جب کوئی افسر

ہمارے ہاں حکمران قسم کے افسروں کی کمی نہیں ہے جو بڑی سفارشوں سے ان عہدوں پر متمکن ہوتے ہیں


Abdul Qadir Hassan November 13, 2016
[email protected]

جب بھی کوئی اعلیٰ قسم اور مرتبے کا افسر تبدیل ہوتا ہے تو وہ اپنے پسماندگان یعنی سابقہ محکموں کے حق میں ایک دعا ضرور کرتا ہے کہ آپ امن کے ساتھ رہیں اور خوشحال زندگی بسر کریں۔

یہ دعائیں خصوصی طور پر مانگی جاتی ہیں کیونکہ جانے والوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ یہ دونوں چیزیں ختم کر کے جا رہے ہیں اور اب کسی نیک بندے کی دعا ہی ان کو واپس لا سکتی ہے ورنہ ان کی واپسی کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ بازپرس اور احتساب کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لیے کسی بھی حکمران کو کسی بھی قسم کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ جو کچھ کرتا رہا ہے کبھی اس کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔

ہمارے ہاں حکمران قسم کے افسروں کی کمی نہیں ہے جو بڑی سفارشوں سے ان عہدوں پر متمکن ہوتے ہیں اور چونکہ ایسے عہدے حاصل کرنے میں وہ بڑی محنت کرتے ہیں اس لیے وہ ان عہدوں سے اپنے مقاصد اور مفادات بڑے واضح رکھتے ہیں اور ان کو جلد از جلد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے گزشتہ زمانوں کے مسلمانوں کو چونکہ علم ہوتا تھا کہ جو صاحب اس محنت اور سازشوں سے کوئی عہدہ لے رہے ہیں، ان کی نیت درست نہیں ہو سکتی ورنہ وہ حسب معمول گھر میں ہی کیوں نہ آرام کرتے رہتے اور حکمرانی کے چکر میں رسوا نہ ہوتے کیونکہ جب آپ کسی بھی طرح حکمران بن جاتے ہیں تو ضرورت مندوں کا ہجوم اس کو گھیر لیتا ہے اور ان سے سب سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا بلکہ یک گونہ ناممکن ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اپنے کتنے ہی گہرے اور پرانے تعلقات سے محروم ہو جاتے ہیں اور ملتا کچھ نہیں ہے۔

اس لیے عقلمند لوگ وہی ہیں جو گھر میں بیٹھ کر عزت کی روٹی کو اقتدار کی پھوں پھاں پر ترجیح دیتے ہیں۔ خود بھی چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کو بھی رسوا نہیں کرتے مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ انسان کو جب موقع ملتا ہے تو وہ اختیار اور اقتدار کی طرف بھاگتا ہے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی کامیاب ہو جاتا ہے تو اس بظاہر شاندار زندگی میں گوناگوں مصیبتوں میں گھر جاتا ہے۔

اس کی دنیا ایسی بدل جاتی ہے جو وہ نہیں چاہتا۔ اس کے دوست احباب اور رشتہ دار رفتہ رفتہ اس سے چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ اب وہ ایک نارمل انسان نہیں رہتا بہت کچھ اپنے پاس رکھتا ہے اور اس کے ملنے والے اس میں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں جو وہ دے نہیں سکتا۔ نئی مہنگی زندگی میں بمشکل اپنا وقت پورا کرتا ہے۔ خود اس کے اپنے بچے بھی اسے چین نہیں لینے دیتے۔ میں نے ایسے بدنصیب لوگوں کو دیکھا ہے جو خوشحال تو ہو گئے مگر ان کی زندگی بدحال لوگوں جیسی ہو گئی۔ بچوں نے سائیکل کی جگہ موٹرسائیکل کے تقاضے شروع کر دیے اور گھریلو خواتین تو خدا جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ عقلمند لوگ گھر میں بیٹھ کر عزت کی روٹی کھاتے ہیں اور مہمانوں، دوستوں کو کھلاتے بھی ہیں۔ ہم مسلمان چونکہ اپنی روایات سے آگے نکل جانے کی فکر میں رہتے ہیں اس لیے ہم نے اپنی یہ روایت بھی ترک ہی کر دی کہ حرص ایک حد تک ہی قابل برداشت ہوتی ہے جب یہ بڑھ جاتی ہے تو پھر رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ان کی کمزوری کے اسی بنیادی نکتے کو سامنے رکھ کر ہمارے شروع کے مسلمان اس شخص کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیتے تھے جو اس کا طلب گار ہوتا تھا کیونکہ قدرتی طور پر یا یقینی طور پر اس طلب کے پیچھے غلط مقاصد ہوتے ہیں اور یہی غلط تھا اور انسان کو خجل و خوار کر دیتے ہیں۔

یہ سب سامنے کی باتیں ہیں اور آپ اپنی زندگی اور گرد و پیش میں یہ سب دیکھ سکتے ہیں۔ انسان کی ہر خواہش کے پیچھے کچھ مقاصد ہوتے ہیں جو عموماً درست نہیں ہوتے کیونکہ ایک نارمل انسان اپنی معمول کی زندگی پر ہی خوش رہتا ہے۔ جب بھی وہ اس سے تجاوز کرتا ہے تو اسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑ جاتی ہے۔

دیکھ لیجیے اپنے قریبی دوستوں، رشتہ داروں کو جو میانہ روی سے ہٹ گئے اور پھر اس کی قیمت ادا کرنے میں زندگی گزر گئی کیونکہ کوئی کسی کو یکایک خوشحال نہیں دیکھ سکتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہ اس میں اپنا حصہ طلب کرتا ہے جس پر اس کا کوئی جائز حق نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھیں کہ ہم پرانے مسلمانوں کا یہ طریقہ سلامتی کا تھا جب ہر کوئی اپنی اوقات میں رہتا تھا اور اسی میں اپنی عزت سمجھتا تھا۔ جب بھی کوئی انسان حد سے بڑھا تو وہ ایک ایسی دنیا میں پھنس گیا جس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ اس نئی دنیا کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔

سلامتی کا راستہ وہی ہے جو ہمارے بزرگ مسلمانوں نے اختیار کیا تھا کہ اپنی حد تک رہو اور اس حد میں زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو۔ جن لوگوں نے حد کے اندر زندگی بسر کی وہ باعزت بھی رہے اور مطمئن بھی کیونکہ اطمینان زیادہ دولت میں نہیں، اس سلیقے میں ملتا ہے جو آپ زندگی کی آسائشوں میں رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں خوشحالی کو ہمیشہ اچھا سمجھا گیا کہ انسان کسی کا محتاج نہ ہو لیکن یہ خوشحالی ان لوگوں کو راس آئی جنھوں نے اس کو قرینے اور سلیقے کے ساتھ بسر کیا۔

غریبی امیری انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے اور یہ دونوں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کی خرابیوں سے بچ کر رہنا بھی ایک کمال ہے اور یہ کمال جس کسی کو مل گیا اس کی زندگی سنور گئی اور اس کے اہل و عیال مطمئن ہو گئے کیونکہ زیادہ دولت سے سکون نہیں ملتا اس سے پریشانی ملتی ہے جس سے نجات پانے کے لیے بڑی محنت اور ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے جہاندیدہ بزرگوں نے اللہ تعالیٰ سے مناسب رزق ہی طلب کیا ہے جس میں آسودگی ہو، بے چینی نہ ہو۔

آپ کو کسی کتابی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں، قریب کی زندگی دیکھئے کہ کون خوشحال یعنی خوش ہے اور کون بے چین ہے۔ یہ سب کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں دیکھ سکتا ہے اور اپنے ماحول میں اگر غور سے دیکھے تو اس کو آسودہ اور حرص زدہ لوگ دکھائی دیں گے جو خود بھی تنگ رہتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی پریشان کرتے رہتے ہیں یعنی یہ خود بھی اور ان کے ساتھی بھی آرام کی زندگی سے محروم رہتے ہیں۔

زندگی کے یہی چند دن ہیں جو ہم لوگ اپنی حکمت و دانائی سے بسر کر سکتے ہیں ایک نارمل انسان کی طرح لیکن ہمارے بڑے افسر نہ خود نارمل رہتے ہیں اور نہ اپنے ملنے والوں کو رہنے دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں