کرپشن سب سے بڑی غداری
ہمارا آج کا دور اسپیشلائزیشن کا دور ہے
LOS ANGELES:
ہمارا آج کا دور اسپیشلائزیشن کا دور ہے۔ دل کے ڈاکٹر سے ہڈی کے ڈاکٹر تک ہیئر ٹرانسپلانٹ سے لیور ٹرانسپلانٹ تک، مکینیکل انجینئرنگ سے کیمیکل انجینئرنگ تک، سافٹ ویئر ایکسپرٹس سے ہیکنگ ایکسپرٹس تک، بالنگ کوچ سے فیلڈنگ کوچ تک آپ کو ہر شعبے میں اسپیشلائزیشن در اسپیشلائزیشن کا رواج نظر آئے گا۔ یہاں تک کے ملک سے غداری جیسی پیشہ ورانہ فیلڈ بھی ان گنت اسپیشلائزڈ شعبوں میں تقسیم ہوچکی ہے جو ہمارے انوکھے ملک میں تقریباً تمام کے تمام ہی نہایت منافع بخش، باعزت، بلند مقام اور محفوظ حیثیت رکھتے ہیں، تاہم غداری کا شعبہ چاہے بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر رہ کر علی الاعلان ملک کی جڑیں کاٹنا ہو یا حکومت سے باہر رہ کر ملک میں ڈیم کی تعمیر سے لے کر سی پیک کی تعمیر کو متنازعہ بنانا ہو، سیاست، صحافت اور این جی او کے پردے میں ملک اور اس کے دفاعی اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنا یا بیرون ملک سے تخریبی کارروائیوں کی تربیت اور امداد سے ملک میں دہشتگردی پھیلانا وغیرہ وغیرہ ہو، تمام کاوشوں کا مقصد ملک کو تباہ حال اور کمزور کرنا ہی ہے۔
چنانچہ اب اگر ہم اس پیمانے پر جانچیں تو کرپشن چاہے وہ کسی بھی طرح کی کیوں نہ ہو ایک سے زائد طرح سے ملک کو تباہ حالی کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ نتیجے کے لحاظ سے آپ دیکھیں تو کرپشن آپ کو غداری کے تقریباً تمام ہی قصوں میں زیادہ کامیاب نظر آئے گی۔ تاہم اس کے باوجود ہم کرپشن میں ملوث افراد کو غدار نہیں قرار دے سکتے۔ بالکل ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بہت سے تو ہم سب سے کہیں زیادہ محب وطن ہوں اور کرپٹ افراد میں سے شاید بہت کم ہی ہوں جو کرپشن ملک سے غداری کی نیت سے کرتے ہوں بس مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہر سطح کی، ہر شعبے کی، ہر سائز کی کرپشن گھوم پھر کر ملک کو کھوکھلا، کمزور اور تباہ حال کرتی ہے یعنی وہ مقصد حاصل کرتی ہے جو ملک دشمنوں، غداروں کا اسٹریجٹک گول ہوتا ہے۔ ہم دانستگی میں کرپشن کرتے ہوئے نادانستگی میں اپنے ملک سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عملاً نہ ہمارے ہاں کرپشن جرم ہے۔ نہ غداری تاہم ان کے اثرات آپ کو اپنے چاروں طرف دکھائی دیں گے۔
مثلاً آپ ذرا ملک کا حال دیکھئے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان بچوں کا کیا مستقبل ہے اور ان ان پڑھ بچوں کے ساتھ اس ملک کا کیا بنے گا؟ ادھر خواندگی کی شرح 2012-13ء کی 60 فیصد سے کم ہوکر 2013-14ء میں 58 فیصد رہ گئی، تو یہ الٹی سمت ہمارا سفر ہمیں ترقی کی جانب لے جائے گا یا تنزلی کی؟ اب ملک میں اسکولوں کی حالت پہ بھی ایک نظر ڈالیے کہ جو کسی بھی ملک کی مضبوطی اور ترقی کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک میں 48 فیصد اسکولوں میں ٹوائلٹ کی بنیادی سہولت ہی میسر نہیں، ادھر آنریبل سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں 2181 گھوسٹ اسکول جب کہ 4540 بند اسکول پائے گئے۔
پاکستان کے بچوں کی حالت یہ ہے کہ 45 فیصد کو پوری خوراک ہی میسر نہیں۔ ہر 14میں سے ایک پاکستانی بچہ ایک سال کی عمر سے پہلے ہی مرجاتا ہے جب کہ ہر 11میں سے ایک اپنی پانچویں سالگرہ تک زندہ نہیں رہ پاتا اور ہر 37 منٹ میں بچوں کی پیدائش کے دوران ایک پاکستانی خاتون زندگی ہار جاتی ہے۔ پاپولیشن کونسل فیکٹ شیٹ 2015ء کے مطابق ہر سال اوسطاً 14ہزار پاکستانی مائیں جان سے جاتی ہیں۔ ملک میں غربت کا یہ عالم ہے کہ اپریل 2016ء کے حکومتی بیان کے مطابق پاکستان میں چھ کروڑ لوگ یعنی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
