دھنک سے لال آندھی تک
بیسویں صدی ادب سے جڑا تھا اور شمع دہلی ادب، فلم اور ثقافت کا بھی آئینہ دار تھا
یہ وہ دور تھا جب کتابیں اور رسالے بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے جب کتابوں کی اہمیت تھی اور اخبارات صرف خبروں کی حد تک لوگوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتے تھے۔ ان دنوں پاکستان اور ہندوستان میں مشہور ماہنامہ 'بیسویں صدی' اور ماہنامہ ''شمع دہلی'' کی بڑی دھوم تھی۔
بیسویں صدی ادب سے جڑا تھا اور شمع دہلی ادب، فلم اور ثقافت کا بھی آئینہ دار تھا ۔ان ماہانہ رسالوں کی بڑی مانگ تھی اور لاکھوں قارئین ہر ماہ ان رسالوں کے بڑے بے چینی سے منتظر رہا کرتے تھے اور اسی طرح پاکستان سے شایع ہونے والے دو ماہناموں ''دھنک'' لاہور اور ''سب رنگ ڈائجسٹ'' کراچی کی بھی پاک و ہند میں بڑی سرکولیشن تھی اور ہر ماہ پڑھنے والے ان رسالوں کے انتظار میں دن گنا کرتے تھے۔ سب رنگ ڈائجسٹ مدیر شکیل عادل زادہ کی کاوشوں کا نچوڑ ہوتا تھا۔
منتخب، دلچسپ اور منفرد کہانیوں کا یہ ایک ادبی گلدستہ ہوا کرتا تھا اور اس کے قارئین کسی محبوبہ کی طرح ہر ماہ اس کی آمد کا انتظار کیا کرتے تھے۔ سب رنگ کی کہانیاں اپنے اندر ایک انوکھا حسن رکھتی تھیں اور اس طرح کی شہرت اور پسندیدگی کا حامل لاہور سے ایک ماہنامہ ''دھنک'' نکلتا تھا جس کے رنگوں کے مہک پاکستان سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس کے مالک و مدیر سرور سکھیرا تھے اس رسالے کی خوبی بھی یہی تھی کہ اس کے دلچسپ مضامین اور اس کے منفرد شخصیات کے ساتھ انٹرویوز انداز سب سے الگ اور جداگانہ ہوتا تھا اور خاص طور پر فلمی شخصیات کے انٹرویوز میں تو ''دھنک'' کو بڑا کمال حاصل تھا۔ اس کے مضامین اور انٹرویوز کی تیکھی تیکھی اور بے باک سرخیاں پڑھنے والوں کے چہروں پر بھی سرخیاں بکھیر دیتی تھیں بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا کہ دھنک کی سرخیاں خود بولتی تھیں۔
میں ان دنوں لاہور میں نیا نیا تھا میں بھی بڑے شوق سے دھنک پابندی سے پڑھتا تھا اور دھنک کے ایڈیٹر سرور سکھیرا سے ملنے کا متمنی تھا۔ ایک دن میں دھنک کے دفتر پہنچ گیا اس سے پہلے کہ میری ملاقات سرور سکھیرا صاحب سے ہوتی، درمیان میں دھنک کے ادارۂ تحریر کے چند ناموں سے تعارف ہوگیا اور دلچسپ ملاقات بھی رہی۔
ان شخصیات میں طفیل اختر محمود خان مودی اور حسن نثار شامل تھے اس دن سرور سکھیرا ابھی اپنے دفتر میں نہیں آئے تھے پھر کچھ دیر کے بعد وہ بھی آگئے اور ان سے بھی میری کچھ دیرکی ملاقات رہی مگر میں اس ملاقات کے دوران ہی ان کی شخصیت کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ ان کے کہنے پر پھر میں نے بھی چند مضامین دھنک کے لیے لکھے۔
اب میں آتا ہوں اس بات کی طرف جو میرے کالم کا خاص طور پر حصہ ہے، ایک دن دھنک میں خبر شایع ہوئی کہ سرور سکھیرا فلمسازی کے میدان میں اتر رہے ہیں اور جلد ہی ایک فلم سیٹ کی زینت بننے جارہی ہے، جس کی ہدایت کاری کے لیے سنگیتا کو منتخب کرلیا گیا ہے، پھر چند دنوں کے بعد میری سرور سکھیرا سے سنگیتا پروڈکشن کے آفس میں ملاقات ہوئی جہاں فلم کی کہانی کا انتخاب کرلیا گیا تھا اور فلم کا نام ''لال آندھی'' تجویز ہوا تھا۔ اس دن فلم کی کہانی میں نے بھی سنی جس کے مصنف احمد کمال پاشا تھے۔
احمد کمال پاشا کے بارے میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ اپنے دور کے نامور مصنف، فلمساز اور ہدایت کار انور کمال پاشا کے صاحبزادے تھے۔ ان کی چند پنجابی فلمیں لکھی ہوئی تھیں جن میں کچھ کامیاب اور کچھ ناکام بھی تھیں۔ مگر یہ اپنا حوصلہ نہیں ہارے تھے اور نامور فلم نویسوں کے درمیان اپنا ایک مقام بنانے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔
