دھرنا اسپیکر اور حاجی غلام احمد بلور
میں نے لکھا تھا کہ ’’ آجکل ہر طرف دھرنے کی باز گشت ہے
میں نے لکھا تھا کہ '' آجکل ہر طرف دھرنے کی باز گشت ہے ۔عمران خان سمجھتے ہیں کہ اب وہ اسلام آباد بند کر کے نواز حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے قریب ہیں اور نواز حکومت سمجھتی ہے کہ نہ اسلام آباد بند ہو گا اور نہ ان کی حکومت کوئی ختم کر سکتا ہے'' اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ والوں کا کہ جنہوں نے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے دونوں دھڑوں کو طلب کر لیا۔
اب یہ مقدمہ عدالت میں چلا گیا ہے لہٰذا ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ اب اگر مگر اور کب کیا ہو گا؟کی صدائیں نہ ہی لگائی جائیں اور جس کا کام ہے اسے اپنا کام کرنے دیا جائے۔البتہ اس خبر پر بات ضرور ہو سکتی ہے کہ صوبائی حکومت(خیبر پختون خوا) نے وفاقی وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ دوسری طرف وفاقی حکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا سمیت سیکڑوں افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف قرارداد جمع کروانے کا قدم بھی اٹھا لیا ہے۔
ان امور پر کیا تبصرہ کیا جائے اچھا ہوتا کہ بلا عنوان ہی سب کچھ رہے ۔کیونکہ صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق احمد غنی جو کہانی سناتے ہیں اس دن کی تو فرماتے ہیں کہ خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کے جوانوں نے کمال دلیری کا مظاہرہ کیا اور ہمت نہیں ہاری ،اگر قائد کا پیغام نہ ملتا تو وہ اسلام آباد پہنچ ہی جاتے۔سیکڑوں آنسو گیس شیل استعمال کیے گئے، رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر انھوں نے بہت ساری رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور اس کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو سرکاری وسائل استعمال ہو گئے تو کہنے لگے کہ حکومت کے پاس اتنی بڑی مشینیں کہاں؟حکومت تو خود یہ مشینیں ٹھیکے پر لیتی ہے (پتہ نہیں کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے ؟) لیکن صوبائی وزیر اعلیٰ کے اطلاعات اور اعلیٰ تعلیم کے لیے مشیر کا کہنا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کے فیصلے کو جس نے بھی غلط کہا اس نے اگلے دن اسلام آباد میں لوگوں کا سمندر دیکھ کر اپنی رائے پھر بدل لی!مشتاق غنی نے سارا قصہ سنایا یقینا کسی بھی سیاسی پارٹی کے ورکر پر اپنے قائد کا حکم ماننا لازم ہے اور سبھی کارکنوں نے عمران خان کے فیصلے پر لبیک کہا البتہ مجھے صرف ایک پریشانی ہے کہ صوبے اور وفاق میں لڑائی کا نقصان بہر طور صوبے کو ہی ہوتا ہے، کیا ایسا ممکن نہیں کہ سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں کے خلاف تو لڑیں لیکن کسی حکومت کو اپنی ہی وفاقی حکومت کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے۔
اب اگر پرویز خٹک وفاق کے کسی اجلاس میں بیٹھیں گے جس کی سربراہی وزیراعظم کر رہے ہوں تو کیا ماحول ہو گا ؟ اسمبلیاں بے شمار قانون پاس کرتی ہیں اگر یہ قانون بھی پاس کر لیا جائے کہ اگر وفاق میں کسی ایک اور صوبوں میں کسی دوسری سیاسی پارٹی کی حکومت ہو گی تو کم از کم حکومت کو اپنی جماعت کی لڑائی میں پارٹی نہیں بننا چاہیے۔مجھے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر سے بھی سخت اختلاف ہے جن کی پوزیشن اسمبلی اسپیکر کی حیثیت سے غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے ان سے پہلے اکثر اسپیکرز اور اگر مبالغہ نہ ہو تو سبھی اسپیکرز نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ غیر جانبدار رہیں ۔ ہدایت اللہ چمکنی ، سید مسعود کوثر اور بخت جہاں خان اسپیکر تھے ان پر کبھی جانبداری کا الزام نہیں لگا۔وہ کبھی سر عام پارٹی جلسوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے اس سے اسمبلی میں بھی ان کی قدر و منزلت خوب ہوا کرتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسد قیصر پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ اور مخلص کارکن ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی پھلے پھولے مگر ان کی جانب سے پارٹی کے جلسوں میں شرکت اسمبلی نظام کے حوالے سے بہت سوالات چھوڑ دیتی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے وہ پارٹی کارکن اور پھر اسپیکر ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں مگررکن قومی اسمبلی حاجی غلام احمد بلور نے بھی اس ساری صورت حال پر پریس کانفرنس کر ڈالی اور کئی انکشافات کیے جس سے صورت حال اور بھی گھمبیر دکھائی دیتی ہے۔غلام احمد بلور بزرگ سیاستدان اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدرہیں۔پریس کانفرنس میں کہنے لگے کہ عمران خان کا دھرنا ملک میں پانچویں مارشل لاء کے نفاذ کے لیے تھا تاہم سپریم کورٹ،مرکزی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مل کر یہ کوشش ناکام بنادی ،اگر ملک میں پانچواں مارشل لاء لگ جاتا تو اس سے بہت بڑی تباہی آتی وہ اسپیکر اسد قیصر پر بھی برسے اور کہا کہ دھرنے اوروفاقی حکومت کے خلاف احتجاج میں شریک ہوکر اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کھو بیٹھے ہیں جنھیں فوری طور پر اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجانا چاہیے ۔
حاجی غلام احمد بلور نے مارشل لاء بھی دیکھے ہیں چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے دھرنوں سے ایک بار پھر جمہوریت کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے ۔حاجی غلام احمد بلور نے میاں نواز شریف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگر مرکزی حکومت سی پیک منصوبہ میں حقیقی معنوں میں خیبر پختونخوا کو شامل کرنا چاہتی ہے تو اسے پشاور سے گزارا جائے تاکہ ایک جانب اس کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ساتھ رابطہ قائم ہوسکے اور دوسری جانب ہماری پسماندگی بھی ختم ہو۔انھوں نے کہا کہ سی پیک پر اگر کوئی آواز اٹھا رہا ہے تو وہ ہم ہیں،عمران خان تو اس پر اطمینان کا اظہار کر رہا ہے کیونکہ وہ پختونخوا کے زور پر پنجاب کی سیاست جیتنا چاہتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ سی پیک منصوبہ میں توانائی کے 7منصوبے ہیں اوران میں سے ایک سندھ اور بقایا پنجاب میں ہیں حالانکہ اس میں سے ہمیں بھی دو منصوبے ملنے چاہیں ۔
گویا موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ سی پیک میں اس صوبے کے اپنا حصہ تلاش کیا جائے اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے جمہوریت کے استحکام کے لیے مل جل کر کام کیا جائے کیونکہ لڑائی کا فائدہ اکثر تیسرے فریق کو ہی ہوا کرتا ہے۔ایسے میں خیبر پختون خوا ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا ہے اور انتخابات کے دوران تختہ مشق بننے کے بعد یہاں کے عوام نے ہمیشہ نقصان ہی اٹھایا ہے۔کسی نے خوب کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بھی اس صوبے کے عوام نے کہیں زیادہ جانوں کی قربانیاں دیں اور اب سیاست کے میدان کارزار میں بھی اسی صوبے کے عوام آنسو گیس کے شیلوں کا سامنا کر رہے ہیں ،معاشی ترقی کی بجائے مسائل اور مشکلات کے بھنور میں پھنسے اگرچہ خود کو محب وطن لیکن دوسروں کی نظروں میں کب تک ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے؟