مسلم ممالک آگ و خون کی لپیٹ میں

شام سے افغانستان تک امہ جنگ اور دہشت گردی کا شکار، امن کا راستہ کون ڈھونڈے گا؟


آصف زیدی November 13, 2016
ہمارا ملک پاکستان بھی دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کا شکار ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI: گذشتہ کئی دہائیوں کی طرح رواں سال 2016ء بھی اسلامی دنیا کے لیے امن کے حوالے سے کچھ اچھا سال ثابت نہیں ہو پایا ہے۔ غیرمسلم ملکوں میں تو مسلمانوں کو مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہی ہے لیکن مسلم ممالک میں بھی ایک اﷲ اور ایک رسولﷺ کے ماننے والے مختلف تنازعات، جنگ و جدال، فوج کشی، غاصبانہ قبضے، ظلم و زیادتیوں، دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے مصائب کا شکار ہورہے ہیں۔

شام، یمن اور عراق کے باسی مسلسل جنگوں، بم باری، دھماکوں کا سامنا کر رہے اور دھوئیں اور بارود کی فضا میں سانس لے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی نئی نسل کو اپنا مستقبل غیریقینی کے لبادے میں نظر آرہا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی نے بھی مختلف ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

پاکستان، ترکی اور دیگر اسلامی ریاستوں میں آئے دن دھماکے، تخریبی کارروائیاں اور دہشت گردی کی وارداتیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اسلام دشمن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یا اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے مسلم دنیا کو ابتری پر رکھنے کے مشن پر کاربند ہیں۔



اقوام متحدہ کی واضح قرار دادوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام ابھی تک اپنے حق خود ارادیت سے محروم ہیں اور بھارت کی منافق، ظالم اور ہٹ دھرم حکومتیں جبر اور طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو دبانے اور ان کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے پالیسیاں بناتی رہتی ہیں لیکن کوئی ظلم، کوئی ستم کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کرسکا۔

دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کے عوام بھی برسہا برس سے اسرائیلی ظلم کے خلاف برسرپیکار ہیں، عالمی برادری کی تشویش، مذمت اور امن کی اپیلیں بھی صہیونی حکومتوں کے پتھر دل موم نہیں کرسکیں جس کی وجہ سے عالمی تنازعات میں فلسطین کا ایشو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مختلف سنجیدہ حلقوں اور عالمی مبصرین کی رائے کے مطابق اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کا بڑا سبب مسلم حکم رانوں میں عدم اتفاق ہے۔ بہت سے عالمی پلیٹ فارمز پر مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کے بیانات دینے والے حکم راں وقت آنے پر بہت سے معاملات پر مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں یا کسی ایک نکتے پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی مسئلے کا ٹھوس حل پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسئلہ اپنی جگہ ہی رہتا ہے اور متاثرہ مسلم آبادی بھی پریشانیوں کا شکار رہتی ہے جب کہ اسلام دشمنوں کو تقویت ملتی ہے۔



افغانستان میں نام نہاد منتخب حکومت آنے کے باوجود امن و امان کی صورت حال انتہائی غیرتسلی بخش ہے۔ افغان طالبان اور اب داعش کے مختلف گروپ افغان فوج اور نیٹو کی افواج کے ساتھ لڑرہے ہیں۔ روزانہ درجنوں ہلاکتوں کی اطلاعات ملتی ہیں۔ ڈرون حملے بھی ہورہے ہیں۔ شدت پسندوں کے سرکردہ لیڈروں کو مارنے کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔ افغانستان کے عوام بھی غیریقینی صورت حال کا شکار ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین بھی حالات کی بہتری تک اپنے وطن جانے سے گریزاں ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ افغان حکومت بھی افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ پھر افغان حکومت کے اپنے اختلافات امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کا الزام پاکستان پر ڈالنے کی لت میں مبتلا افغان حکومت افغان عوام کے اتحاد کے لیے کچھ بھی نہیں کررہی، جس کی وجہ سے خطے میں سیکیوریٹی کی صورت حال خراب ہورہی ہے۔

شام اور یمن میں بھی جو کام مذاکرات کے ذریعے ممکن تھا وہ بم باری کے ذریعے کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ شام میں کبھی سرکاری فوج ، کبھی سرکاری فوج کے مخالفین کی بم باری کی وجہ سے سیکڑوں لوگ ہلاک، ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ بہت سے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں اور وہاں بھی بجائے اس کے کہ مسلم حکم راں اپنا کردار ادا کرتے، امریکا، روس اور دیگر ممالک علاقے میں اپنے اپنے تسلط کے لیے اقدامات میں مصروف ہیں۔ اس ساری صورت حال میں نقصان صرف مسلم امہ کا ہورہا ہے۔



اہم اسلامی ملکوں کو مختلف تنازعات میں فریق بننے کے بجائے منصف اور ثالث کا کردار ادا کرنا ہوگا تبھی جاکر مسلمانوں کو درپیش مشکلات و مسائل کا تدارک ممکن ہے۔

ترکی میں بھی دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے صورت حال کو سنگین کردیا ہے۔ چند ماہ قبل ناکام بغاوت کے بعد سے ترک حکام گوکہ باغیوں ان کے سہولت کاروں اور باغیوں کے ہم خیالوں کے خلاف انتہائی سخت کارروائیاں کررہے ہیں، لیکن گرفتاریوں، نظربندیوں اور پابندیوں کے درجنوں اقدامات کے بعد بھی دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات اس بات کی دلیل ہے کہ مسائل مل بیٹھ کر ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔ طاقت سے وقتی طور پر کوئی چیز دب سکتی ہے ہمیشہ کے لیے نہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی ان کا حق دلانے میں مسلم امہ ابھی تک ناکام رہی ہے۔ او آئی سی ہو یا دوسری اسلامی پلیٹ فارمز، مذمتی بیانات اور مشترکہ اعلامیے تو بہت آئے لیکن عالمی سطح پر بھارت کو پسپا کرنے اور اسے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے لیے مجبور کرنے والا مسلم اتحاد تاحال نہیں بن سکا۔

مقبوضہ فلسطین میں بھی اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ اپنی جرأت ایمانی اور جذبۂ جہاد کے ذریعے فلسطین صہیونی مظالم کا سامنا کررہے ہیں لیکن انھیں بھی انتظار ہے کہ اسلامی دنیا ایک آواز ہوکر عالمی سطح پر ان کی مدد کے لیے قدم بڑھائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ دن کب آتا ہے جب دنیا پر مسلمانوں کا اتحاد اتنا مضبوط ، موثر ہوگا کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے عالمی برادری کا سامنا کرے اور اپنی بات بھی منوائے۔



ہمارا ملک پاکستان بھی دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کا شکار ہے۔ ملک دشمنوں کو ''اسلام کا قلعہ '' کہلانے والے پاکستان کی ترقی اچھی لگتی ہے نہ امن۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی دھماکے اور دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے خوف و ہراس اور بے یقینی پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے ذریعے مختلف فرقوں اور مسالک میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دعا ہے کہ ہماری سیکیوریٹی فورسز ملک دشمنوں پر قابو پائیں۔

مسلم دنیا کے مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ مسلم حکم راں اجتماعی مفادات کے لیے سوچیں اور اسی کے مطابق عمل کریں۔ اگر اب بھی مسلم ممالک پر برسراقتدار طبقے نے ذاتی مفادات اور مصلحتوں کا سہارا لیا تو مسلمانوں کے مسائل کم نہیں ہوں گے بڑھیں گے، جس کی سب سے زیادہ ذمے داری مسلم حکم رانوں پر عائد ہوگی۔ ابھی بھی مسلم حکمراں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے کافی حد تک ذمے دار ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک پر مشتمل ایک ایسی موثر تنظیم یا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو مختلف اسلامی ملکوں میں جاری تنازعات کے حل کے لیے عالمی برادری سے رابطے کرے اپنی تجاویز ان تک پہنچائے اور اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے دنیا کو مجبور کرے۔ اس کے لیے بھی پسندوناپسند اور ذاتی مفادات چھوڑ کر صرف اور صرف اسلامی دنیا کے تشخص کو اجاگر کرنے اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے مقصد کو نظر میں رکھنا ہوگا۔ دنیا بھر کے مسلمان اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ان کے مسائل حل ہوں گے اور کون ان کے مسائل حل کرائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں