مختارجوگی امید کی شمع

کچھ قرض ایسے ہوتے ہیں جن کی ادائیگی فرض ہوتی ہے


فاطمہ نقوی November 07, 2016
[email protected]

کچھ قرض ایسے ہوتے ہیں جن کی ادائیگی فرض ہوتی ہے، مجھے ایک قرض اتارنا ہے جس کی ہمیں بہت شرمندگی ہے کہ میں اس کی ادائیگی ابھی تک نہ کرسکی۔ جوگی کمیونٹی سے ہمارا تعارف اس وقت ہوا جب ہم ایک سروے کے لیے سینٹرل جیل گئے تو وہاں سکندر جوگی سے ملاقات ہوئی۔ آرٹ کی دنیا کا یہ باسی رنگوں کی زبان میں باتیں کرنا جانتا ہے، جنھوں نے اپنے کمال فن سے خطرناک قیدیوں کو بھی رنگ و نور کی دنیا میں محوکردیا ہے جن ہاتھوں میں کبھی کلاشنکوف، ہتھیار تھے آج وہی ہاتھ برش پکڑے ہوئے ہیں ۔کیا کمال کی تصویریں ہیں جو ان قیدیوں نے بنائی ہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جن انگلیوں نے یہ فن پارے تراشے ہیں وہ انتہائی بھیانک جرائم کرچکے ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیدائشی طور پر کوئی مجرم نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کی بے ضابطگیاں مجرم بناتی ہیں۔

ہمارا معاشرتی نظام ایسا ہوچکا ہے جہاں جرائم بڑھ رہے ہیں مگر سکندر جوگی جیسی شخصیات بھی ہیں جو ان جرائم پیشہ افراد کے اندر چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لیے برسر پیکار ہیں وہ ان کے اندر سے کسی آرٹسٹ کو باہر لاتے ہیں تو کبھی آوازکے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو سامنے لاتے ہیں۔ایسے خوش گلو فنکار تھے جن کی آواز سن کر ہی وجد میں آیا جاسکتا ہے انھوں نے کس قدر خوش الحانی سے نعتیں پڑھیں کہ دل خوش ہوگیا۔ سکندر جوگی نے ہمیں بتایا کہ وہ خود ایک پسماندہ ترین قوم سے تعلق رکھتے ہیں جہاں علم کی روشنی ابھی تک مکمل طور پر نہیں پہنچی۔ آج بھی وہ جگہ معاشرے کی اجڑی تصویر نظر آتی ہے لیکن ان کا عزم تھا کہ وہ اپنی قوم کے لیے کچھ کرسکیں۔

اس ملاقات کے کچھ عرصے کے بعد ہمیں گمبٹ ایک کام کے سلسلے میں جانا پڑا جہاں ہمارے کلاس فیلو شہزاد بھائی نے ہم سے کہا کہ تم ماری ماری پھرتی ہو آج ہمارے کچے سے گمبٹ کے ایک پسماندہ گاؤں علی بابا میں چلو وہاں میں تمہیں ایک ایسے انسان سے ملواؤں گا جو اس دور میں بھی اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر اپنی قوم کے بچوں کو علم بانٹ رہا ہے۔ پھر ہم اس گاؤں گئے جہاں ہماری ملاقات مختار جوگی سے ہوئی وہ اس پسماندہ گاؤں کا رہائشی ہے مگر حالات سے بددل نہیں ہوا بلکہ ڈٹا ہوا ہے کہ کسی طرح اپنے گوٹھ کے غریب بچوں کو علم کی روشنی سے منور کردے ۔