سرور سکھیرا اپنی اس فلم کو راجستھان کے پس منظر میں بنانا چاہتے تھے۔ اب تک سندھی، گجراتی، اردو، پنجابی اور پشتو زبان میں فلمیں بنائی جاتی رہی تھیں مگر راجستھانی زبان میں ابھی تک اس کے صحرائی پس منظر کے ساتھ کوئی فلم نہیں بنائی گئی تھی ۔اس مقصد کے لیے سرور سکھیرا کو ایک ایسے مکالمہ نگار کی تلاش تھی جو فلم لال آندھی کے مرکزی کرداروں کو راجھستانی زبان دے سکے اس طرح سرور سکھیرا ایک منفرد طرزکی فلم بنانے کے خواہش مند تھے۔
باتوں باتوں میں تذکرہ نکل آیا کہ میں کراچی کے جس پرانے علاقے رام سوامی میں رہتا تھا ہمارے اسی محلے میں ایک علاقہ مارواڑی زبان بولنے والوں کا تھا اور اسی محلے سے اداکار محمد حنیف منظر عام پر آیا تھا اور اسی علاقے میں بیکانیر اور راجھستانی زبان بولنے والے بھی بہت رہتے تھے اور میرے کئی دوست تھے جو اس محلے کے تھے اور کراچی کے ایک پرانے کھیل سرپالے کے ساتھی تھے اور میں راجھستانی زبان پوری سمجھتا بھی تھا اور کبھی کبھی ہنسی مذاق میں ان سے اسی زبان میں چھیڑ چھاڑ بھی کرتا تھا۔
سرور سکھیرا اور سنگیتا کو جب اس دلچسپ بات کا پتا چلا تو دونوں نے یک زبان ہوکر پوچھا تو پھر راجھستانی زبان میں کوئی گیت بھی لکھ سکتے ہو، میں نے بھی بے ساختہ کہا کیوں نہیں۔ شاعر جس زبان کو سمجھتا ہے اس زبان میں گیت بھی لکھ سکتا ہے۔ ورنہ پھر وہ شاعر کس بات کا ۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ اسی ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا کہ اگر یونس ہمدم راجھستانی زبان میں کوئی گیت لکھ کر لائیںگے اور وہ ہمیں پسند آگیا تو پھر فلم کے راجھستانی مکالمے بھی یونس ہمدم ہی سے لکھوائے جائیں گے اس شرط کے ساتھ یہ طے پایا کہ آیندہ ہفتہ یونس ہمدم راجھستانی گیت لکھ کر پروڈکشن آفس آئیں گے۔
تین چار دن کی کوششوں کے بعد میں نے ایک گیت راجھستانی زبان میں لکھا اور پھر سرور سکھیرا کو فون کیا کہ جناب میں نے وہ گیت لکھ لیا ہے آپ کو اور آپ کی ہدایت کارہ کو کب سناؤں۔ سرور سکھیرا بولے یونس ہمدم تم ایسا کرو کہ تم کل رات میرے گھر آجاؤ رات کا کھانا ساتھ کھائیںگے اور میں چاہتا ہوں پہلے یہ گیت سن کر میں اپنا اطمینان کرلوں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، میں دوسرے دن راجھستانی زبان کا گیت لکھ کر رات کے کھانے پر ان کے گھر پہنچ گیا۔
سرور سکھیرا نے کھانے پینے کا بڑا اچھا اہتمام کیا تھا۔ میں نے کھانے کے دوران سرور سکھیرا سے پوچھا۔ سکھیرا صاحب! کیا میں آپ سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتاہوں کہ آپ نے اپنی فلم کی ہدایت کاری کے لیے سنگیتا ہی کو کیوں منتخب کیا جب کہ آپ کے تو فلم انڈسٹری کے تمام بڑے بڑے نامور ہدایت کاروں سے تعلقات ہیں۔
سرور سکھیرا نے مسکراتے ہوئے کہا سوال تو تم نے پوچھ ہی لیا، جواب بھی سن لو! مجھے سنگیتا کی ''فلم سوسائٹی گرل'' بہت اچھی لگی اور اس فلم کی ہدایت کاری نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا ہے ایک کم عمر اداکارہ نے اپنی پہلی فلم کسی منجھے ہوئے ہدایت کار کی طرح بنائی ہے اور فلم کا ایک ایک شاٹ سنگیتا کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پھر میں نے پوچھا اور سنگیتا کی شخصیت کے بارے میں کیا خیال ہے۔
سرور سکھیرا بولے مجھے اس کی شخصیت بھی پسند ہے۔ میں نے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا تو یہاں احساس جمال کا بھی بڑا دخل ہے۔ وہ بولے فن اور حسن دونوں ہی سنگیتا کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ پھر میں نے پوچھا تو پھر فلم کی ہیروئن بھی سنگیتا ہوگی۔ وہ بولے نہیں فلم کی ہیروئن کے لیے میری نظر انتخاب سنگیتا کی چھوٹی بہن کویتا پر ہے اس دوران کھانا آگیا اور پھر باتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
(باقی آیندہ)