ہماری زرعی پیداوار کی گرانی

میلوں دور امریکا کے الیکشن ہمارے لیے ایک دور کی بات ہیں اور ان کے نتائج ہمارے بس میں نہیں ہیں


Abdul Qadir Hassan November 12, 2016
[email protected]

BANNU: ان دنوں دنیا کے بڑے اور طاقت ور ملک الیکشن کرا رہے ہیں۔ کئی ایک نے اپنی نئی حکومتیں بنا لی ہیں اور دنیا بڑے غور کے ساتھ ان بڑے طاقت ور ملکوں کے انتخابات کا مطالعہ کر رہی ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان ملکوں کی نئی منتخب حکومتوں کی پالیسیوں کے ان کی معیشت پر اثرات ہوں گے اور کمزور ممالک مجبور ہوں گے کہ ان طاقت ور ملکوں کی پیروی کریں اور ان کی تیز و طرار پالیسیوں کے بُرے اثرات سے بچ کر رہیں۔

ہماری دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ہے طاقت ور اور کمزور ممالک اور طاقت ور ممالک اس لیے طاقت ور ہیں کہ وہ اپنے مفادات کے لیے کمزور ملکوں کی پروا نہیں کرتے بلکہ موقع ملے تو ان کو لوٹتے ہیں جس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کمزور مزید کمزور ہو جاتے ہیں۔ ان میں اتنی سکت باقی نہیں رہتی کہ اپنے سے زیادہ طاقت ور ملکوں سے بچ کر رہ سکیں۔

ان دنوں امریکا میں الیکشن ہوئے ہیں اور پوری دنیا نے گھبرا کر اس بڑی طاقت کے الیکشن کو دیکھا ہے اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے کیونکہ ان کمزور ملکوں نے سال بھر ان بڑے ملکوں کے اثرات کو بھگتنا ہے اور اپنی زندگی کو ان ملکوں کی بالادستی سے بچانا ہے۔

ہم پاکستانی دیکھتے ہیں کہ میلوں دور امریکا کے الیکشن ہمارے لیے ایک دور کی بات ہیں اور ان کے نتائج ہمارے بس میں نہیں ہیں یہ امریکی عوام ہیں جو اپنے مفادات کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن ان کا فیصلہ ان کے ملک تک محدود نہیں ہوتا یہ پوری دنیا یا کم از کم پڑوسی خطے کو متاثر کرتا ہے اور بعض اوقات اس کے اثرات ان کمزور ملکوں کے لیے مہلک بھی ہو سکتے ہیں اور ایسا ہوتا رہتا ہے دور کیوں جائیں خود بھارت کی معاشی پالیسیاں اس کے پڑوسی ملکوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ان کا بس چلے تو ان کا استحصال کرتی ہیں۔

بھارت اور پاکستان کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور ان دنوں بڑی حد تک زرعی ملکوں کی پیداوار ان سرحدوں سے ادھر ادھر ہوتی رہتی ہے۔ جب کبھی نئی فصل آتی ہے تو دونوں سرحدوں میں ہلچل سی مچ جاتی ہے اور قیمتوں پر جو سودا بازی ہوتی ہے وہ دونوں ملکوں کی اس بنیادی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ یہانتک کہ بعض اوقات واہگہ لاہور کی تجارت کراچی کو متاثر کرتی ہے۔ اگر دونوں طرف کی پیداوار میں فرق ہو تو یہ فرق قیمتوں تک جاتا ہے اور لاہور اور کراچی میں بعض سبزیوں کی قیمتیں خاصی مختلف ہوتی ہیں۔

اگر ہماری ریل گاڑی کی نقل و حرکت مناسب حد تک ہو تو لاہور اور کراچی کی قیمتوں میں فرق پریشان کن نہیں ہوتا اور سبزیوں کے نرخ کراچی اور لاہور میں زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔ پاکستان ایک جڑا ہوا ملک ہے اور اس کی پیداوار پورے ملک میں فروخت ہوتی ہے اور مارکیٹ کو متاثر کرتی ہے۔ کچھ پہلے کی بات ہے کہ کراچی کی سبزی منڈی سے پیغام موصول ہوئے کہ لاہور اور کراچی میں سبزیوں کے نرخوں کو کنٹرول کیا جائے ورنہ ملک کے دونوں حصوں میں سبزی جیسی بنیادی ضرورت عوام کو ایک جیسے نرخوں پر موصول نہیں ہو گی۔ اس بار واہگہ میں بارشوں کی وجہ سے فصل بہتر ہوئی تھی اور کراچی اور سندھ کے کاشتکار اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

ملک کے مختلف حصوں میں اشیاء ضرورت کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا لازم ہے ورنہ جیسا کہ عرض کیا ہے ملک کے مختلف حصوں میں قیمتوں میں تفریق بڑھ جائے گی اور ضروریات زندگی کی مختلف قیمتیں ایک پریشان کن صورت حال پیدا کر دیں گی۔ پنجاب اور سندھ دونوں زرعی صوبے ہیں اور ان کی فصلیں بھی عموماً ایک جیسی ہوتی ہیں ان علاقوں کے باشندے بھی ایک طرح کی خوراک پسند کرتے ہیں۔ حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کو بڑی احتیاط کے ساتھ فصل کاشت کرنی چاہیے اور بعد میں اس کی قیمتوں کی نگرانی بھی کرنی چاہیے۔

اس سلسلے میں ضروری ہے کہ نقل و حمل کے ذریعے بھی سرگرم رہیں اور ملک کے ایک حصے کی خوراک کو دوسرے حصے میں بروقت سپلائی کریں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں صرف اس کے لیے انتظامی صلاحیت ضروری ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں سپلائی کا سسٹم جاری رکھے اور قیمتوں میں فرق نہ آنے دے۔ میں یہ سطریں ایسے کاروباری لوگوں کی ضرورت کے تحت لکھ رہا ہوں جو اشیاء صرف کی نقل و حمل میں سنجیدگی چاہتے ہیں اور باقاعدگی کے طالب ہیں۔

یہ وہ کاشتکار ہیں جو ظاہر ہے کہ زیادہ تجربہ کار نہیں ہیں لیکن ان کی مدد کے لیے حکومت کے کارندہ سرگرم رہیں تاکہ یہ نہ صرف اپنی پیداوار سے صحیح طور پر مستفید ہو سکیں بلکہ ملک کے مختلف حصوں اور آبادی میں مساوات قائم کرنے کی کوشش بھی کریں تاکہ پورے ملک میں صورت حال پرامن رہے اور کاشتکاروں کے لیے نفع بخش۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں