باقاعدہ آغاز نہ ہو سکا۔ کہتے ہیں سر سلامت ہوں تو ٹوپیاں بہت، اسی طرح سیاست میں ایشو موجود رہیں تو جلسے ریلیاں بہت۔
پانامہ پیپرز کے ایشو پر عمران خان کی سیاست کو نئی زندگی ملنا شروع ہو گئی۔ ان کا موقف حکومت کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور منطقی رہا۔ انھوں نے دوبارہ جلسے شروع کر دیے اور نوبت ایک بار پھر دھرنے یا لاک ڈاؤن تک پہنچ گئی۔ جیسے جیسے دھرنے کی تاریخ نزدیک آنا شروع ہوئی' افواہوں' قیاس آرائیوں اور خیال آرائیوں کا طوفان امڈ آیا۔
عمران خان کے جارحانہ بیانات، تقریروں اور پراسرار افواہوں' قیاس آرائیوں اور خیال آرائیوں نے ایسا ماحول بنا دیا کہ مسلم لیگی حلقوں کو بھی یقین آنے لگا کہ 2نومبر کو اسلام آباد بند ہو جائے گا' سرکاری دفاتر پر قبضے ہو جائیں گے اور پھر فوج نواز شریف سے استعفا لے کر انھیں گھر بھیج دے گی۔ اس نادیدہ خوف نے حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ پی ٹی آئی کو ریاستی قوت سے روکا جائے۔
حکومت نے 28اکتوبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی یوتھ کنونشن کو ناکام بنانے کے لیے پولیس اور ایف سی کو استعمال کرکے اپنی اس حکمت عملی کو آشکار کردیا۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ اسلام آباد' راولپنڈی ہی نہیں پنجاب میں بھی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوئیں' پشاور' اسلام آباد موٹروے بند کر دی گئی، پھر جو کچھ ہوا' ٹی وی چینلز پر پاکستان کے عوام اور دنیا نے سب کچھ دیکھا۔ یہ بوکھلاہٹ اور خوف کا نتیجہ تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف اور عمران خان دونوں کو اس بحران سے نکلنے کا موقع فراہم کیا' اور پانامہ لیکس کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ عدالت عظمیٰ تحقیقاتی کمیشن بنائے گی۔ عمران خان آج پریڈ گراؤنڈ پر یوم تشکر کے نام پر جلسے سے خطاب کریں گے اور پھر سستانے کے لیے گھر چلے جائیں گے۔ حکومت اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی جان میں جان آئی ہے' وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں دعا کرائی ہے کہ یا اللہ تیرا شکر ہے' بحران ٹل گیا اور کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں صاحبان کس قدر دباؤ میں تھے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز ہر بحران ٹلنے پر صرف اللہ کا شکریہ ادا کریں گے اور اپنی پوٹلی اٹھا کر پرانے راستے پر خراماں خراماں چلنے لگیں گے یا اپنے طرز عمل اور گورننس پر بھی توجہ دیں گے۔
فوج سے پنگے بازی جاری رہے گی' کسی دوسرے کو ترقی کا راستہ نہیں دیا جائے گا بلکہ سیاسی مخالفوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی، وسائل صرف اپنے وفاداروں میں ہی تقسیم کرنے کی پالیسی جاری رہے گی تو انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ دو دھرنوں سے بچ نکلے ہیں لیکن کوئی دھرنا پھر بھی آ سکتا ہے' ہو سکتا ہے کہ چہرے کوئی اور ہوں لیکن مقصد وہی ہو گا جو عمران خان کا ہے۔ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