حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا

افسوس کہ کوئی بھی حادثہ، سانحہ ہمیں اُس وقت تک محسوس نہیں ہوتا جب تک اس کے اثرات سے ہم محفوظ ہوں۔


خوشنود زہرا November 03, 2016
جب رقص، لاٹھی، ڈنڈوں، نعروں، ناشتوں اور کھابوں کا براہ راست منورنجن عوام نے اپنے ٹی وی اسکرینز پر دیکھا تو پھر ظاہر ہے ایسے میں حب میں جھلس کر زندہ جل جانے والے اور زخموں سے ٹرپتے مزدور کس کو نظر آنے تھے؟

اب مجھے بھی گڈانی میں جھلسنے والے 18 محنت کشوں کی تعزیت کر ہی لینی چاہئیے، کیونکہ اب دھرنا اور اُس سے جڑی پل پل کی خبریں جو ختم ہوگئی ہیں۔ جی جی وہی جھلسنے والے غریب جو روزی روٹی کی تلاش میں پیٹ کا جلتا ایندھن بجھانے نکلے تھے اور خود جھلس کر خاک ہوگئے، وہی 18 مزدور جو سمندر کے قریب ہونے کے باوجود بھی آگ سے جل مرے۔

حب بریکنگ یارڈ میں حادثہ ہوا تو بریکنگ نیوز بھی چلی اور ان غریبوں کے درد کے واویلا کا بھی آغاز ہوا۔ ابھی میڈیا نے مزدوروں کا نوحہ شروع ہی کیا تھا کہ اچانک کیمروں کا رخ اسلام آباد میں جاری رقص کر کرکے انقلاب لانے والے مجاہدوں کی طرف ہوگیا، اور جب رقص، لاٹھی، ڈنڈوں، نعروں، ناشتوں اور کھابوں کا براہِ راست منورنجن عوام نے اپنے ٹی وی اسکرینز پر دیکھا تو پھر ظاہر ہے ایسے میں حب میں جھلس کر زندہ جل جانے والے اور زخموں سے ٹرپتے مزدور کس کو نظر آنے تھے؟

بس یہ بھڑکتی آگ جو ان کوغریب محنت کشوں کو کھا گئی ان کے پیاروں کے دل بھی جلا گئی اور وہ بے بسی کے عالم میں اپنے پیاروں کی خیریت، سلامتی کی دعا کرتے ہی رہ گئے۔ جب زوردار دھماکے حب میں گونجے تو کراچی سے ریسکیو ادارے اور ایمبولنسیں گڈانی پہنچنا شروع ہوگئیں۔ ان امدادی کارکنوں کے بقول دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لاشیں کئی کلو میٹر دور سے اٹھائی گئیں۔ ان سوختہ 18 لاشوں کے ساتھ 70 زخمی بھی اسپتالوں میں پہنچا دئیے گئے۔ درد سے تڑپتے یہ بے حال افراد اپنی تکلیف بیان کرنے سے قاصر، عجیب لاچاری کا نشان بنے ہیں۔

لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ میں اک دوسرے پر سبقت اور بازی لے جانے والا میڈیا اس سانحہ کو وفاق میں جاری دھرنوں کے مقابلے میں نظر انداز ہی کرگیا، شاید اِس کی وجہ یہی تھی کہ ان غریب مزدوروں کا دکھ زیادہ منافع بخش منجن نہیں تھا۔ پھر بھلا یہ ہو بھی کیسے کہ دھرنے کی پل پل کی خبروں، حرکات و سکنات، پش اپس، گرفتاریاں، ہلڑ بازیاں ہیں ہی اتنی دلچسپ کہ ان سے نگاہ ہی نہیں ہٹتی۔

کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ عوام دیکھنا ہی یہ چاہتی ہے تو میڈیا کو کیا الزام دینا؟ ممکن ہے یہ رائے ٹھیک ہو لیکن سوال یہ بھی تو اُٹھتا ہے کہ اِس میں عوام کا کیا قصور؟ کیونکہ عوام تو وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو دکھایا جارہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہم 24 گھنٹے یکساں انداز میں جاری رہنے والے دھرنے اور حالات و واقعات کو لمحہ با لمحہ اہم خبر کہہ کر نشر کرتے ہیں لیکن جو ''اہم'' ہے اُسے خبر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ شاید خبر کی تعریف اب تبدیل ہوگئی، شاید کہ اب خبر کا مطلب ریٹنگ کا حصول ہے۔

جہاں میڈیا نے مزدوروں کے جنازوں پر دھرنا انٹرٹینمنٹ کو فوقیت دی، وہاں ہم بھی کون سا پیچھے ہیں؟ ہمہ وقت سوشل میڈیا پر متحرک رہنے افراد بھی دھرنوں اور شوشوں پر پھلجڑیاں چھوڑتے رہے اور اکثریت نے یہ سوال اٹھانے، پوچھنے اور جاننے کی کوشش تک نہیں کہ آخر کیا حادثہ ہوا ہے؟ کس کی غفلت سے ہوا؟ حادثہ کا ذمہ دار کون ہے؟ جو اِس دنیا سے گئے ان کا خون کس کے کھاتے میں لکھا جائے؟ جو زخمی ہیں ان کا پرسان حال کون ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم بطور قوم بے حسی کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ ہماری ترجیحات کے رخ مختلف ہوتے جارہے ہیں، کیا اہم ہے؟ اور کیا غیر ضروری؟ ہم اس کا ادراک ہی نہیں کر پارہے۔ اسی دوران کتنے اہم واقعات گزر گئے لیکن ہمای توجہ اس طرف کیوں نہیں جا سکی؟ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ہوں یا اسی دھرنے کے یوم تشکر میں بدلنے سے پہلے جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کے دو کارکنوں سمیت شیلنگ اور لاٹھیوں، پتھروں سے زخمی ہونے والے وہ دیوانے جو تبدیلی کا خواب سجائے ہوئے تھے۔ یہ ہماری منافقت ہے کہ اگر یہی صورت حال خدا نخواستہ ہم پر بیت جائے تو ہم چِلا اٹھتے ہیں، مگر دوسروں کے درد پر ہونٹ سی لیتے ہیں۔ اسی رویہ پر ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے اس رویہ کی وجہ یہ ہے کہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے مزدور تھے؟ دانشور، علماء، حکما اور امراء جیسے وی آئی پی طبقوں سے ان کا تعلق نہیں تھا؟ یا واقعی 18 جانیں اس قدر ارازاں ہیں کہ ان کا ذکر کرنا اتنا بھی ضرروی نہیں تھا۔

جائزہ لیں کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت اور متعلقہ اداروں سے پوچھیں اور جانیے کہ اب تک اس حادثے پر کیا پیشرفت ہوئی؟ کتنے افراد ذمہ دار ٹھہرے اور کتنے افراد کو سزا ہوئی ورنہ اس بات کو تسلیم کیجیے کہ کوئی بھی حادثہ، سانحہ ہمیں اُس وقت تک محسوس نہیں ہوتا جب تک اس کے اثرات سے ہم محفوظ ہوں۔ حقیقتاً یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ''تبدیلی'' کی ضرورت کہاں ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں