وزیراعلیٰ نلکا نہیں لگواسکا
والدہ کے پاؤں پکڑے اورزمین پر بیٹھ گیا
عمی یارانتہائی ضعیف عورت تھی۔مختلف بیماریوں کا شکار۔ ہڈیوں کا سانس لیتاہوا ڈھانچہ۔ غربت کی وجہ سے گھرمیں کوئی ملازم بھی نہیں تھا۔ معمولی سے گھر میں ہرکام خودکرتی تھی، سوائے کھانا بنانے کے۔کھانابنانا اس کے بیٹے کاکام تھا۔ادنیٰ ساکھانا۔عمی یار پیرانہ سالی کے اُس درجہ پر تھی کہ کام کرنے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔مگرایک کام کرنالازمی تھا۔پورے محلے میں کسی بھی گھرمیں پانی کانلکا نہیں تھا۔کمیٹی کاواحد سرکاری نل محلے سے تھوڑی دورتھا۔ بوڑھی عورت سالہاسال سے پانی کا برتن سرپررکھتی۔آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سرکاری نل کے پاس آتی۔وہاں عورتوں کی لائن میں لگ جاتی۔ باری آنے پر پانی برتن میں بھرتی۔ برتن رکھتی اوربڑی مشکل سے قدم اُٹھاتے ہوئے گھرواپس آجاتی۔
آنے جانے میں تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا۔ اگرلائن لمبی ہوتوکبھی کبھی دوگھنٹے بھی۔اکثراوقات ایسا ہوتا کہ میونسپل کمیٹی کے نلکے میں پانی وقت پرنہ آتا۔بوڑھی عورت زمین پربیٹھ جاتی اور انتظارکرتی رہتی۔ یہ تکلیف دہ عمل تھا مگربدن اورروح کارشتہ برقراررکھنے کے لیے عمی یار ایسا کرنے پر مجبورتھی۔ بیٹاکھانابناکر سرکاری کام پرچلاجاتا اور رات گئے گھرآتا۔ماں اوربیٹے کی ملاقات رات گئے ہی ہوپاتی۔واپس آکربیٹااپنی ماں کے پیردباتا۔پھر ماں کے قدموں کے نزدیک ایک تخت پوش پرسوجاتا۔لکڑی کے اس بینچ نمابیڈ پرمعمولی سی چادربچھی رہتی۔اسی عسرت اور غربت میں ماں بیٹا اپناوقت گزاررہے تھے۔
ایک دن والدہ کی طبیعت خراب تھی۔صبح صبح اُٹھ کر پانی لینے نہ جاسکی۔شام کوبیٹاگھرآیاتوماں نے انتہائی لجاجت سے بیٹے کوکہاکہ وہ محلے میں گھرکے بالکل نزدیک پانی کانلکالگوادے تاکہ دورنہ جاناپڑے۔ ماں یہ نہیں کہہ رہی تھی کہ میونسپل کمیٹی کانلکااس کے گھرمیں لگوادے۔اس کی درخواست توبالکل جائزتھی۔محلے میں گھرکے نزدیک ۔ جائز درخواست،بالکل درست بات۔ بیٹے نے جواب دیاکہ وہ یہ کام نہیں کرسکتا اورنہ ہی کراسکتاہے۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔کیا یہ بہت بڑی فرمائش ہے؟بیٹے کی آنکھوں میں بھی سیلاب آگیا۔
والدہ کے پاؤں پکڑے اورزمین پر بیٹھ گیا۔ جواب وہی پراناتھاکہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔اس لیے کہ اگرمیں اپنے محلے میں پانی کاانتظام کروںگا تولوگ طعنہ دیںگے کہ میں نے اپنی سرکاری پوزیشن سے فائدہ اُٹھایاہے۔کیونکہ اس کے صوبے میں آج تک ہرمحلہ میں سرکاری پانی کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاسکی۔
دوسری بات، اگروہ اپنے گھرمیں میونسپل کمیٹی کاپائپ لگواتاہے توپوری ریاست میں لاکھوں ایسے گھرہیں جہاں سرکاری پانی نہیں جاتا۔اگرہرگھرمیں سرکاری پانی جائے گا تواس پرحکومت کا بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔ابھی سرکاری خزانہ میں اتنے پیسے نہیں ۔بوڑھی عورت خاموش ہوگئی کیونکہ بیٹادرست بات کہہ رہاتھا۔یہ کسی ادنیٰ درجہ پرکام کرنے والے کاگھرنہیں تھا۔ویسے ادنیٰ توکوئی کام نہیں ہوتا۔یہ گھرتامل ناڈوکے وزیراعلیٰ کام راج کا تھا۔ایک ایسادیومالائی سیاسی لیڈر جو جسے چاہتا،ہندوستان کاوزیراعظم بنادیتاتھا۔اندراگاندھی کو وزیراعظم بنوانے میں کام راج کاہی ہاتھ تھا۔ہندوستانی سیاست کا بے تاج بادشاہ اورتامل ناڈوکاوزیراعلیٰ ایمانداری اورکردارکی کس بلندی پرتھا۔اس کافیصلہ خودکرلیجئے۔
کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوتی ہے۔کام راج کی کابینہ کے پی ڈبلیو ڈی کے وزیرکوجب صورتحال کی بھنک پڑی تواس نے فوراً وزیراعلیٰ کی ضعیف والدہ کی خواہش کا احترام کیا۔ محکمہ کے وزیرکے حکم پرچندگھنٹوں میں عمی یارکے گھرمیں میونسپل کمیٹی کاپانی فراہم کردیاگیا۔پی ڈبلیوڈی کے وزیرنے یہ کام شائدوزیراعلیٰ کوخوش کرنے کے لیے کیا ہوگا۔
رات کومعمول کے مطابق جب کام راج گھرآیا تو اپنے گھر میں سرکاری پانی کی فراہمی دیکھ کرحیران ہوگیا۔اس نے تو ایساکوئی حکم صادرنہیں کیا تھا۔فورًامحکمہ کے افسران اور وزیر کو بلایاگیا۔ پی ڈبلیو ڈی کے وزیرنے اعتراف کیاکہ سرکاری نلکے کی فراہمی کا حکم اس نے دیاتھا۔یہ صرف اس لیے کیا گیا کہ وزیراعلیٰ کی والدہ بہت ضعیف ہیں اوران کے لیے محلے سے باہرجاکرپانی لانا بہت مشکل ہوچکا ہے۔کام راج، وزیراعلیٰ تھا۔یادرہے کہ تامل ناڈوایک بہت بڑی ریاست ہے۔وہ شدیدغصہ میں آگیا۔اپنے گھرمیں سرکاری پانی کے نل کوفوری طورپرکٹوادیا۔اسکاکہناتھاکہ تامل ناڈوکی ہرضعیف عورت اس کی والدہ ہے۔جب پوری ریاست میں سرکاری پانی کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جاسکی تواس کی اپنی والدہ کوبھی کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔
میونسپل کمیٹی کے اہلکار اور وزیر جواب سنکررفوچکرہوگئے اورجب تک کام راج وزیراعلیٰ رہا، انھوں نے اس کے گھرمیں کوئی جائزاورسرکاری سہولت دینے کا خواب تک نہیں دیکھا۔ یہ کوئی الف لیلیٰ کی کہانی نہیں سنا رہا۔ صدیوں پہلے کے کلاسیکل پیریڈکی بات بھی نہیں کر رہا۔ ساٹھ اورستر کی دہائیوں کاذکرہے۔وہی دور جس وقت ہمارے ملک میں لوٹ کھسوٹ اوررشوت کا بازارگرم ہوچکا تھا۔گرم کیا،بازارمصربن چکا تھا۔
کام راج سیاسی طورپراس درجہ مضبوط تھاکہ نہ صرف اندراگاندھی بلکہ لال بہادرشاستری بھی صرف اور صرف اس کی بدولت وزرات عظمیٰ کے تخت پربیٹھ سکا تھا۔ کام راج ہی تھا جس نے چالیس برس قبل غریب طلباء، طالبات، مزدوروں، محنت کشوں کے لیے سرکاری سطح پرکھانے کاانتظام کیاتھا۔یہ اس مردِعجیب کاکارنامہ تھاجسے بعد میں ہندوستان کی کئی ریاستوں نے نقل کیا۔کام راج کا غرباء کے لیے یہ بے مثال کام تامل ناڈومیں کسی تعطل کے بغیر آج بھی جاری ہے۔ تعلیمی میدان میں غریب بچوں کی مفت تعلیم بھی اسی کاایک کارنامہ ہے۔اقتدارکے سورج سے درویش شخص نے اپنے گھرمیں سرکاری فائدہ کی ایک کرن تک نہیں آنے دی۔
ایک دن فیصلہ کیاکہ اب اپنی سیاسی جماعت کی تنظیم نوکرے گا۔اس نے وزیراعلیٰ کے عہدے کو چھوڑنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ ہندوستان کے وزیراعظم نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ وہ استعفانہ دے۔مگرکام راج فیصلہ کرچکاتھا۔اَٹل فیصلہ۔ استعفیٰ دینے کے بعد اپنی سیاسی پارٹی کے لیے کام کرتارہا۔یہ فیصلہ آخری دم تک قائم رہا۔کیاآپ یقین کرینگے کہ اس عظیم شخص کافیصلہ کہ وزارت اعلیٰ کوئی بڑامنصب نہیں بلکہ اصل کام تواپنی سیاسی جماعت کومضبوط کرنااورلوگوں کی خدمت کرناہے۔سیاست کی دنیامیں ایک انوکھے سیاسی باب کااضافہ کرگیا۔کام راج کی نقل کرتے ہوئے،چھ ریاستوں کے وزراء اعلیٰ نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے ڈالااورباقی زندگی پلٹ کربھی واپس نہیں دیکھا۔ تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہنے والاکام راج ہندوستان کی عوامی سیاست کا ایک دیومالائی کرداربن چکاہے۔
