بالآخر سیف ایگزٹ مل ہی گیا
خان صاحب کا بھی ایمان اور اعتماد عدلیہ اور الیکشن سے زیادہ احتجاجی سیاست پر ہی ہے
یکم نومبر کی شام تحریک انصاف کے سربراہ کا اچانک اسلام آباد پر دس لاکھ لوگوں کے ہمراہ یلغار کرنے کے پروگرام کو موخر کرنے کا اعلان مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ ایک شخص جو ایک دن پہلے تک اپنے اس اعلان شدہ معرکے کی تیاری کے لیے بنی گالا میں ''پُش اپس'' لگا رہا تھا، اچانک کیسے دوسرے روز پسپا ہوگیا۔ اپنے اس پروگرام کی تبدیلی کی وجہ اس نے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کو بتایا، لیکن اس سے پہلے وہ ہماری کسی عدالت پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی ابتدا تو 20 اکتوبر ہی کو شروع کردی تھی مگر عمران خان اس وقت بھی اسلام آباد بند کردینے کے اپنے احتجاج پر سختی سے کاربند رہنے کے لیے بضد اور مصر تھے۔ وہ کسی بھی صاحب عقل، دانشمند شخص کا صائب مشورے کو قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ تھے۔ ان کے اردگرد منڈلانے والے سیاستداں بھی انھیں اعلیٰ عدلیہ پر یقین نہ کرنے کی پٹی پڑھا رہے تھے۔ شیخ رشید اور بیرسٹر اعتزاز احسن تو کیس عدلیہ میں لے جانے کے پہلے ہی خلاف تھے۔
ان کے خیال میں میاں نواز شریف حکومت سے چھٹکارے کے لیے سب سے اچھا طریقہ سڑکوں کی سیاست ہی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ووٹ اور انتخابات کے ذریعے یہ کام ممکن نہیں ہے اور عدلیہ کے ذریعے بھی میاں نواز شریف کو نااہل کروانا کوئی اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ویسے بھی ہمارے یہاں کسی بھی کیس کو اتنی برق رفتاری سے نہیں نمٹایا جاتا کہ ایک دو ماہ میں کوئی فیصلہ ہوجائے۔
پچھلے دھرنے کے بعد بھی جب عدالتی تحقیقاتی کمیشن بٹھایا گیا تو کہا یہی گیا تھا کہ یہ کمیشن 45 دنوں میں اپنی تحقیقات مکمل کرکے فیصلہ سنادے گا۔ مگر ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ 45 دنوں کے بجائے فیصلہ نوے دنوں میں آیا، وہ بھی خان صاحب کی توقعات کے بالکل برخلاف۔ اسی لیے خود خان صاحب کا بھی ایمان اور اعتماد عدلیہ اور الیکشن سے زیادہ احتجاجی سیاست پر ہی ہے۔
یہ احتجاجی سیاست ہی ہے، جس نے انھیں ابھی تک سیاسی میدان میں قائم ودائم رکھا ہوا ہے، ورنہ عدالتی فیصلوں اور اب تک ہونے والے تمام ضمنی الیکشنوں میں تو مایوسی اور ناامیدی ہی ان کا مقدر بنی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج خان صاحب اچانک سپریم کورٹ سے اتنی امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول سپریم کورٹ ایک ماہ میں پانامہ کیس کا فیصلہ سنادے گی۔ اسے ہم ان کی معصومیت سمجھیں یا ملکی عدالتی نظام سے ان کی ناواقفیت۔ پانامہ کیس کوئی اتنا سادہ اور آسان بھی نہیں ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے صرف ایک ماہ میں میاں نواز شریف کو مجرم قرار دے دیا جائے۔
یہ دراصل اسلام آباد بند کردینے کے اپنے دعوؤں پر ناکامی پر ہونے والی خجالت کو چھپانے کے مترادف ہے۔ وہ تمام کوششوں کے باوجود دس لاکھ افراد یلغار کے لیے جمع نہیں کر پائے۔ انھوں نے اور ان کے قریبی ساتھیوں نے خود کو ایک غلط حکمت عملی کے تحت صرف بنی گالا تک محدود کردیا تھا۔ کوئی بڑا اور قابلِ ذکر لیڈر عوام کو اسلام آباد لانے کے لیے دکھائی ہی نہیں دیا۔ ادھر حکومت نے سابقہ تجربوں کی روشنی میں اسلام آباد میں داخلے کے لیے عمران خان کو فری ہینڈ نہیں دیا اور مقررہ تاریخ سے چند دن پہلے ہی اسلام آباد کو کھلا رکھنے کی حکمت عملی تیار کرلی گئی۔
مختلف حلقوں کی جانب سے جیسا تصور کیا جارہا تھا کہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں ایک بہت بڑا معرکہ ہونے جارہا ہے اور حکومت بری طرح ناکام ہونے جارہی ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اس بار پولیس اور ایف سی کے جوانوں کے ذریعے ہی ڈنڈا بردار بلوائیوں سے نمٹ لیا گیا۔ کسی بھی لمحے پر فوج طلب کرنے کی حاجت محسوس نہیں ہوئی۔ عمران خان سمجھ رہے تھے جس طرح ان کے سابقہ لانگ مارچ اور ممتاز قادری کے جنازے میں لوگ ڈی چوک تک پہنچ گئے تھے، اس بار بھی وہ اپنا جہادی لشکر لے کر اسلام آباد سیکریٹریٹ ضرور پہنچ جائیں گے۔ اور یوں پھر ساری حکومتی مشینری مفلوج ہوکر رہ جائے گی اور اسلام آباد بند کردینے کا ان کا دعویٰ پورا ہوجائے گا۔ مگر وفاقی وزیرِ داخلہ نے ایسا کچھ بھی ہونے نہیں دیا۔
انھوں نے خان صاحب کی سابقہ عہدشکنی کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے دن سے عمرانی لشکر کے لیے تمام راستے سیل کردیے۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی شہر کو بند کردینے کے خلاف اپنے احکامات جاری کردیے، جس نے خان صاحب کے لیے اور بھی مشکلات پیدا کردیں اور انھیں اور ان کے ساتھیوں کو مجبوراً اپنے سابقہ بیانوں کے برعکس یہ کہنا پڑا کہ ''ہم ایک پرامن جمہوری احتجاج کرنے جارہے ہیں، کوئی شہر بند کرنے نہیں جارہے''۔ پروگرام سے دو دن پہلے اسی ہائی کورٹ نے جب ان کے اس احتجاج کو ''پریڈ گراؤنڈ'' تک محدود رکھنے کے لیے آرڈرز جاری کیے تو ان کے وکلاء اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دینے لگے۔
خان صاحب دراصل سیاسی میدان میں ابھی تک طفل مکتب ہی ہیں۔ انھوں نے کرکٹ کے میدان میں خواہ کتنے ہی معرکے سر کیے ہوں لیکن ان کے سیاسی فیصلوں میں بصیرت، دانشمندی اور دور اندیشی کا بہت بڑا فقدان ہے۔ وہ چھوٹی سی کامیابی پر بہت زیادہ جذباتی ہوجاتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی لیے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے میں بھی وہ ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہیں۔ وہ ساری کی ساری کامیابی اکیلے ہی سمیٹ لینا چاہتے ہیں، جس طرح 1992 میں ورلڈ کپ جیت جانے کی کامیابی کو بھی وہ ساری ٹیم کی مشترکہ کوشش قرار دینے کے بجائے صرف اپنی کپتانی کا خاصا قرار دیتے پھرتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ان کا پچھلا 126 دنوں والا دھرنا بھی کوئی ان کے اکیلے کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھا۔ اس دھرنے میں اگر پاکستان عوامی تحریک شریک نہ ہوتی تو وہ اسے دس دن بھی نہیں چلا سکتے تھے۔ یہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے ماننے والے پیروکار ہی تھے جو اتنے طویل عرصے تک ڈی چوک پر بیٹھے رہے، ورنہ تو تحریک انصاف کے چاہنے والے تو سارا دن کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے، بس صرف سرشام موج میلے اور میوزیکل کنسرٹ کے لیے روزانہ جمع ہوجایا کرتے تھے۔ ان کے شرکاء کا یہی اسٹائل آج بھی ان کے جلسوں کو رونق بخشے ہوئے ہے۔ اگر ان کے جلسوں اور ریلیوں سے یہ فیکٹر نکال دیا جائے تو شرکا کی تعداد شرمناک حد تک کم ہوجائے گی۔
نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کے یہاں تحریک آزادی جیسی کوئی چمک دمک، جذبہ اور ولولہ بھی نہیں ہے۔ جو لوگ آنسو گیس کی شیلنگ کے آگے ہی ڈھیر ہوکر پسپا ہوجاتے ہیں وہ بھلا نئے پاکستان کے لیے کیا قربانی دے سکتے ہیں۔ یہ جوش اور جنون والی باتیں صرف تقریروں اور بیانوں ہی تک باقی رہ گئی ہیں، ورنہ حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے تھے، اسی لیے انھوں نے طاہرالقادری کو آخری دم تک مناکر لانے کی ذمے داری شیخ رشید کو سونپ رکھی تھی۔
ان کا خیال تھا کہ عوامی تحریک کے کارکن ایک بار پھر ہراول دستہ بن کر ان کی لڑائی لڑیں گے اور بعد ازاں ساری کامیابیاں وہ اپنے پلڑے میں ڈال لیں گے۔ مگر طاہرالقادری بھی کوئی اتنے بھولے اور ناسمجھ نہیں ہیں۔ وہ نہ خود شریک ہوئے اور نہ ان کے کارکن جانیں دینے کے لیے عمرانی جھانسے میں آئے۔ ایسی صورت میں خان صاحب کے پاس اس سارے جنجال میں جان چھڑانے کے لیے سیف ایگزٹ کے طور پر صرف ایک ہی آپشن یعنی سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت باقی رہ گیا تھا، جسے انھوں نے بروقت استعمال کرلیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک خاموشی اور صبر سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصہ بعد ہی وہبے صبرے ہو کر ایک بار پھر سڑکوں پر نظر آئیں۔