پھر اردو کانفرنس کی طرف
جب ہندوستان اور پاکستان کے لوگ دور دور کی بستیوں میں جابسے تو انھیں دو چیزوں کی یاد ستانے لگی۔ نہاری اور مشاعرہ۔
ہم خود یہ سوچ رہے تھے اور ہاتھ مل رہے تھے کہ کراچی کی اردو کانفرنس میں کیسے کیسے مضمون زیر بحث آئے۔ کیسی کیسی گرما گرم بحثیں ہوئیں۔ ہم نے اپنے کالم میں وہاں سے کتنا سمیٹا۔ نہ سمیٹنے کے برابر۔ چلو اچھا ہوا کشور ناہید نے ہمارے لیے مزید بات کرنے کا بہانہ پیدا کردیا۔ انھوں نے اس کلیدی خطبے کا حوالہ دیا ہے جس کی دو حصوں میں تقسیم پروگرام ترتیب دینے والوں نے اس طرح کی تھی کہ ہندوستان میں بعد از تقسیم ادب کا جائزہ شمیم حنفی پیش کریں گے۔ پاکستانی ادب کے جائزے کی ذمے داری ہمیں سونپی گئی۔ مگر شمیم حنفی نے سوال اٹھایا کہ یہ تقسیم کیوں کی گئی ہے۔ میں تو اپنے یہاں کے ادب پر پاکستان میں لکھی جانے والی تحریروں کے حوالے کے بغیر بات ہی نہیں کرسکتا۔ مطلب یہ کہ میرے لیے اردو ادب کی روایت ایک ہے۔
مگر یہ صورت تو ہمارے ساتھ بھی ہے۔ ہندوستان میں جو ہمارے ہم عصر ہیں ان کے حوالے کے بغیر تو ہم عصر ادبی صورت حال ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ارے ہم سے بڑھ کر یہ معاملہ عسکری صاحب کے ساتھ تھا۔ نئے نئے پاکستانی جوش میں انھوں نے پاکستانی ادب کا یہ تصور تو پیش کیا تھا کہ وہ ہندوستانی ادب سے الگ پہچانا جائے۔ مگر یہ کہ اس کا ہندوستان کے اردو ادب سے واسطہ ہی نہ ہو، یہ تو ان کا مطلب نہیں تھا۔ وہ یہ سوچ بھی کیسے سکتے تھے۔ اردو غزل کی بات کرتے ہوئے وہ فراق صاحب کے حوالے کے بغیر اپنی بات ہی نہیں سمجھا پاتے تھے۔ اردو غزل پر کیا موقف ہے۔ فراق صاحب کے حوالے کے بغیر تو وہ نوالہ نہیں توڑتے تھے۔ تو بیشک جب زبان ایک ہے اور مشترک ہے تو اس کی ادبی روایت کو بھی مشترک ہی رہنا ہے۔ لیکن اس کے باوصف یہ بھی تو ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں جو سوال کھڑے ہوئے وہ آزاد ہندوستان کے تجربے کا حصہ تھے۔
وہاں تو تاریخ کا تسلسل برقرار تھا۔ ان کی تہذیبی اور قومی شناخت بھی برقرار تھی۔ تاریخ کا تسلسل ان کے لیے ٹوٹا تھا جنہوں نے ہندوستان سے الگ ہوکر ایک نیا ملک بنایا۔ تو کتنی جلدی یہ سوال کھڑا ہوگیا کہ ہماری کونسی تاریخ ہے کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ کسی نے کہا کہ 14 اگست 47ء سے۔ کسی نے کہا کہ محمد بن قاسم کی آمد سے۔ ایک آواز اٹھی کہ غلط بالکل غلط۔ خطۂ پاکستان کی تاریخ موہنجو داڑو سے شروع ہوتی ہے۔ اور ہماری قومی تہذیبی شناخت۔ وہ بھی وہیں سے برآمد ہوگی۔ ان سوالوں کے بیچ ایک تخلیقی ذہن نے لمبی زقند بھری اور 'آگ کا دریا' لکھا گیا۔ اور اس اختلافی فضا میں وہ فوراً ہی متنازع فیہ بن گیا۔ 'آگ کا دریا' ہندوستان میں نہیں لکھا جاسکتا تھا۔
مگر اس کے فوراً بعد جو تجریدی علامتی افسانہ نمودار ہوا اس کے بارے میں ہم تخصیص کے ساتھ اسے پاکستان کے تجربے سے منسوب نہیں کرسکتے جیسا کہ بعض دانشوروں نے مارشل لاء کی روشنی میں اس کی توجیح کی۔ غلط۔ پھر ہندوستان میں اسی زمانے میں کیوں یہی رجحان نمودار ہوا اور اس طرح کے ادھر انور سجاد' رشید امجد' مظہر الاسلام گل کھلا رہے تھے۔ ادھر بلراج منیرا اور ان کے ہمنوا رواں تھے۔ مگر آگے چل کر یہاں عورتوں کے مسئلہ نے شدت اختیار کی اور تانیثیت کی تحریک شروع ہوگئی اور اس کے گہرے اثرات ہمارے شاعری میں نظر آئے تو پھر پاکستان کا ادبی تجربہ ہندوستان کے تجربے سے مختلف ہوگیا۔ اور اس کے بعد پاکستان کو ایک نئے آشوب نے آلیا۔ خودکش حملوں نے اپنا رنگ دکھایا۔ ہندوستان کو ایسے آشوب سے کب دوچار ہونا پڑا۔ مگر اس کے باوجود مشترک ادبی روایت سے کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ ارے اسی کا تو فیض ہے کہ ظفر اقبال الٰہ آباد سے یہ سند لے کر آئے کہ وہ غالب کی ٹکر کے شاعر ہیں۔ وہ واہ تو یہ آہ۔ مطلب یہ کہ شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا پانی بھی ہر پھر کر اسی نشیب میں گرتا ہے۔ ادھر ہم یہاں بیٹھے ان کی تنقید اور تحقیق کے گن گاتے ہیں۔ اور ہاں اب تو اردو اپنے شاعروں کے زور پر اس برصغیر سے باہر بھی اللہ میاں کے پچھواڑے تک پہنچ گئی ہے۔ اسے وہاں پہنچنا ہی تھا۔ جب ہندوستان اور پاکستان کے لوگ دور دور کی بستیوں میں جابسے تو انھوں نے اطمینان کا سانس لیا ہی تھا کہ انھیں دو چیزوں کی یاد ستانے لگی۔ نہاری اور مشاعرہ۔ خیر یہ ہمارا مضمون نہیں۔ وہاں بھابیوں کی تیار کردہ نہاری کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ یہ امجد اسلام امجد آپ کو بتائیں گے۔ باقی رہا مشاعروں کا معاملہ ان کا جو بھی احوال ہو۔ اچھا برا۔ مشاعرہ بہرحال مشاعرہ ہے۔ جب ادبی روایت زیادہ پھیل جائے اور اس میں شاعری کے نام ایسا ادارہ بھی زور پکڑ جائے تو پھر اچھے برے کے بارے میں زیادہ تردد نہیں کرنا چاہیے۔
لیجیے اس پر کانفرنس کا وہ سیشن ہمارے دھیان میں آیا جہاں اردو کا اچھا برا زیر بحث تھا۔ اس کانفرنس کا سب سے گرم سیشن تو شاید یہی تھا۔ وہاں پاکستان کا میڈیا زیر بحث تھا۔ اور مسعود اشعر اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر برس رہے تھے کہ اردو کے ساتھ وہ کیا سلوک یا بدسلوکی کررہے ہیں۔ ایک تو اردو میں انگریزی ٹھونسنے کا بہت شوق ہے۔ پھر جتنی اردو لکھتے ہیں غلط سلط لکھتے ہیں۔
سرمد صہبائی اس عمل کا جواز پیش کررہے تھے کہ صحت زبان کو بھول جائیے۔ جو زبان عام استعمال میں آتی ہے اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔ انگریزی کا حال نہیں دیکھ رہے کہ ایشیا اور افریقہ کے جن ممالک میں ان کا چلن ہے وہاں اس زبان کے ساتھ سلوک ہوا ہے۔
مسعود اشعر کہہ رہے تھے کہ انگریزی میں تو ہم سے کوئی ذرا سی غلطی ہوجائے تو آپ لوگ اس پر انگشت نمائی کرتے ہیں۔ اردو کے متعلق رویہ یہ ہے کہ اخبار میں لکھتے ہوئے اور ٹی وی پر بولتے ہوئے جو بھی غلط سلط لکھا جارہا ہے وہ سب روا ہے۔ ہم نے دبی زبان سے کہا کہ غریب کی جورو سب کی بھابی۔
ہم نے دونوں کا استدلال سنا۔ تھوڑی تھوڑی سچائی دونوں کے بیان میں تھی۔ سرمد صہبائی کے بیان میں تھوڑی سچائی اس اعتبار سے تھی کہ جو زبان عام استعمال میں آرہی ہے یعنی جو زبان رواں دواں زندگی کے عمل میں شریک ہے وہاں صحت زبان کو کون دیکھتا ہے۔ اور ہم اب یہ تو نہیں چاہیں گے کہ ٹی وی اور اخباروں کے واسطے سے اردو ہم عصر زندگی کے جس عمل میں شریک ہے اس سے وہ قطع تعلق کر لے۔ یہ تو اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کا اقدام ہوگا۔ مگر ہاں ان اداروں کو جو لوگ چلا رہے ہیں ان کا بھی تو کوئی فرض ہے۔ ہمیں یاد آرہا ہے کہ 'امروز' کے اولین دور میں جب مولانا چراغ حسن حسرت اس کے ایڈیٹر تھے تو وہ زبان کے معاملے میں اتنے سخت گیر تھے کہ اگر ترجمہ کرتے ہوئے کسی سب ایڈیٹر سے زبان کی غلطی ہو جاتی تو اس کی جواب طلبی ہوتی تھی۔ 'امروز' اس زمانے میں ایسا اخبار تھا جس کی زبان پر کوئی نکتہ چین انگلی نہیں رکھ سکتا تھا۔
اس بحث میں غازی صلاح الدین بھی شامل تھے۔ انھوں نے زبان کی اس بحث کو فروعی جانا اور کہا کہ اصل مسئلہ اور ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ اخبارات اور خاص طور پر یہ ٹی وی چینل ایسے پروگراموں پر توجہ صرف کررہے ہیں جو ہمیں تنگ نظری، تعصب، اور عدم برداشت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
اس پر کم و بیش سب ہی متفق تھے اور ٹی وی اینکروں پر سخت تنقید کررہے تھے۔