کافی عرصے سے اکیلا جدوجہد کر رہا ہے مگر اب اس کی ہمت کچھ ٹوٹنے لگی ہے اس کا کہنا ہے کہ اب اسکول کے اخراجات وہ پورے نہیں کرسکتا 400 بچوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا اسکول اب خدا ترسوں کی نظرکرم کا منتظر ہے۔ مختار جوگی اپنے اسکول کی فائل لے کر جگہ جگہ مارا پھرا مگر کیونکہ وہ بااثر نہیں اس کی پشت پناہی کوئی بااثر طبقہ نہیں کر رہا تو اس کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی وہ اپنی فائل لے کر سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی گیا مگر کچھ نہ ہوا اس کی بات بھی نہ سنی گئی اور مقتدر حلقوں میں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ اس کی ہمت ٹوٹ رہی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کی ہمت ٹوٹ گئی تو ان بچوں کا کیا حال ہوگا جو امیدکی ڈوری تھامے ایک نئے سفر پر نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔

مختارجوگی نے مجھ سے التجا کی تھی کہ میں اس کے اسکول کے لیے کچھ کروں مگر وائے افسوس میں بھی نہ کرسکی، یہ نہیں تھا کہ میں اس اسکول اور اسکول کے بچوں کو بھول گئی تھی جب جب مجھے ننگے پیر پھرتے وہ بچے یاد آتے ہیں، جو ایک ایک کاپی اورکتاب کے لیے ترستے ہیں میں نے ان کے لیے لوگوں سے کہا مگر شاید میری آواز میں ہی وہ اثر نہ تھا جو دلوں کو جھنجھوڑ سکے مگر آج میں نے ان کا تذکرہ کرکے بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے۔

کاش ہم سب مل کر سندھ کے اس پسماندہ علاقے کے اس چھوٹے سے اسکول کے بچوں کی امیدوں کو پورا کرسکیں ان کی آنکھوں کی چمک کو مدھم نہ ہونے دیں یہ بچے پڑھ لکھ کر اپنے لیے اپنے گھر والوں کے لیے اپنے علاقے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔انھیں خالی پیٹ میں روٹی کی نہیں ننگے پیر میں جوتے نہیں مانگتے وہ صرف یہ سوال کرتے ہیں خدارا صرف اور صرف ہمیں علم کی روشنی سے منور کردیں ہمیں بھیک نہیں ہمارا حق چاہیے مگر حق کون دے حق دینے والے تو اپنی اپنی ذاتی اناؤں کی دنیا میں قید ہیں، کوئی یوم تشکر منا رہا ہے کہ فتح اس کی ہوئی تو کوئی جمہوریت کی فتح کے راگ الاپ رہا ہے۔ کسی کو پروا نہیں کتنے بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر دنیا سے چلے گئے تو کتنے بچے ہیں جو اپنے اپنے پسماندہ علاقوں میں مختار جوگی جیسے لوگوں کے سہارے امید کی شمعیں روشن کر رہے ہیں کہ کاش ہمارے علاقے میں بھی کوئی دردمند آئے اور ہمارے بنیادی مسائل کو حل کرے مگر کس سے کہیں سننے والوں نے تو اپنے کانوں کو بہرہ اور آنکھوں کو اندھا کرلیا ہے۔

انھیں تو صرف یہی آتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، جمہوریت کی بحالی مگر عام انسانوں کو جمہوریت کی بحالی یا آمریت کی غرقابی سے کوئی لینا دینا نہیں ،انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی فوجی حکمران آئے یا کسی سیاسی پارٹی کو تاج پہننا نصیب ہو۔ انھیں تو صرف بنیادی حقوق درکار ہیں وہ کوئی بھی دے وہ اسی کے گن گائیں گے۔ آج کی جمہوریت کے چیمپئن تو بلدیاتی اداروں کو حقوق نہ دے سکے، جگہ جگہ کچروں کے ڈھیرگلیاں گندے پانی سے بھری ہوئی ہیں انھیں اس سے مطلب نہیں۔ جب اختیارات نچلی سطح پر نہیں ہوں گے تو اسی طرح افراتفری گندگی بیماریاں پھیلتی رہیں گی عوام مرتے رہیں گے جمہوریت اپنا بہترین انتقام لیتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