لاہور میں انقلاب
یہ کوٹہ بھی جدید دور کا ایک حربہ ہے جو کئی کام کرتا ہے عوام کو تنگ کرتا ہے
میرے پہاڑوں میں گھرے ہوئے تھل جیسے ریگستانوں میں لپٹے ہوئے اور دریائے جہلم کی آغوش میں سمٹے ہوئے وادی سون کے گاؤں کھوڑہ میں جب کسی کو دور کے فاصلے کی بات کرنی ہو تو وہ دریائے راوی کے شہر لاہور کا حوالہ دیتا ہے اور مائیں جب بیٹیوں سے بچھڑتی ہیں تو سسکیوں میں انھیں الوداع کہتے ہوئے پھر راوی کا حوالہ دیتی ہیں کہ
ونج نی دھئی راوی
نہ کوئی ونجی نا کوئی آوی
جا میری بیٹی راوی کی طرف، کہ جدھر تمہیں ملنے کے لیے نہ کوئی آوی نہ کوئی جاوی۔ راوی اتنی دور کہ نہ کوئی اس کا لمبا فاصلہ طے کرسکے نہ آ سکے نہ جا سکے۔ لیکن کل صبح یعنی بدھ کو جب آنکھ کھلی اور دروازے باہر کی روشنیوں کو اندر لے آئے تو میرے جیسے پہاڑی گاؤں کی صبحوں کو یاد کرنے والا تڑپ اٹھا، کہیں دور بہنے والا راوی اس کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ ہر سمت کہر چھایا ہوا تھا اور یہ دھند یادوں کے بند دروازے کھول رہی تھی۔
میں وادی سون کے اپنے پہاڑی گاؤں میں کسی آنے والی سردی سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا جو کپڑا قریب پڑا دکھائی دیتا تھا وہ میں لپیٹ لیتا تھا۔ اچانک سردی میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ وقت اور موسم آپ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ہاتھوں سے پھسلتے ہوئے اس منظر کو آپ قابو نہیں کر سکتے، بس چند لمحوں میں ہی دنیا بدل جاتی ہے اور دھند ایک نشہ بن کر آنکھوں کے سامنے کھیلتی رہتی ہے وہ ہر چیز پر چھا جاتی ہے، اسے اپنے پروں میں لپیٹ لیتی ہے۔ یہ دھندلے پر ہواؤں کے کسی نئے رنگ و روپ کے ہوتے ہیں اور انھیں ہم کہر یا دیسی زبان میں 'کہیڑ' کہتے ہیں۔
یہ موسم کی ایسی تبدیلی ہوتی ہے جو دلربا بھی ہوتی ہے اور پریشان کن بھی لیکن ایسی تبدیلی جو اچھی بھی لگتی ہے اور کچھ دیر کے لیے پریشان بھی کر دیتی ہے۔ یہ اچانک تبدیلی ذرا مشکل سے برداشت ہوتی ہے۔ ایک خاتون سیاستدان کا بیان چھپا کہ میں تبدیلی کے انتظار میں ہوں۔ معلوم نہیں اس نے گزشتہ ہفتہ کی یہ تبدیلی دیکھی یا نہیں یا پھر یہ ایک سیاستدان کی تبدیلی تھی جسے وہ انقلاب بھی کہتے ہیں اور اس کا مطلب حالات کی ایک ایسی تبدیلی ہوتی ہے جس میں محروم سیاستدانوں کو بھی کچھ مل سکے۔
میری عمر سیاست اور سیاستدانوں میں گزر گئی اور تبدیلی انقلاب وغیرہ کی اصطلاحیں ان کے منہ سے مسلسل سنتے رہے لیکن پتہ نہیں چلا کہ ان کا مطلب کیا ہے، جہانتک عوام کا تعلق ہے ان کے لیے تو یہ تبدیلی برائے نام ہوتی ہے۔ گاؤ آمد و خر رفت۔ فارسی کی ایک مثل کے مطابق گائے آ گئی اور گدھا چلا گیا۔ باقی رہ گئے عام لوگ جنھیں سیاست دان عوام کہتے ہیں یہ عوام وہ سر سبز کھیتی ہے جو اپنی محنت سے ہری بھری رہتی ہے کہ لیڈر چرچگ سکیں اور عوام کی محنت پر عیش کریں۔
ہماری سیاست بلکہ دنیا بھر کی سیاست کے دو حصے ہیں ایک یہ عوام جو اپنی محنت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں دوسرے یہ لیڈر جو عوام کی محنت پر زندگی بسر کرتے ہیں اور عوام کو اگر کبھی کوئی مشکل پیش آ جائے تو وہ ان کی مدد کرتے ہیں مگر عوام کو مشکل تو ہر وقت ہی پیش آتی رہتی ہے اور لیڈر عوامی مشکلات پر زندہ رہتا ہے۔ ان دنوں لاہور میں موسم کی یکایک تبدیلی نے شہریوں کو بوکھلا دیا ہے۔ ابھی سردی آئی نہیں خاصی دور ہے لیکن اس کی اطلاع دینے کے لیے دھند آ گئی ہے جیسے اسے بہت سے کام ہوں اور اس نے سوچا ہو کہ ایک کام یہ اطلاع والا کرتے جائیں اور عوام اس تبدیلی پر غور کرنا شروع کر دیں۔
لاہور میں یہ غور جاری ہے اور محکمہ موسمیات والے ہی بتائیں گے کہ یہ تبدیلی کیوں آئی ہے اور آنے والی سردیوں میں کیا رنگ دکھائے گی۔ اس دفعہ اطلاع مل چکی ہے کہ گیس نہیں ہو گی یا بہت کمیاب ہو گی۔ ویسے بھی ہمارے منتظمین اب اس قابل نہیں رہے کہ ایک دستیاب سہولت کو بھی سلیقے کے ساتھ استعمال کر سکیں، بہرکیف ہمیں انھی منتظمین کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے جو کسی طرف سے ہمارے افسر بن گئے ہیں۔ بجلی ہو گیس ہو یا کوئی اور سہولت یہ سب اب لوگوں کے قابو میں ہیں اور ہمیں یہ کوٹے میں سے کچھ دے دیتے ہیں۔
یہ کوٹہ بھی جدید دور کا ایک حربہ ہے جو کئی کام کرتا ہے عوام کو تنگ کرتا ہے ضرورت مندوں سے مال کماتا ہے اور جو نہ دے اس کو اس نعمت سے محروم کر دیتا ہے۔ قدرت اس کوٹہ سسٹم سے بے نیاز ہے، اس وقت لاہور شہر دھند کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور ہم لاہوری ڈر رہے ہیں کہ یہ مزا اور لطف کب تک رہتا ہے۔ بہر حال لاہور' لاہور ہے۔ قدرت اس شہر پر ہمیشہ مہربان رہی ہے اور رہتی ہے۔ لاہوری دعا کریں کہ ان کا راوی زندہ ہو جائے ورنہ ان کی تاریخ مرجھا جائے گی۔