اجتماعی دعاؤں کا بندوبست کرلیں
آخر ہمارا شعور اور عقل بانجھ کیوں نہیں ہو جاتے۔ آخر یہ سوال ہمارے ہی پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔
جہاں ہمارے زمینی خداؤں نے ہم پر ترقی، کامیابی، آزادی، خوشحالی، اختیار اور زندگی کی دیگر تمام لذتیں حرام قرار دے رکھی ہیں وہاں انھوں نے ہمارے سوال کرنے کو بھی گناہ کے زمرے میں ڈال رکھا ہے۔ سقراط ساری عمر ایک بات کی تعلیم دیتا رہا کہ ''سوچو''۔ ظاہر ہے کہ جب خدا نے ہمیں عقل اور شعور عطا کیا ہے تو پھر ہم سوچیں گے بھی ضرور، اور جب سوچیں گے تو ہمارے ذہن میں سوال بھی ضرور پیدا ہوں گے۔ کیونکہ سوال عقل اور شعور کی اولاد ہی ہوتے ہیں، لیکن یہ ہماری کم بختی ہے کہ ہمارے ہاں سوال کو ناجائز بچے کا درجہ قرار دے دیا گیا ہے، ایسے ناجائز بچے جنھیں رجعت پسند، بنیاد پرست، اقتدار پرست، اجارہ دار، نفرت اور حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
اس لیے سوال چاہے وہ مذہبی ہوں یا معاشی یا سیاسی یا معاشرتی، ان کے پیدا ہوتے ہی ان کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ یعنی ہم میں سے ہر شخص اصل میں قاتل ہے، ایسے سفاک قاتل جو اپنی زندگی میں ان گنت سوالوں کو قتل کر چکے ہیں۔ ہم بھوتوں، جنوں اور چڑیلوں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا سوالوں سے ڈرتے ہیں۔ ہم ہمیشہ ان جگہوں سے فرار ہونے میں نمبر ون ثابت ہوتے ہیں جہاں سوال پیدا ہو رہے ہوں یا پیدا ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہو۔ یہ سوال اتنے کمبخت ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
آخر ہمارا شعور اور عقل بانجھ کیوں نہیں ہو جاتے۔ آخر یہ سوال ہمارے ہی پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ جہاں جاؤ، جہاں بیٹھو، وہاں پہلے ہی سے سوال موجود ہوتا ہے، گھر جاؤ تو بجلی کا سوال، پانی کا سوال، چینی آٹے کا سوال، بچوں کی فیسوں کا سوال، گھر کے کرائے کا سوال، مہنگائی کا سوال، روزگار کا سوال، پیسوں کا سوال۔ کا م پر جاؤ تو ہڑتال کا سوال، نکالے جانے کا سوال۔ ٹی وی دیکھو تو پانامہ لیکس کا سوال، انگریزی اخبار کی پلانٹڈ خبر کا سوال، دھرنے کا سوال، دھرنا نہ دینے کا سوال، حساب اور تلاشی دینے کا سوال، کرپشن، لوٹ مار، غبن کا سوال۔
اخبار پڑھو تو حکمرانوں کی نااہلی اور بیڈگورننس کا سوال، دہشتگردی، انتہاپسندی کا سوال۔ آپ شیطان سے تو بچ سکتے ہیں، سودخوروں سے تو چھپ سکتے ہیں، لیکن سوالات سے کسی بھی صورت نہیں بچ سکتے۔ یہ سوالات ہی ہیں جو آپ کا پیچھا مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑتے۔ آپ کے قبر میں پہنچنے سے پہلے ہی منکر نکیر کے سوالات آپ کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
خوش لباس جھوٹ سے ننگا سچ ہمیشہ بہتر ہوتا ہے اور ننگا سچ یہ ہے کہ ہم سب ایک مختلف اور تبدیل شدہ پاکستان کے خواہش مند ہیں، ایسا پاکستان جہاں ہم سب کو روزگار، تحفظ، اختیار، خوشحالی، آزادی اور حقوق میسر ہوں، جہاں ہماری بھی عزت ہو، جہاں سچ کی پوجا کی جا رہی ہو، جہاں سوالوں کو عزت و احترام کا درجہ حاصل ہو، کیونکہ جہاں سوال نہیں ہوں گے تو پھر وہاں خوشامد، چاپلوسی، منافقت اور جھوٹ وحشیانہ رقص کر رہے ہوں گے۔ وہاں عقل اور شعور بیوہ ہو چکے ہوں گے اور ان کی حالت مزارعوں کی بیٹیوں کی طرح ہو چکی ہو گی کہ جنھیں ہر طاقتور، بااختیار اپنی لونڈی سمجھ رہا ہو گا اور وہاں ہر قسم کی جہالت کے لہلہاتے کھیت جھوم رہے ہوں گے اور یہ ہی سب کچھ ہمیں آج کل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پچھلے دنوں ایک وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ پاکستان کے 50 فیصد مسائل خوشامدیوں اور چاپلوسوں کے پیداکردہ ہیں۔ چونکہ ان کے خود کے روزگار کا مسئلہ ہے اس لیے انھوں نے آدھا سچ بولا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے 100 فیصد مسائل ان ہی خوشامدیوں اور چاپلوسوں کے پیدا کردہ ہیں۔ دنیا کی تاریخ چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ خوشامدی اور چاپلوس کبھی بھی بیروزگار نہیں رہے ہیں اور نہ ہی کبھی ان پر فاقوں کا وقت آیا ہے۔
یہ انسانوں کی وہ واحد قسم ہے جو ہر دور میں روزگار پر لگی رہی ہے اور آج تک روزگار پر لگی ہوئی ہے اور ہمارے ہاں تو ان پر بہار ہی بہار ہے، موجاں ہی موجاں ہیں۔ حکمرانوں سے لے سیاست دانوں تک، بیورو کریٹس سے لے کر بزنس مین تک، سب کے سب ان کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کی جدائی کسی بھی صورت انھیں برداشت نہیں ہے، اکثر تو ان کی جدائی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
شیکسپیئر کہتا ہے ''خوشامد کرنے والا اور سن کر خاموش ہونے والا دونوں کمینے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں''۔ ''مشورہ و نصیحت سننے کے لیے تو لوگوں کے کان بند ہو سکتے ہیں لیکن خوشامد سننے کے لیے کھلے رہتے ہیں۔''
یاد رکھیں، جس سماج میں طاقتور، بااختیار اور کرتا دھرتا خوشامدیوں اور چاپلوسوں کے نرغے میں آجاتے ہیں تو پھر خوشامدیوں اور چاپلوسوں کا پہلا حملہ ان کی نیتوں اور ارادوں پر ہوتا ہے۔ وہ ان کی نیتوں اور ارادوں کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دیتے ہیں۔ وہ ان کی نیتوں اور ارادوں کا رخ صرف ان تک، ان کے پیاروں تک اور ساتھیوں تک محدود کرکے رکھ دیتے ہیں، یعنی ان کی سوچ ان سے ہی شروع ہوتی ہے اور ان پر ہی آکر ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا پھر سماج کے تمام طاقتور، بااختیار اور کرتا دھرتا بے حس ہوجاتے ہیں اور باقی تمام لوگ ان کی بے حسی کی وجہ سے بے بس ہوجاتے ہیں اور پھر خاشامدی اور چاپلوس ان پر حکمرانی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہتا ہے اور اسی لیے خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی حکمرانی کبھی ختم نہیں ہوپاتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت تو سماج کے اس اہم ترین مسئلے کی طرف دھیان تک دینے کو تیار نہیں ہے، کیونکہ اصل میں وہ خود بھی خوشامدیوں اور چاپلوسوں کے نرغے میں جو آچکے ہیں۔ دنیا بھر کے سماجوں میں کسی بھی سماج کو اتنی بدترین صورتحال کا سامنا نہیں ہے جیسا کہ ہمیں ہے۔
ہمارے سماج کو بیک وقت چار قسم کے مجرموں کا سامنا ہے، یعنی (1) سماجی مجرم: جن میں خوشامدی، چاپلوس، منافق، جھوٹے، لالچی، دوغلے، دغا باز اور فریبی شامل ہیں۔ (2) سیاسی مجرم: ہمیں تمام قسم کے سیاسی کرپٹوں، لٹیروں، کمیشن خوروں، رشوت خوروں کا سامنا ہے، جو جمہوریت اور سیاست کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، ملک کی کوئی سیاسی جماعت ان مجرموں سے پاک نہیں ہے، چونکہ انھیں پہچاننا بہت آسان ہوتا ہے، اس لیے یہ تمام کے تمام بے نقاب ہو چکے ہیں، ملک کا بچہ بچہ ان کے ناموں اور کرتوتوں سے اچھی واقف ہے۔ (3) مذہبی مجرم: اس قسم میں تمام انتہاپسند، دہشتگرد، فرقہ واریت کو ہوا دینے والے، معصوم لوگوں کو بھٹکانے اور ورغلانے والے، نفرت اور تعصب پھیلانے والے، مذہبی تعلیمات کی غلط تشریح کرنے والے، مذہب کی آڑ میں اپنا تسلط قائم کرنے والے شامل ہیں۔
(4) ذہنی مجرم: اس میں دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار اور اہل قلم شامل ہیں، جو اپنی عقل و دانش و علم کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے فروخت کرتے پھرتے ہیں، جو قیمت لگ جائے فروخت کے لیے تیار رہتے ہیں، جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ انسانوں کی مخلوق اپنے آپ کو ہر احتساب اور تنقید سے بالاتر سمجھتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں شامل ہر شخص صرف اپنے آپ کو عقل کل سمجھا بیٹھا ہے اور باقی سب کو کسی گنتی میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ سرے سے انھیں ماننے کے لیے ہی آمادہ نہیں۔ اب اس ساری صورتحال میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا، ماسوائے اس کے کہ ہم اپنے لیے اجتماعی دعاؤں کا بندوبست کرلیں۔