قطعاًگزارش نہیں کررہاکہ ہندستان میں سیاستدان دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔لسانی،نسلی اورمعاشرتی تعصب کوبالائے طاق رکھ کرجب یہ سب ضبط تحریر کر رہا ہوں تو عجیب سی کیفیت ہوچکی ہے۔ایک ایسی کیفیت جسکاکوئی نام نہیں یا شائد بہت سے نام ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مقتدرطبقہ کی طرف نظرپڑجاتی ہے۔ ہرگزہرگزنہیں چاہتاکہ تقابلی جائزہ لوں۔مگرحقیقتیں اورسچ سامنے آکرمیرے قلم پر قبضہ کرلیتے ہیں۔قیام پاکستان سے لے کرآج تک اپنے سیاسی مزاج اورکلچرکاجائزہ لیں۔ خاموشی سے سوچیے۔گنتی کے چندایمانداراورسادہ سیاستدانوں کے علاوہ ہرطرف اندھیرنگری نظرآئے گی۔ مثال دیتے ہوئے بھی الجھن ہوتی ہے،شائد تکلیف ہوتی ہے۔آپ وزراء اعظم،صدور،وزراء اعلیٰ کوتوخیرچھوڑدیجئے۔
ان کا ذکر کرناہی عبث ہے۔اعلیٰ سرکاری ملازمین سے لے کرتمام اعلیٰ ریاستی عہدہ دارکسی صورت میں سادہ زندگی گزارنے کے قائل نہیں۔معاشرے کی دیگ کے ایک دانے سے ہر طرح کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے جب قلیل تنخواہ حاصل کرنے والے اعلیٰ سرکاری افسروں کے پاس مرسیڈیز اوربی ایم ڈبلیوگاڑیاں نظرآتی ہیں۔ جو اہلکار اقتدار اعلیٰ کے نزدیک ہے۔اس کے تمام گناہ معاف ہیں بلکہ وہ آبِ زمزم میں دھلا ہوا ہے۔ مگر غیرسیاسی اورقدرے ایماندار سرکاری ملازم بیکار زندگی گزار رہے ہیں۔ان کوچن چن کروہ وہ ادنیٰ پوسٹنگ دی جاتی ہیں۔
جہاں وہ صرف اور صرف وقت گزارتے ہیں،بلکہ زندگی ضایع کرتے ہیں۔ ان کی اہلیتیں اورصلاحیتیں کبھی بھی ملک وقوم کے لیے مثبت طریقے سے استعمال میں نہیں لائی جاتیں۔ پیرس سے ایک دوست نے فون کرکے بتایاکہ شانزالیزاکے نزدیک ایک انتہائی مہنگی مارکیٹ ایک نوجوان سرکاری ملازم نے ملازمت کے ٹھیک دس سال بعدخریدلی ہے۔
قطعاً عرض نہیں کررہاکہ ہندوستان میں تمام سیاستدان کام راج جیسے ہیں اورہمارے ہاں تمام سیاستدان کرپٹ ہیں۔ایک قریبی عزیزحکومتی ایم پی اے کودیکھتاہوں توقدرے حوصلہ ہوتا ہے۔دوسری بارپنجاب میں ایم پی اے بناہے۔حکومتی پارٹی سے تعلق رکھتاہے۔مگراس کے پاس ذاتی گھرتک نہیں ہے۔اس کے پاس صرف ایک گاڑی ہے جواکثراس کے استعمال میں رہتی ہے۔بچے آج بھی ویگن پرسکول جاتے ہیں۔ کرایہ کے مکان میں رہنے والایہ شخص ہمارے ہی معاشرے کاحصہ ہے۔اسکاآبائی گھربھی محض پانچ مرلے کا مکان ہے۔وہ بھی والدنے بیس سال پہلے تعمیر کیا تھا۔ مگر اس طرح کے صاف ستھرے سیاستدان ہمارا سیاسی نظام زیادہ دیربرداشت نہیں کرتا۔تھوڑے عرصے بعدان بلند کردار لوگوں کوکونے کھدروں کی نذرکردیاجاتاہے۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔میراخیال ہے، ہورہاہے۔
کام راج جیسے عظیم لوگ اگر ہرشعبہ میں ہونگے توہی ملک ترقی کرپائیگا۔ورنہ بدیسی رپورٹیں اوربین الاقوامی اقتصادی ادارے ہماراتماشہ بناتے رہیںگے اورہم تماشا بنتے رہیںگے۔ساٹھ سال سے تویہی ہوتاآرہاہے۔مجھے اپنے ملک کے کام راج کاشدت سے انتظارہے!