43 فیصد پاکستانی فوڈ ان سیکیور یعنی خوراک کی کمیابی کا شکار ہیں یعنی انھیں پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں جب کہ دوسری طرف ایسے بھی ہیں کہ جن کے پیٹ لاکھوں پھر کروڑوں پھر اربوں پھر کھربوں سے بھی بھرنے میں نہیں آرہے۔ ادھر مئی کی ایک ریسرچ بیسڈ رپورٹ جو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نے تیار کی کے مطابق سندھ کے دیہات میں 76 فیصد یعنی تین چوتھائی خاندانوں کے پاس زمین کی ملکیت نہیں۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ 1970ء کی دہائی میں جہاں ایک طرف بڑی بڑی ملوں سے لے کر چھوٹی چھوٹی کاٹن جیننگ فیکٹریوں تک کو ان کے مالکان سے جبری طور پر چھین کر قومیا لیاگیا وہاں زرعی جاگیرداریوں کے خلاف عملاً کچھ نہ کیاگیا کہ جہاں ملک کے مزدوروں کی عظیم اکثریت کام کرتی ہے۔
ادھر سندھ کے صوبائی پلاننگ اور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جولائی 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے 71 فیصد گھرانے فوڈ ان سیکیور پائے گئے، یعنی خوراک کی کمیابی کے مسئلے سے دوچار، یہ وہی صوبہ ہے جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے عزت مآب چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کی یکم اپریل 2016ء کو اخبارات میں رپورٹ ہونے والی آبزرویشن کے مطابق معمولی سرکاری ملازم بھی ہر سال نئی لینڈ کروز نکلواتا ہے۔
یہ صرف چند علامتیں ہیں کہ کرپشن کیسے اس ملک کو کمزور اور تباہ حال کیے جارہی ہے۔ اس کرپٹ نظام کے حامی اوپر دیے گئے حالات کی ذمے داری ملک کی کمزور مالی حالت پر ڈالتے ہیں جو کہ ادھورا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ ستمبر1999ء میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ڈیولپمنٹ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کا سالانہ حجم 100 ارب روپے تھا جو 2012ء میں اس وقت کے نیب سربراہ ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کے 13 دسمبر 2012ء کو بیان کیے گئے تخمینے کے مطابق ہر روز کے 13 ارب یعنی سال کے تقریباً پانچ ہزار ارب روپوں تک پہنچ گیا۔ تو جناب اس ملک کی یہ کیسی کمزور مالی حالت تھی کہ کرپشن کا سالانہ سائز 13 سال میں تقریباً 100 ارب روپے سالانہ سے بڑھ کر تقریباً 500 ارب روپے سالانہ ہو گیا؟
موجودہ سال اگست میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں 8 ارب ڈالر یعنی کوئی 8 کھرب 38 ارب روپے بیرون ملک بھجوائے گئے۔ 9 مئی 2014ء کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ کم از کم 200 ارب ڈالر یعنی کوئی 20000 ارب روپے پاکستانیوں کے صرف سوئٹزرلینڈ کے ہی بینکوں میں چھپائے گئے ہیں اور پاکستان کی حالت ہے کہ وہ صرف آٹھ ایف 16 طیارے تقریباً 700 ملین ڈالر ادا کرکے خریدنے کے قابل نہیں۔ بہرحال ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں موجود معزز کرپٹ خواتین اور حضرات کوئی غدار نہیں لیکن انھیں بھی یہ ماننا ہوگا کہ ان کی کرپشن کے ہوتے یہاں میر جعفر و میر صادق سے روایتی غدار کرداروں کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ کرپشن بس ملک کو کھوکھلا اور کمزور کرنے کو کافی سے زیادہ ہے۔