دھنک سے لال آندھی تک دوسرا اور آخری حصہ
کھانے کے بعد سرور سکھیرا بولے، بس اب وہ راجستھانی گیت سنادو جسے سننے کے لیے میں بے چین ہوں
کھانے کے بعد سرور سکھیرا بولے، بس اب وہ راجستھانی گیت سنادو جسے سننے کے لیے میں بے چین ہوں۔ میں نے کہا سکھیرا صاحب! میں نے گیت تو پورا لکھ لیا ہے مگر میں اس وقت آپ کو گیت کا صرف مکھڑا ہی سناؤںگا کیوںکہ میری خواہش ہے کہ پورا گیت میں کل سنگیتا پروڈکشن کے آفس میں موسیقار کمال احمد اور ہدایت کار سنگیتا کے سامنے سناؤں، امید ہے آپ میری اس خواہش کا احترام کریں گے۔
یہ کہہ کر میں نے راجستھانی گیت کا صرف مکھڑا سنایا جسے سرور سکھیرا صاحب نے کئی بار سنا اور پھر بولے یار جب تم نے گیت کا مکھڑا اتنا خوبصورت لکھا ہے تو پورا گیت بھی ضرور دلکش ہوگا، میں تمہاری بات کی تائید کرتا ہوں، کل ہدایت کار سنگیتا اور موسیقار دونوں کے سامنے جب سناؤ گے تو اس گیت کے بارے میں رائے سب کی کھل کر سامنے آجائے گی۔ اور پھر دوسرے دن جب پروڈکشن آفس میں موسیقار سمیت پروڈکشن کے تمام نمایاں افراد کے سامنے میں نے وہ راجستھانی گیت سنایا جس کے بول کچھ یوں تھے:
تھانے کا جریو بناکے۔ اپنے نیناں میں بند کرلیوں
پھر کہیں جانے نہ دیوں
تھانے ٹیکو بناکے۔ اپنے نیناں میں بند کرلیوں
پھر کہیں جانے نہ دیوں
تھارو رنگ رچ گیؤ مہاری نس نس ما
بیری منوا رہے نہ ہمار بس ما
تھانے ہنسلی بناکے اپنے سینے پہ میں رکھ لیوں
پھر کہیں جانے نہ دیوں
تنے دیکھ کے میں آج پیا پا گلی ہوگئی
میں آج تھارے میٹھے سپنوں میں کھوگئی
تھانے جگ سے چھپا کے من کوٹھڑی ما بند کرلیوں
پھر کہیں جانے نہ دیوں
سب نے گیت کو بڑی توجہ اور خاموشی سے اس طرح سنا کہ کچھ دیر تک ماحول میں خاموشی رہی۔ پھر اس خاموشی کو موسیقار کمال احمد نے توڑتے ہوئے کہا یونس ہمدم سب سے پہلے تو مجھے تم یہ بات بتاؤ کہ کیا تمہارا بھی راجستھان سے تعلق ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا نہیں۔ تو پھر کمال احمد بولے بھئی کمال ہے۔ تم اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتے جب کہ میں خود راجستھان کا ہوں، تم نے تو یہ گیت لکھ کر میرے ہوش اڑا دیے۔ کیسے لکھ دیا تم نے یہ گیت۔ پھر میں نے انھیں بھی مختصراً اپنے محلے کا قصہ سنایا کہ یہ زبان مجھ تک کیسے پہنچی اور پھر اس گیت نے مجھے اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچایا اور سب نے راجستھانی گیت کی بڑی تعریف کی اور اس طرح میں فلم لال آندھی کے مکالمے بھی لکھنے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
موسیقار کمال احمد نے بھی دل سے اس گیت کی بڑی ہی من موہنی دھن بنائی۔ یہ گیت ایورنیو اسٹوڈیو گلوکارہ مہ ناز کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور مہ ناز نے بھی اپنی آواز کا حق ادا کردیا۔ کمال احمد صاحب نے اتنی اچھی الفاظ کی ادائیگی کرائی کہ مہ ناز بھی گیت گاتے ہوئے بڑا اچھا محسوس کررہی تھی۔ اس گیت کی پھر سارے اسٹوڈیو میں دھوم مچ گئی تھی۔ اس گیت کی ریکارڈنگ کے بعد فلم کی کہانی میرے پاس آگئی تھی اور میں نے مکالمے لکھنے شروع کردیے تھے اس دوران فلم کے مزید گیت بھی میڈم نورجہاں اور شوکت علی کی آوازوں میں ریکارڈ کرالیے گئے۔
میرے علاوہ اس فلم کے گیت تسلیم فاضلی اور خواجہ پرویز نے بھی لکھے تھے۔ جس دوران میں فلم کے مکالمے لکھ رہاتھا اس دوران فلم کے دیگر آرٹسٹ بھی کاسٹ کرلیے گئے تھے، جن میں مصطفیٰ قریشی، آصف خان، راحت کاظمی، مسرت شاہین اور بہار بیگم مرکزی کردار تھے۔ فلم کی کہانی کوئی خاص نہیں تھی، روایتی انداز کی تھی، فلم میں دو ڈاکوؤں کی آپس کی لڑائی تھی۔
کویتا ایک گاؤں کی نوخیز اور خوبصورت لڑکی تھی، جس میں دونوں ڈاکو دلچسپی رکھتے تھے، جب کہ وہ لڑکی ایک نوجوان کو چاہتی تھی۔ وہ نوجوان اداکار راحت کاظمی تھا۔ مصطفیٰ قریشی راجستھانی ڈاکو تھا اور آصف خان اس کے مدمقابل ایک ایسا ڈاکو تھا جو لال آندھی بن کر اس کے سامنے آتا تھا۔ دونوں کی دشمنی عروج پر دکھائی گئی تھی، پھر وہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ محبت جیت جاتی ہے اور نفرت دم توڑ دیتی ہے، محبت کے آگے دونوں ڈاکو ہار جاتے ہیں۔
جب فلم کا اسکرپٹ مکمل ہوگیا تو ہدایت کارہ سنگیتا نے فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کا ایک ماہ کا پروگرام بنایا اور آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے ملتان کا وہ علاقہ منتخب کیا جو ریگستان کی صورت میں کافی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ فلم کے یونٹ میں مصطفی قریشی، آصف خان، کویتا، راحت کاظمی، مسرت شاہین اور بہار بیگم ساتھ تھیں۔ یہ یونٹ تین مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ آرٹسٹوں کے ہوٹل الگ تھے اور ٹیکنیشنز کے ہوٹل بھی قریب قریب تھے۔ مصطفیٰ قریشی اور میں ایک ہی ہوٹل کے مختلف کمروں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
صبح سویرے نکلنے سے پہلے ٹیکنیشنز اور آرٹسٹ آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے نکل جاتے تھے، سنگیتا کیونکہ خودوقت کی پابند تھی، اسی لیے سارا اسٹاف بھی وقت کی بڑی پابندی کرتا تھا۔ دھوپ کی تمازت اور ہر طرف اڑتی ہوئی ریت آرٹسٹوں کو پریشان تو کرتی تھی مگر جیسے ہی دھوپ کی تیزی کم ہوتی تھی شوٹنگ میں دلچسپی بڑھتی چلی جاتی تھی۔ ایک بات کا میں بھی بڑا لطف لیتاتھا، راجستھانی مکالموں کی آرٹسٹوں سے درست ادائیگی کرانے کی غرض سے میں ہر وقت لوکیشن پرشوٹنگ کے دوران موجود رہتا تھا۔ ہدایت کارہ سنگیتا کی خواہش تھی کہ ہر آرٹسٹ اپنے مکالمے صحیح ادا کرے۔
اداکار مصطفیٰ قریشی وہ واحد فنکار تھے جو بغیر کسی کے بتائے ہوئے اپنے مکالمے پڑھتے تھے اور پھر بڑی خوبی کے ساتھ راجستھانی لہجے میں ادا کرتے تھے مگر اداکارہ کویتا اور خاص طور پر بہار بیگم مجھ سے کچھ کچھ نالاں رہتی تھیں، کیونکہ انھیں اپنے مکالمے اداکرنے میں بعض اوقات دقت پیش آتی تھی۔
بہاربیگم میری طرف دیکھتے ہوئے کہتی تھیں، لو بھئی آگئی مصیبت اور جب وہ میرے دہرانے کے بعد وہ مکالمے ادا کرتے ہوئے OK ٹیک دیتی تھیں تو ان کی جان میں جان آتی تھی اور میرے اور کویتا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آجاتی تھی۔ کویتا کو مکالمے ادا کرتے ہوئے تھوڑی سی مشکل تو ہوتی تھی، مگر اسے وہ زبان بولتے ہوئے مزا بھی بہت آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اِن ڈور میں سیٹ لگا کر کویتا اور راحت کاظمی پرراجستھانی گیت فلمبند کیا گیا تھا تو اس نے بڑی خوبصورت اداکاری کی تھی اور وہ گیت فلم کا ہائی لائٹ بن گیا تھا۔
ہدایت کارہ سنگیتا نے ریگستانی علاقے میں جس طرح شوٹنگ کی تھی وہ کسی مرد ہدایت کار کو بھی پریشان کرنے کا باعث بنتی مگر سنگیتا نے بڑے حوصلے کے ساتھ ایک ایک شاٹ پر بڑی محنت کی تھی، بعض اوقات ریت کا طوفان ہوا کے ساتھ بڑا پریشان کرتا تھا، آنکھوں اور منہ تک میں ریت کے ذرات چلے جاتے تھے، لیکن شوٹنگ تسلسل کے ساتھ جاری رہتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ایک ماہ کی شوٹنگ بیس دن ہی میں مکمل ہوگئی تھی اور بڑی کامیاب شوٹنگ کے بعد فلم کا یونٹ لاہور آگیا تھا۔
فلم کی نمائش کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی اور فلم ایک اچھے تقسیم کار ادارے نے خرید لی تھی۔ سرور سکھیرا اور ہدایت کارہ سنگیتا نے راجستھانی زبان کی وجہ سے آرٹسٹوں کا انتخاب کچھ اس طرح کیا تھا کہ سندھ سرکٹ میں مصطفیٰ قریشی کی بڑی مانگ تھی اور وہ پنجاب میں بھی بہت پسند کیے جاتے تھے، صوبہ سرحد کے فلم بینوں کی دلچسپی کے لیے آصف خان اور مسرت شاہین بڑے موزوں تھے، پھر پنجاب سرکٹ میں نٹ کھٹ نوخیز کویتا کو بھی پسند کرنے والے بھی بہت تھے اور بہار بیگم کی اپنی ایک جداگانہ شخصیت تھی۔
سرور سکھیرا اپنی فلم سے ہر طرح پرامید تھے اور ویسے بھی یہ فلم عام فلموں سے ذرا ہٹ کر تھی۔ فلم جب نمائش پذیر ہوئی تو فلم بینوں نے اس فلم کو کافی سراہا۔ فلم کی ہدایت کاری اور موسیقی نے بھی فلم کو بڑا سہارا دیا اور یہ بات بھی کم نہیں تھی کہ فلمساز سرور سکھیرا کی پہلی راجستھانی زبان میں بنائی گئی فلم لال آندھی ایک تاریخ ساز فلم تھی۔